جمہوریت ہی بہترین نظام حکومت ہے
اور اگر یہ اپنے حقیقی روپ میں نافذہو تو اس کے اثرات اور ثمرات معاشرے پر
مفید اور دیر پا مرتب ہوتے ہیں ۔جب کہ دوسری جانب اگر جمہوری طرز حکومت میں
بددیانتی اور نااہلی شامل ہو تو پھر معاشرے میں جو تعفن پھیلتا ہے اس سے
نجات پانا بھی مشکل ہو جایا کرتا ہے اور معاشرے کو جو قیمت اس کی چکانا
پڑتی ہے اس کا اندازہ صرف پاکستانی قوم ہی کر سکتی ہے۔بدقسمتی سے پاکستانی
قوم ایسے ہی تجربات سے گزرتی رہتی ہے اس قوم نے شروع ہی سے کبھی جمہوریت
اور کبھی آمریت کے ثمرات کو چکھاہے۔اس نے اپنا سفرہمیشہ سے دو مختلف سمتوں
میں طے کیا ہے یہی وجہ ہے یہ قوم 1947سے لے کر اب تک اپنی منزل پر نہیں
پہنچ سکی ہے اور اس کی منزل قریب قریب مستقبل میں بھی اس کی نظروں سے اوجھل
ہے ۔قیام پاکستان کے وقت اس قوم نے اپنے لیے جمہوری طرز حکومت ہی مختص کیا
تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس پر آمریت بھی مسلط کی جاتی رہی ہے اور
یوں یہ قوم آمریت اور ناقص جمہوریت کے دو پاٹوں میں پستی رہی ۔عمومی طور پر
اب عام پاکستانی جمہوریت سے کچھ زیادہ خوش نظر نہیں آتا ہے آخر اس کی وجہ
کیا ہے ؟ایک بہترین طرز حکومت پاکستان میں مقبول کیوں نہیں ہو سکا ہے اور
اس کے ثمرات عوام تک کیوں نہیں پہنچ پائے ہیں ؟اس کا جواب آسان الفاظ میں
یوں بھی دیا جاتا ہے کہ یہاں آمریت نے اسے کبھی پھلنے پھولنے نہیں دیا ہے
یہ درست ضرور ہے مگر مکمل جواب ہر گز نہیں ہے درحقیقت یہاں جمہوریت کے
علمبردارہی غدار رہے ہیں سیاستدانوں کی نااہلی اور نالائقی نے بھی قوم کو
مایوس کیا ہے ماضی کے قصے کو جانے دیں اگر ہم حال کی بات کریں تو
سیاستدانوں کا رویہ آج بھی کافی مایوس کن اور ان کی کارکردگی شرمناک حد تک
خراب ہے اب بظاہر ملک میں مکمل جمہوری نظام رائج ہے اور قانون کی عملداری
ہے تو پھر یہاں حکومتی معاملات چلانے میں فوج کا اتنا اثر رسوخ کیوں ہے ۔کرپشن
اور بد عنوانی کے دلداہ حکمرانوں اور سیاستدانوں نے اُس فوج کو اپنے نظام
میں گھسنے کی دعوت دی ہے جس نے ہمیشہ ان کے نظام پر شب خون مارا اور ملک
میں آمریت کی سیاہ چادر کو ان پر تانے رکھا ۔ان جمہوریت کے ٹھیکیداروں نے
ہمیشہ فوج سے ہی گِلہ کیا کہ اس نے انہیں مکمل آزادی سے حکومت کرنے اور
نظام کو چلانے نہیں دیا مگر آج یہ سب انکے اپنے نظام میں داخل ہونے پر خوش
ہیں اور اسے وقت کی ضرورت قرار دے رہے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت
گردی کے خلاف جنگ فوج نے ہی لڑنی ہے مگر حکمت عملی تیار کرنا ،قوم کا مورال
بلند کرنا اور عالمی سطح پر رابطے کرنا سول حکومت کے فرائض میں ہی شامل ہے
مگر موجودہ سول حکومت اپنے ان فرائض کو ادا کرنے میں کلی طور ناکام ہوئی ہے
سیاستدانوں کے کام نہ کرنے سے جو خلا بنے گا اسے فوج نے ہی بھرنا ہے لہذا
ملک میں بڑھتا ہوا فوج کا اثر رسوخ ایک فطری عمل معلوم ہونے لگا ہے ۔سِول
اداروں کی ناکامی کے بعد فوج نے ان کے امور بھی خود سر انجام دینے شروع کر
دیے ہیں ۔ پاکستان میں موجودہ اکیسویں صدی میں اکیسویں ترمیم کوئی حیرت کی
بات نہیں ہے جہاں پارلیمنٹ فرد واحد یعنی آرمی چیف کی خواہشات کو من و عن
قانون کا درجہ دے دے۔ارکان پارلیمنٹ کو اس پر بحث کی اجازت بھی نہ ہو ۔اس
طرح سے فوجی عدالتوں کو قیام نہ صرف ہمارے عدالتی نظام بلکہ ہمارے
پارلیمانی نظام پر بھی ایک بڑا سوال ہے۔امریکی وزیر خارجہ ، ایساف
کمانڈراورافغان صدر سمیت باہر سے آنے والے رہنما جی ایچ کیو ہی جانا پسند
کرتے ہیں جبکہ اسلام آباد میں قائم وزیر اعظم ہاؤس بھوت بنگلے کا منظر پیش
کر رہا ہے جناب وزیر اعظم کو ملک کی کوئی فکر ہی نہیں ہے انہیں پوری دنیا
میں صرف دو ہی دوست نظر آتے ہیں بھارت سے ان کی محبت کا اندازہ تو سب کو ہی
ہے اور سعودی عرب کے ان پر احسانات کا بوجھ سب جانتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ
سعودی حکمران کی عیادت کے لیے وہاں چلے گئے ہیں جبکہ آرمی چیف برطانیہ کے
دورے پر ہیں وہاں وہ حزب التحریر کے خلاف اقدامات کرنے پر اس پر زور دے رہے
ہیں الغرض تمام امور مملکت فوج کو ہی انجام دینے پڑ رہے ہیں حتیٰ کہ قوم کے
مورال کو بلند رکھنے کے لیے گیت و نغمے بھی آئی ایس پی آر پیش کر رہی ہے
نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے والے آج کیوں خاموش ہیں؟کسی بھی طالع
آزما کا روکنے والے اس کے لیے دروازے کیوں کھول رہے ہیں ؟کبھی آمریت اور
کبھی جمہوریت کی باری کے بعد اس بار ملک میں دونوں قوتوں نے مل کر جمہوری
مارشل لاء نافذ کر دیا ہے اور یوں آرٹیکل 6کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا ہے۔ |