مذہبی آزادی اور تبدیلی مذہب مخالف قانون (قسط اول)

یوروپ میں بدقسمتی سے صنعتی انقلاب کے ساتھ ہی اخلاقی انحطاط کا دور بھی شروع ہوگیا۔ یوروپ میں رائج مسخ شدہ مسیحی تعلیمات چونکہ سائنسی ایجادات سے ٹکراتی تھیں اس لئے دانشوروں میں مذہب سے بیزاری پیدا ہوئی جو بالآخر خدا کے انکار پر منتج ہوئی ۔ مغربی مفکرین نے ایسے گمراہ کن نظریات گھڑے جن کی رو سےاشرف المخلوقات انسان کا درجہ گرا کر اسے سماجی جانور قراردے دیا گیا۔ جانوروں اورانسانوں کے درمیان فرق کو ختم کرنے کیلئے انہوں نے جنگل کی مانند ایک ایسا مادر پدر آزاد سماج بنانے کی کوشش کی جس میں انسان وحشی جانور بن گیا ۔ اس دور میں بدعنوان مذہبی رہنما ظالم حکمرانوں کی آلۂ کار بنے ہوئے تھے اورجبرواستحصال میں ان کے مددگار اور حصہ دار تھے اس لئے عوام بھی دین بیزار ہو گئے اور اخلاقی اقدار کا جنازہ اٹھ گیا ۔ اس دور پرفتن کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ اس میں مشیت ایزدی نے مغرب کےمفکرین سے گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر انسانی حقوق کا تعین کروالیا۔

طلوع اسلام کے تقریباً ۶۰۰ سال بعدجب اسلام کی روشنی یورپ میں پہنچی وہاں پرامراء نے بادشاہ وقت کی زیادتیوں کے خلاف اپنے حقوق کے تحفظ کی خاطرانسانی حقوق کابحث کا آغاز کیا جو آگے چل کر میگنا کارٹا کے نام پر عوام کیلئے بحال کردئیے گئے۔ ؁۱۹۴۸ میں اقوام متحدہ نے بھی ان حقوق کو تسلیم کرلیا۔ بنیادی حقوق کی اس فہرست میں جہاں مساوات ، جان ومال کا تحفظ اور آزادی کی ضمانت دی گئی ہے وہیں عقیدہ و فکر اور مذہبی آزادی کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ دستور ہند کی دفع ۲۵ میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ جو کوئی بھی ہندوستان میں رہتا ہے اور اس کو مذہب اختیار کرنے، اس کی اتباع کرنے اور تبلیغ کرنے کا حق حاصل ہے۔ یہ بنیادی حقوق شہریوں کو بحیثیت انسان حاصل ہوتے ہیں ۔ اس لئے ان کو نہ کوئی عطا کرتا ہے اور نہ منسوخ کرسکتا ہے۔ یہ لوگوں کے صوابدید پر ہے کہ وہ انہیں تسلیم کریں یا انکار کردیں لیکن جو اسے تسلیم کرتا ہے وہ انسانیت کا علمبردار اور جو پامال کرتا ہے انسانیت کا دشمن قرار پائے گا۔ اس پس منظر میں سنگھ پریوار یا بی جے پی کی جانب سے تجویز کردہ تبدیلیٔ مذہب مخالف قانون کا جائزہ لیا جانا چاہیے نہ کہ گھر واپسی کے ہنگامے کے تحت اس پر گفتگو کی جائے اس لئے کہ ایسا کرنے سے حقیقت حال تک رسائی ممکن نہ ہو سکے گی ۔

سچ تو یہ ہے کہ اینٹی کنورژن بل (تبدیلیٔ مذہب مخالف قانون) کے متعلق نہ بی جے پی سنجیدہ اور نہ حزب اقتدار ۔ دستور میں ترمیم کیلئے بی جے پی کو دوتہائی اکثریت درکار ہے اور حزب اختلاف کبھی بھی اس بابت اس کا تعاون نہیں کرے گا اس لئے یہ معاملہ یونہی لٹکا رہے گا ۔ ایسے میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر سنگھ پریوار چاہتا کیا ہے ؟ ایک طرف تو اس کی خواہش ہے کہ ہندوستان کے سارے باشندے ہندو مذہب اختیار کرلیں۔ یہ خواب اس وقت تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک کہ غیر ہندو اپنا آبائی مذہب تبدیل نہ کریں ۔ دوسری جانب سنگھ پریوار کی جانب سے مذہبی تبدیلی کی روک تھام کا قانون بنانے کی بھی پیشکش کی جاتی ہے اور اس کیلئے دیگر سیاسی جماعتوں سے تعاون طلب کیا جاتا ہے۔ بظاہر یہ متضاد مطالبات کیوں کئے جاتے ہیں ؟ اس کا جواب یہی ہے کہ سنگھ پریوار اپنے سیاسی مفاد کے پیش نظر قانون کا سہارا لے کر ہندو سماج کے لوگوں کو مذہب کی تبدیلی کے حق سے محروم کرنا چاہتا ہے اور گھر واپسی کے چور دروازے سے مسلمانوں اور عیسائیوں کو اپنے گھر میں داخل کرنا چاہتا ہے ۔ لیکن پھر سوال پیدا ہوتا ہے سنگھ پریوار دعوت تبلیغ کے ذریعہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے مذہب کو تبدیل کروا نے کا حوصلہ اپنے اندر کیوں نہیں پاتا؟

