گھر واپسی کا مایا جال اور لکشمن ریکھا (قسط دوم)

گھر واپسی کی بحث میں بیرسٹر اسدالدین اویسی کے اس بیان کے بعد کہ اسلامی عقیدے مطابق دنیا کے سارے لوگ پیدائشی مسلمان ہیں ایک نئی جان پڑ گئی ہے۔اصولی طور اویسی صاحب کا بیان صد فیصد درست ہے اور اس سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں مگر جب اسے گھر واپسی کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جاتا ہے تو بات کہیں اور نکل جاتی ہے۔ مختلف اصطلاحات کا استعمال اپنے ساتھ اس کا پس منظر بھی در آمد کرلیتا ہے۔ ہر بچہ دین فطرت پر دنیا میں آتا ہے اس کے والدین اس کو یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اس بچے کے سامنے دین اسلام کو پیش کیا جائے اور اسے دعوت دی جائےتاکہ اس کا خاتمہ بھی اسلام پر ہو۔ اس بابت ابتداء سے زیادہ اہمیت انتہا کو حاصل ہے اگر کسی بچہ کو اس کے والدین یہودی یا نصرانی نہ بنائیں اور وہ شیطانی آیات تصنیف کرے یا اس دنیا سے جاتے جاتے یہ وصیت کرجائے کہ اس کی لاش کو دفنانے کے بجائے جلا دیا جائے تو اس کے متعلق کیا کہا جاسکتا ہے؟ اس لئے ہمیں گھر واپسی کا راگ الاپ کر سیاسی فائدہ اٹھانے کے بجائے اصلاح وتبلیغ کی جانب توجہ دینی چاہئے۔

فسطائی منافقت کی اعلیٰ ترین مثال تو یہ ہے کہ ہندووں کا دھرم پریورتن جرم عظیم ہے اور مسلمانوں اور عیسائیوں کےمذہب کی تبدیلی گھر واپسی ۔ اسی کو کہتے ہیں جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔جو ہندو احیاء پرست یہ کہتے ہیں کہ سارے مسلمان اور عیسائی کسی زمانے میں ہندو تھے ان کو ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر مسلمان یا عیسائی بنایا گیا وہ دراصل اپنے پرکھوں کی توہین کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہی حربہ استعمال کرکے مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوبارہ ہندو بنا دیں لیکن اس ملک کے مسلمان یا عیسائی ان کی اس دلیل سے اس تک حد تک تو اتفاق کرتے ہیں کہ ممکن ہے ہمارے آباو اجدادا میں سے بہت سارے ہندو رہے ہوں لیکن وہ ان ہندو احیاء پرستوں کی مانندڈرپوک لوگ نہیں تھے مثلاً آگرہ میں دھرم پریورتن کا ناٹک رچانے والا والمیکی جوگرفتاری کے خوف سے فرار ہوکر کسی چوہے کے بلِ میں جاچھپا تھا۔ وہ راج کشورکی طرح بزدل بھی نہیں تھے کہ جس نے انتظامیہ کی ایک دھمکی سے علی گڑھ کا سمیلن ملتوی کردیا اور نہ آر ایس ایس کی مانند ابن الوقت تھے کہ مشکل گھڑی میں اپنے ۳۶ سال پرانے وفادار کو دربدر کردیا۔ہمارے آبا و اجداد اگر ایسے ہوتے تو کبھی بھی اسلام قبول کرنے کی جرأت نہیں کرتے اور ابھی تک سنگھ پریوار کی مانند خاکی نیکر پہن کر ہوا میں لاٹھیاں گھمارہے ہوتے۔ وہ ایسے لالچی بھی نہیں تھے کہ ایک مسلمان کو ہندو بنانے کی خاطر پانچ لاکھ روپئے چندہ جمع کیا اور ایک ڈرامہ پر ۱۵۰۰ روپئے خرچ کرکے اور۱۵ کروڈ روپئے ڈکار گئے(اگر ۳۰۰ کا دعویٰ سچا ہے)۔