حقیقت تو یہ ہے کہ مذہب کی تبدیلی دعوت و تبلیغ کے شجر کا ثمرہے۔ اگر اس پودے کو حسن اخلاق کی آبِ حیات ، حسنِ کردار کی شمسی تمازت اور خدمت و محبت کی کھاد میسر آجائے تو یہ بڑی تیزی سے پروان چڑھتا ہے لیکن خدا نخواستہ اخلاص کا فقدان ہو جائے تو یہ مرجھا جاتا ہے۔ ہندو احیاء پرستوں کے شدھی کرن میں ناکامی کی بنیادی وجہ ان کی منافقت اور بدنیتی ہے۔ خوف و ہراس اورفریب و لالچ وہ کیڑے مکوڑے ہیں جودین دھرم کے بیج کو چٹ کرجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی جانب سے کی جانے والی ہر گھرواپسی کی تحریک ناکام ہو جاتی ہے ۔ اس کے نتیجے میں کوئی باہر سے اندر تو داخل نہیں ہوپاتا ہاں گھر کے اندر رہنے بسنےوالے بہت سارے سمجھدار ہندو ان حماقتوں سے بیزار ہو کر الحاد و اباحیت کی شاہراہ پر نکل جاتے ہیں اوران میں سے کچھ اسلام و عیسائیت کی پناہ میں بھی آجاتے ہیں۔ اپنے تمام تر ذرائع و وسائل کے باوجود ناکام ہونے والے ہندو ااحیاء پرستوں کے بالمقابل مسلمان اور عیسائی اپنےمحدودوسائل اور نامساعد حالات کے باوجود اس مقصد جلیل میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔

ہندو توا وادی تحریکیں بشمول بھارتیہ جنتا پارٹی تبدیلیٔ مذہب کاہنگامہ کھڑا کرکے مذہب کی تبدیلی پر پابندی لگانا چاہتی ہیں۔ ان کے لئے یہ بلیک میل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار بھی جیسے ہی اس مسئلہ پر شوربپا ہوا سنگھ پریوار نے فوراً تبدیلیٔ مذہب پر پابندی کا اپنا پرانا راگ چھیڑ دیا ۔ دعوت دین ہندو مبلغین کے بس کا روگ نہیں ہے کیونکہ اول تو ان کاتصور دین اس قدر مہمل اور گنجلک ہے کہ دھرم کی بنیادوں پر ہی اتفاق نہیں ہوپاتا۔ دوسرے خود ان کے اپنے اندر ایمان و یقین کا زبردست فقدان ہے ایسے میں وہ کسی اور کو بھلا ایمان کی دعوت کیسےدے سکتے ہیں ؟اس پر سیاسی برتری کی محدود غرض وغایت بھی ان کے راستے کا روڈا ہے اس لئے کہ جب وہ محسوس کرتے ہیں سیای غلبہ حاصل کرنے کا سہل متبادل موجود ہے تو دعوت و تبلیغ کےپاپڑ کیوں بیلے جائیں ۔ ایسے میں وہ اس مشکل شاہراہ کو خیرباد کہہ کر آسان راستوں کی جانب نکل جاتے ہیں ۔

ہندو مت درحقیقت قدامت پرستی اور روایت پسندی کا ناقابل ِفہم ملغوبہ ہے۔ جس دن انسان اپنی عقل کا استعمال کرکے غور فکرسے کام لیتا ہے اس دھارمک کرم کانڈ کے حصار سے نکل جاتا ہے ۔ اس لئے یہ لوگ تبدیلیٔ مذہب پر پابندی لگانے کے بہانے دعوت دین پر قدغن لگانےکیلئے کوشاں ہیں۔ دستوری ترمیم کے ذریعہ تبدیلیٔ مذہب پابندی لگانے کی سعی ماضی میں تین مرتبہ ہو چکی ہے۔پنڈت نہرو کے دورِ اقتدار میں ؁۱۹۵۵ کے اندر یہ بل پارلیمان میں پہلی بار پیش ہوا ۔ اس وقت بحث کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اس کے ذریعہ غلط ذرائع کی روک تھام کے بجائے عوام کو خوفزدہ کرنے کا کام لیا جائیگا۔ انہوں نے ولبھ بھائی پٹیل کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا دستور سازی کے دوران تین کمیٹیوں نے اس پر غور کیا لیکن وہ کوئی ایسا لائحہ عمل تجویز نہ کرسکے جس سےآگے چل کر اس کے بیجا استعمال کو روکاجاسکے۔ دستور ساز اسمبلی ہندو احیاء پرستوں کے اغراض و مقاصد سے واقف تھی اس لئے وہ ان کے ناپاک ارادوں میں مانع ہوئی ۔ پنڈت جی نے اسی کی جانب واضح اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا دھونس اور دھوکہ کے ذریعہ اگر کوئی مذہب کی تبدیلی کرواتا ہے تو اس پر عام قوانین کے ذریعہ لگام لگائی جاسکتی ہےلیکن اگر تبلیغ دین کوشرائط وضوابط کا پابند کیا جائیگا تو اس سے پولس کودخل در معقولات ( ڈرانے دھمکانے )کے بے شمار اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔

مرکز میں ناکامی کے بعد ہندو احیاء پرستوں نے ریاستی سطح پر قوانین وضع کرنے کا چور دروازہ کھولنے کو شش کی اورجملہ ۶ ریاستوں کے اندر انہیں جزوی کامیابی حاصل ہوئی لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ اس گناہ بے لذت سے لطف اندوز ہونے والوں میں صرف جن سنگھ یا بی جےپی ملوث نہیں تھی بلکہ؁۱۹۶۷ میں جب یہ قانون اڑیسہ میں بنا تووہاں سوتنترا پارٹی کی حکومت تھی۔ مدھیہ پردیش کے اندر ؁۱۹۶۸ میں یہ پابندی لگائی گئی اس وقت کانگریس سے نکل کر مخلوط حکومت بنانے والے گووند نارائن سنگھ برسرِ اقتدار تھے۔ اروناچل پردیش میں کانگریس نے ؁۱۹۷۸ میں یہ کارنامہ انجام دیا اور پھر اسی جماعت نے ؁۲۰۰۷ میں ہماچل پردیش کے اندر بھی یہی حرکت کرڈالی۔ گجرات کے اندر نریندر مودی نے ؁۲۰۰۳ میں نے یہ قانون نافذ کیاجبکہ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں ؁۲۰۰۶ کے اندر یہ قانون وضع کرکے صدارتی توثیق کے لئے روانہ کیا گیا جو ہنوز دستخط کا منتظر ہے۔ اس معاملے میں سب سے دلچسپ صورتحال تمل ناڈو کی ہے جہاں ؁۲۰۰۲ بی جے پی کو خوش کرنے کیلئے یہ قانون بنا اور؁۲۰۰۴ میں اس کے اقتدار سے بے دخل ہوتے ہی اس کا خاتمہ کردیا گیا اس طرح گویا ثابت ہوگیا یہ سیاسی مفادکا کھیل ہےدین و مذہب سے اس کا کوئی سروکار نہیں ہے-

اڑیسہ کی عدالت نے تو اس قانون کو دستور کی دفع ۲۵ میں تسلیم شدہ مذہبی آزادی کےحق سے متصادم قرار دے دیا مگر مدھیہ پردیش کی عدالت نے جب اس کی توثیق کردی تو معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا ۔ وہاں پرجسٹس اے این رائے نےلفظ تبلیغ کے لغوی معنیٰ لےکر فرمادیا کہ اگر زید جان بوجھ کر بکر کا مذہب تبدیل کروانے کیلئے اپنے مذہب کی تبلیغ کرے تو وہ گویا بکر کی مذہبی آزادی میں مداخلت کرتا ہے جبکہ حقیقت حال اس سے متضاد ہے۔ تبلیغ دین کے سبب بکر کے سامنے مواقع و امکانات کھلتے ہیں کہ وہ اپنی آزادی مذہب کا حق استعمال کرکے جس دین کو چاہے اختیار کرے۔ اگر تبلیغ پر پابندی لگ جائے تو بکر کیلئے اپنی پسند کے دین کو اختیار کرنے اور اس کی پیروی کرنےحق سلب ہو جائیگا اور زید تبلیغ دین کے دستوری حق سے محروم ہو جائیگا۔ اس حماقت خیز قانون کے تحت نجات اور جنت کے حصول کی ترغیب لالچ میں شمار ہوتی ہے اورجہنم کی سزا کو ڈرانا دھمکانا قرار دیا جاتاہے ۔ اس طرح گویا عالمی سطح پر تسلیم شدہ انسانی حقوق کی پامالی کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ ایسے میں ہندی اور غیر ہندی مذاہب کی تفریق بھی مضحکہ خیز ہے مثلاً اگر کوئی ہندو مذہب کو چھوڑ کربودھ مت اختیار کرلے یا کوئی جین اپنا مذہب تبدیل کرکے سکھ بن جائے تو کوئی ہنگامہ نہیں ہوتا لیکن جہاں کسی ہندو نے اسلام یا عیسائیت کو اختیار کیا واویلا مچایا جاتا ہے۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں جب کہ ساری دنیا ایک گاؤں بن گئی ہے حق کے نورکوسو دیشی و پردیسی کے خانوں میں تقسیم کرنے سے بڑی حماقت اورکیا ہو سکتی ہے؟