اگر ہندو احیاء پرست واقعی جاننا چاہتے ہیں کہ ہمارے اسلاف نے نورحق کو کس طرح قبول کیا تو تاریخ کے اوراق کو الٹ کر دیکھ لیں ۔ اس کی ایک مثال ۵۸۶ہجری کی ہے جب خواجہ معین الدین چشتیؒ دعوت وتبلیغ کی غرض سے ہندوستان کیلئے نکلے ملتان میں رک کر پانچ سال تک سنسکرت زبان سیکھی اوراجمیر میں آن بسے۔مقامی لوگوں نے جب ان کی کٹیا میں داخل ہوکرآمدکی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایاکہ میں مسلمان ہوں اور تمہیں اللہ کا پیغام پہنچانےکیلئےآیا ہوں۔گو کہ میں تمہارےدرمیان تنہا ہوں۔ پھر بھی تمہیں خدا کا پیغام سناؤں گا اور تمہیں وہ پیغام سننا ہو گا۔ اگر تم اپنےکان بند کر لو گےتو تمہاری سماعتوں میں شگاف پڑ جائیں گی۔ یہ پیغام تمہارےذہن و دل کی گہرائیوں میں اتر کر رہےگا۔ اگرتم اپنےگھروں کےدروازےبند کر لویادل و دماغ پر پہرےبٹھا دو تب

بھی روشنی کی کرنیں آہنی دروازوں سےگزر کر تم تک پہنچ جائیں گی۔ یہ بات راجپوتوں کوناگوار گزری انہوں نےتلخ لہجےمیں کہا کہ ہم اپنی زمین پر یہ سب کچھ برداشت نہیں کر سکتے۔ آپ نےفرمایا کہ یہ زمین اللہ کی ہےاگرکسی انسان کی ملکیت ہوتی تو تمہارےباپ دادا موت کاذائقہ نہ چکھتےیا زمین کو اٹھا کر اپنےساتھ لےجاتے۔ آپ کا یہ جواب سن کر راجپوتوں نےکہا کہ ہم کسی اللہ کو نہیں جانتےزمین و آسمان پر ہمارےدیوتاوں کی حکومت ہے یہاں تمہارےرہنےکی ایک ہی صورت ہو سکتی ہےکہ تم دوبارہ اپنی زبان پر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لاو ۔ اس پر آپ نےفرمایا’’میں تو اسی کےنام سےزندہ ہوں اور تمہیں بھی اسی کےنام کی برکت سےزندہ کرنےآیا ہوں۔‘‘ ایک راجپوت نے اللہ کا وہ پیغام سننے کی فرمائش کی جسے لیکرآپ تشریف لائے تھے۔ آپ نے سورہ اخلاص پڑھ کر اس کا ترجمہ سنسکرت زبان میں سنایا اورکہا کہ اللہ کو سب سے ناپسند اپنے ہی ہاتھوں سے بنائےہوئےبتوں کی پرستش ہے۔ مٹی کےجو بت ایک جگہ سےدوسری جگہ خودحرکت نہیں کر سکتےوہ تمہاری مدد کیا کریں گے؟ یہ جواب سن کر راجپوت سپوت آگے بڑھے اور انہوں نے اسلام کی دعوت پر لبیک کہا ان میں سے جو کپوت تھے وہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن بن گئے ۔ ان کے ونشج آج بھی اسلام کی دشمنی پر تلے ہوئے ہیں لیکن ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود اسلام کا نور پھیلتا رہا ۔

ہمارے پرکھوں نے تمام تر مخالفت کے باوجود نہ صرف اسلام کو قبول کیا بلکہ صبرو استقامت کے ساتھ اس روشن شاہراہ پر اپنی زندگی کا سفر جاری و ساری رکھا ۔ اسی کے ساتھ وہ تبلیغ دین کی اپنی ذمہ داری سے بھی غافل نہیں ہوئے۔ چراغ سے چراغ روشن کرنے کا سلسلہ نہ کبھی رکا ہے اور نہ رکے گا۔اس سال بھی میلاد النبیؐ کے موقع پر ملک بھر میں بے شمار ایسی مجلسوں کا اہتمام کیا گیا جس میں برادران وطن تک دین اسلام کی دعوت پہنچائی گئی۔ گجرات کے فساد زدہ علاقہ نرودہ پاٹیہ میں بھی چوراہے کے اوپر بک اسٹال لگا کر اسلامی کتب غیر مسلمین تک پہنچایا گیا۔ مہاراشٹر میں جہاں اتحا دالمسلمین جملہ ۲ اور دیگر جماعتوں کے کل ۸ مسلم ارکان اسمبلی انتخابی عمل میں کامیابی درج کراسکے جماعت اسلامی ہند نے’’ اسلام سب کیلئے‘‘ کے موضوع پر ایک زبردست عوامی بیداری مہم شروع کی اور کروڈوں غیر مسلمین تک اسلام کا پیغام پہنچانے کا بیڑہ اٹھا یا ۔

تبلیغ دین مسلمانوں کی کوئی سیاسی ضرورت نہیں بلکہ فرض منصبی ہے۔ یہ کام نہ قانون کے زور سے چلتا ہے اور نہ اسے قانون کی مدد سے روکا جاسکتا ہے۔ ہمارے آباو اجداد نہایت جری اور بہادر لوگ تھےجواپنےتن من دھن کی بازی لگا کر دین اسلام میں داخل ہوئے تھے۔وہ نہایت ذہین لوگ تھے کہ جنہوں نے حق کے آجانے بعد اسے قبول کرنے میں کوئی پس پیش نہیں کیا۔ نہ کسی سے خوف کھایا اور نہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے ڈرے۔ وہ بلاخوف و خطربت پرستی کے اوہام سے نکل کر اور ذات پات کی زنجیروں کو توڑ کر اسلام کے مضبوط قلعہ میں داخل ہو گئے ۔ اہل ایمان ہمارے اس معاشرے کی سعید روحوں سے یہی توقع کرتے ہیں اور اسی لئے ان تک دین کی دعوت پہنچاتے ہیں۔ جو ملت اسلام کی شجاعت اور و قناعت سے سرفراز ہو اس کو دھرم جاگرن منچ کے راجیشور سنگھ جیسے لوگ خوفزدہ نہیں کرسکتے۔ یہ لوگ ؁۲۰۲۱ تو کجا قیامت تک دیار ہند سے اسلام اور مسلمانوں کا صفایہ نہیں کرسکتے۔ بقول شاعر ؎
ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں

سنگھ پریوار سے قطع نظر امت کے لئے آگرہ جیسے واقعات میں عبرت ونصیحت کا نہایت اہم پیغام ہے اور اگر ہم نے اپنی صفوں کو درست نہیں کیا نیز اصلاح حال کی جانب متوجہ نہیں ہوئے تو سنگھ نہ سہی کوئی اور ہمارے قافلہ پر شب خون مار کر اسے لوٹ لے گا۔ آگرہ میں جو لوگ سنگھ کے جھانسے میں آئے ان کے بارے میں یہ خبر منظر عام آئی کہ وہ غریب الوطن بنگلہ دیشی نہایت کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزاررہے تھے ۔ اس بابت حضور اکرم ؐ کی ایک حدیث بیھقی، شعب الا یمان میں ہے کہ ’’کاد الفقر أن يکون کفرًا ‘‘ یعنی ’’قریب ہے کہ فقر و فاقہ انسان کو کفر تک لے جائے۔‘‘ یہ کوئی پسندیدہ بات نہیں ہے اور نہ ہی لازمی امر ہے بلکہ مسلمانوں کی تایخ میں غریب و مسکین طبقہ نے بے شمار عظیم کارنامے انجام دئیے ہیں اورصبروعزیمت کے روشن چراغ جلائے ہیں لیکن کمزور ایمان والے لوگ ہر طبقہ میں پائے جاتے ہیں اور ضعف ایمانی کے ساتھ اگر فقر و فاقہ جمع ہو جائے تو خطرات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ اسی لئے نبی کریم ﷺنے کفرکے ساتھ ساتھ فقر سے پناہ مانگنے کی بھی دعا سکھلائی (اللهم إنّي أعوذبک من الکفر والفقر)۔ گوناگوں وجوہات کی بناء پر ہم اپنے ان بھائیوں سے غافل ہو گئے تھے لیکن اس طوفان نے ہماری توجہ ان کی جانب مبذول کروادی ہے ۔ اب ہمیں چاہئے کہ ہم ان کا خیال رکھیں۔