اس معاملے کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے آزادیٔ مذہب پر پابندی لگانے والے اس کالے قانون کو آزادیٔ مذہب کے قانون کا نام دیا جاتا ہے۔ ایسا کرنا وینکیا نائیڈو کے اس بیان جیسا ہے کہ دہلی کا نام بدل کر ہستنا پور یا اندر پرستھ رکھ دیا جانا چاہئے۔ اس پر سابق جسٹس مارکنڈے کاٹجو نےفرمایا میرے خیال میں یہ بہترین تجویز ہے لیکن بات آگے بڑھنی چاہیے۔میری رائے ہے کہ بیروزگاری کو کامل روزگار کا نام دے دیا جائے۔غذائی قلت کا نام بدل کر خوراک کی افزونی رکھ دیا جائے۔ بیمار کو صحتمند اور جاہل کو عالم فاضل کہہ کر پکارا جائے۔کسانوں کی خودکشی کو کسانوں کا جشن اور غریب کا نیا نام امیر رکھ دیا جائے۔ اس سے ملک کے سارے مسائل یکلخت حل ہو جائیں گے۔ ویسے مودی سرکار جسٹس کاٹجو جیسے لوگوں کے مشورے پر نہایت سنجیدگی کے ساتھ سرگرم عمل ہے۔ میک ان انڈیا کا نعرہ لگا کر بیروزگارنوجوانوں کو الو بنا یا جاتا ہے۔ صفائی ابھیان چھیڑ کر امن و آشتی کا صفایہ کیا جاتا ہے ۔ کالے دھن کے خواب دکھلا کر عوام کو نیند کا انجکشن لگایاجاتا ہے۔تعلیم کے نام پر حکمت ودانائی سے کھلواڑ کیا جاتا ہے۔

ہندو احیاء پرست آج کل ہر سائنسی ایجاد کا کریڈٹ اپنے نام کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ کوئی ہوائی جہاز ایجاد کرنے کا دعویٰ کرتا ہے تو پائیتھا گورس تھیورم کو اپنے نام کر کے اپنا مذاق بناتا ہے لیکن وینکیا نائیڈو کا مندرجہ بالا طرز عمل یقینا ً مغرب سے مستعار لیا گیا ہے ۔ مغربی ذرائع ابلاغ کا ایک اہم کام ’’خوب کو ناخوب اور ناخوب کو خوب کرنا‘‘ ہے۔ اس لئے وہاں پر خواتین کے استحصال کیلئے آزادیٔ نسواں کا خوشنما نعرہ بلند کیا گیا اور وہ لوگ خاتون خانہ کوبازار حسن میں لے کر آنے میں کامیاب ہوگئے۔ مردوزن کی مساوات کا نعرہ لگا کر مرد اپنی معاشی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوگیا۔ طوائف کو سیکس ورکر قرار دے کر قحبہ گری کو تقدس عطا کردیا گیا۔ ہم جنسی کو فطری بتا کر نکاح کی ضرورت کو بے معنیٰ بنا دیا گیا۔ سود کو خوشحالی کا شاہ کلید کے طور پر پیش کرکے افراد اور قوموں کو اپنا غلام بنا لیا گیا۔ جہاد کے ساتھ مذموم واقعات کو منسوب کرکے اسے گالی بنا دیا گیا ورنہ دھرم یدھ اور ہولی وار ہندومت اور عیسائیت میں تقدس مآب تھے۔ ہندوستان میں بھی یہی کھیل کھیلا جاتا ہے کہ مذہبی آزادی پر قدغن لگانے کی خاطر تبدیلیٔ مذہب کی روک تھام کا قانون وضع کیا جاتا ہے اوراسے آزادیٔ مذہب کا قانون کہا جاتا ہے ۔ حکومت وقت فی الحال اسی منتر کا جاپ دن رات کررہی ہے لیکن ایسا کرنے سے اس کے پاپ نہ مٹیں گے اور نہ چھپیں گے ۔ جب عوام پوچھے گی کہ کیا آپ اقتدار میں یہ قانون بنانے کیلئے آئے تھے تو ان کو جواب دینا مشکل ہو جائیگا اور وہ دن دور نہیں ہے ۔

(جاری ، ان شا اللہ)
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1228584 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.