وہ سیدھے سادے اور بھولے بھالے لوگ نہیں جانتے تھے کہ انہیں کس چیز کی دعوت دی جارہی اور کس جال میں پھنسایا جارہا ہے۔ انہوں نے سوچا ہوگا کہ کوئی معمولی سا ڈرامہ ہوگا اس کے بعد ہمیں آدھار کارڈ اور راشن کارڈ وغیرہ مل جائیگا۔ اس سے نہ صرف کچھ سہولتیں حاصل جائیں گی بلکہ عدم تحفظ کی کیفیت بھی ختم ہو جائیگی ۔ اس کے بعد ہم پہلے جیسی مسلمانوں کی سی زندگی گزارتے رہیں گے لیکن جب یہ ہنگامہ برپا ہوگیا تو انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ۔وہ لوگ گھبرا گئے اور توبہ و استغفار کرنے لگے ۔ ایسے میں سنا ہے کچھ لوگوں نے انہیں ڈانٹنے ڈپٹنے کی بھی کوشش کی حالانکہ وہ ہمدردی کے مستحق تھے ۔ ہمیں چاہئے تھا کہ ہم ان کو کافر قرار دینے سے قبل اپنی کوتاہیوں کا کفارہ ادا کرتے۔ ان کے دکھ درد کا مداوہ کرتے۔ ان کے زخموں پر مرہم رکھتے اور انہیں احساس دلاتے کہ ہر آزمائش و مشکل میں ہم ان کے شریک کار ہیں ۔ علامہ اقبال کی دعا کہ ’’خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے‘‘ ایک انوکھے انداز میں قبول ہوئی ہے۔ امت کے اندر اضطراب پیدا ہوا ہے۔خدا کرے کے اضطراب یہ موجیں ان منتشر بوندوں کو اپنے آغوش میں سمیٹ لے جن کویہ بھیڑئیے چٹ کرجانا چاہتے ہیں۔ ہمیں اپنے ان بھائیوں کے قلب وذہن میں حکیم الامت کا یہ پیغام جاگزیں کرنا ہوگا کہ ؎
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

اس بیچ وزیرخزانہ ارون جیٹلی نے این ڈی ٹی وی پر ایک انٹرویو کے دوران اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ذرائع ابلاغ کی سرخیوں کو ترقی و خوشحالی کے بجائے گھر واپسی نے اغواء کرلیا ہے ۔ یہ بات درست ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کیلئے ذمہ دار کون ہے؟ نیز اگر حکومت ذمہ دار نہیں بھی ہے تو اس نے اس اغواء کی کارروائی کو روکنے کا کیا اہتمام کیا؟ اس بابت اگرجیٹلی جی اپنے دھرم گرنتھ رامائن سے بھی سبق لے لیں تو بہت ہے۔ رام لکشمن جب سیتا مائی کو جنگل کی کٹیا میں چھوڑ کر شکار کیلئے نکلے تو ایک لکیر کھینچ دی جو لکشمن ریکھا کے نام سے ضرب المثل بن گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت نے اس بابت کوئی لکشمن ریکھا کھینچنے کی زحمت یا جرأت کی ہےیا نہیں؟ جیٹلی جی کو یاد رکھنا چاہئے کہ سیتا کو اغواء کرنے کیلئے راون اپنے اصلی رنگ روپ میں نہیں بلکہ بھکشو کا روپ دھارن کرکے آیا تھا اور لکشمن ریکھا سے باہر نکل کر دکشنا دینے کی اصرار کرنے لگا تھا ۔ آرایس ایس بھی فی الحال وہی کردار ادا کررہا ہے جو راون کا تھا ۔ اس میں آخری سبق یہ ہے کہ سیتا مائی کی معمولی سی غلطی کی بہت بڑی قیمت خود ان کو اور رام چندرجی کو چکانی پڑی تھی۔ اگرمودی سرکار نے اس رزمیہ داستان سے کوئی سبق نہیں سیکھا تو اسے بھی بہت بڑی قیمت چکانی پڑے گی۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1238070 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.