یہ پیرس ہے ،وہ پشاور تھا
(Syed Mansoor Agha, India)
محمود مدنی کی پہل؛ ساکشی کو
نوٹس
7جنوری کوپیرس کے ایک کثیرالاشاعت طنزیہ رسالہ ـ’چارلی ہبڈو‘ کے دفتر میں
دونقاب پوش داخل ہوئے۔شعبہ ادارت کے دس اور پولیس کے دوافراد کو گولی ماری
اورفرار ہو گئے۔ بعد میں دیگر وارداتوں میں 3اورافراد مارے گئے۔ حملہ آوروں
کوگھیرنے کے لئے فرانس پولیس کے 80ہزار اہل کاردودن تک سرگرداں رہے۔ ان کو
ہیلی کاپٹرس کی مدد بھی حاصل تھی۔ دو دن بعد دونوں مشتبہ حملہ آوروں کو ایک
گودام میں گھیر کر مارڈالا گیا۔ حکومت چاہتی تو ملزمان کو پکڑا جاسکتا تھا
اور یہ راز اگلوایا جاسکتا تھا کہ وہ کس کی سازش کا آلہ کار بنے؟ لیکن ایسا
نہیں ہوا۔ آخر کیوں؟
اس کے بعد پیرس میں ایک پرہجوم ماتمی جلوس نکلا، جس کو ’دہشت گردی کے خلاف
یورپی اتحادـ کا مظاہرہ‘ قرار دیا گیا ۔ میڈیا نے اس کو ’اسلام کے خلاف
مارچـ‘ کہا۔ خیر یہ رہی کی فرانس کی صدر نے عوام سے اپیل کی اسلام کو دہشت
گردی سے نہ جوڑا جائے۔مارچ میں تقریبا 37لاکھ افراد شریک ہوئے۔ قیادت چالیس
ممالک کے لیڈروں نے کی۔ فرانس اور جرمنی کے صدور ، برطانیہ ، اسپین اور
اسرائیل کے وزرائے اعظم کے علاوہ کئی یورپی ممالک کے قومی لیڈروں کے ساتھ
ترکی کے وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس
بھی موجود تھے۔ یہ فرانس کی تاریخ کا سب سے پرہجوم مارچ تھاجس میں عیسائی
بھی تھے، مسلمان بھی اور امن پسند یہودی بھی تھے۔ گویا دوافراد نے پورے
یوروپ کو ہلا کر رکھ دیا۔ خون انسانوں کا بہا۔ افسوس ہم کو بھی ہوا اورکچھ
زیادہ ہی ہوا۔ اول ان مقتولین کی بدبختی پر کہ انہوں نے اسلام کے پیغام امن
و عافیت کو نہ جانا۔ محسن انسانیت ؐکی ہستی کو نہ پہچانا اور آپؐ کی اہانت
کو تجارت بنایا۔ افسوس اس لئے بھی ہوا کہ ان کے قاتلوں نے جو کیا،اسلام
ہرگز ان کویہ حق نہیں دیتا۔ افسوس اس کا بھی ہواکہ چند گمراہ افراد کی اس
حرکت کودنیا بھر میں اسلام کے خلاف ماحول سازی اور زہر افشانی کے لئے
استعمال کیاگیا۔
پیرس کے اس واقعہ سے صرف 21دن قبل پیشاور کا واقعہ پیش آیا ،جس میں پیرس سے
دس گنا زیادہ(145)افراد مارے گئے، ان میں 132معصوم بچے بھی تھے، جن کے سروں
اورسینوں میں چن چن کر گولیاں پیوست کی گئیں۔ لیکن یوروپ کے 15افراد کی
ہلاکت پرپیرس میں اوردیگر یورپی شہروں میں جوردعمل سامنے آیا، اس کاموازنہ
پیشاور واقعہ پر ردعمل سے کیجئے۔ پیشاور کے ہولناک واقعہ پر دنیا کی
انسانیت نوازی اور دہشت گردی کے خلاف ناراضگی کو برف لگ گئی جو پیرس کے
واقعہ کے بعد شعلہ جوالہ بن گئی۔ کیوں؟ 17دسمبر کوپیشاور میں 132 بچوں سمیت
145افراد کا خون بہا تو یوروپ میں کوئی اضطراب نظرنہ آیا۔ فرانس میں 7
جنوری کوچندشاتمان رسول مارے گئے،تو کیسا کہرام برپا ہوا۔خون مشرق میں بہا
تو گویا پانی بہا ۔ مغرب میں بہا تو طوفان اٹھا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔
جلیانوالہ باغ میں عین بیساکھی کے دن کرنل ڈائر کے حکم پر فائرنگ میں379
پرامن ہندستانی مارے گئے تو کرنل ڈائر برطانیہ کاہیرو بن گیا۔جنگ عظیم اول
میں کوئی ڈیرھ کروڑ انسان انہی یورپیوں کے ہوس اقتدار کے چلتے مارے گئے۔
جنگ عظیم دوم کے دوران جرمنی میں ہلاک یہودیوں کا ماتم آج تک
ہورہاہے۔دیگراقوام کے چھ کروڑانسانوں کی ہلاکت پر آنسوبہانے والا کوئی نہیں۔
کیونکہ ان کے قتل کا گناہ یورپ کے سر ہے۔
پیشاور واقعہ کی سنگینی اور درندگی کا کوئی موازنہ پیرس کے واقعہ سے نہیں
کیا جاسکتا ۔ مگر صرف ہندستان کی پارلیمنٹ نے اجتماعی طور پیشاور سانحہ کی
مذمت کی۔ متاثرین سے تعزیت کی۔ چند انسانیت نوازوں نے کینڈل مارچ بھی نکالا
۔ مگر ان کی تعدادکا کوئی موازنہ پیرس مارچ سے نہیں کیا جا سکتا۔ فرق محسوس
کیجئے دنیا کی انسانیت نوازی اور یوروپ کی یوروپ نوازی کا۔
غورکیجئے، جو لوگ پیرس میں مارے گئے،ان کے ذہنوں میں تو ایک فرقہ، ایک مذہب
،ایک ھادی برحق کیلئے نفرت اورحقارت کے جذبات موجیں مار رہے تھے۔ اسی نفرت
کو فروخت کرکے وہ دولت کمارہے تھے۔ رسالے کے جو کارکن بچے ہیں، ان کا عزم
ہے کہ اگلے شمارے میں پھر وہی حرکت کریں گے۔ گویا ’اظہار خیال کی آزادی‘ کی
آڑ میں ذہنی تشدد کا مظاہرہ جو پہلے ہوا تھا وہ پھر ہوگا۔یہ رسالہ جو طنز
بیچتا ہے اس سے ہزاروں اور لاکھوں افراد کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ پیشاور
کے بچے تو معصوم تھے۔ پھر ان بچوں کا خون یوروپ کی نظر میں اتنا ارزان کیوں
ہوگیا اور شاتمان رسول کی ہلاکت پر اس قدر ماتم کیوں ہورہاہے؟
یہ وہ مغرب ہے، جو مشرق کو حقوق انسانی اور تہذیب و تمدن کا درس دیتا
ہے۔اور ہم آنکھیں بند کرکے اس کے پیچھے دوڑے چلے جاتے ہیں۔اسلام اور
مسلمانوں کو طعنہ دینے والے، مشرق کو انسانیت کی تلقین کرنے والے اہل یوروپ
کس مقام پر فائز ہیں؟ زرا غورفرمائیں۔
بیشک پیرس میں جو کچھ ہوا، وہ انسانیت کے منافی تھا۔ اسلامی تعلیمات کے
سراسر خلاف تھا۔ مذمت ہم بھی کرتے ہیں۔ منی شنکرایر نے اس کی جوتوجیہ کی ہے
وہ اہل یوروپ کیلئے یقینا غورطلب ہے۔ لب لباب اس کا یہ ہے کہ یہ ’دہشت گردی
‘ کے خلاف اس جنگ کا ’لازمی ردعمل ‘ہے جس میں مسلم ممالک میں لاکھوں بے
قصور سفاکی سے مارے گئے۔ ڈرون حملوں میں ہزاروں عورتیں اور بچے مارے جا چکے
ہیں۔ یہ اس کا ردعمل ہے۔ یہ غصہ ہے فلسطین پر اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کا۔
9/11کے بعد امریکی فوجی کاروائیوں کے نتیجے میں عراق میں کم ازکم ایک لاکھ
33 ہزار شہری مارے گئے۔ افغانستان میں 2لاکھ 50ہزاراورتقریبا اتنے ہی
پاکستان میں مارے جا چکے ہیں۔یہ سب کے سب مسلمان تھے۔ مسٹر ایر کا یہ کہنا
حق بجانب ہے کہ طاقتور ممالک کی ان سفاکانہ کاروائیوں کو جائز کیسے ٹھہرایا
جا سکتا ہے؟ جو کم طاقتور ہے وہ اپنے طور پر اس کا جواب دیگا۔ مگر ہم ردعمل
کے جوازکو اس لئے قبول نہیں کرسکتے کہ یہ ہمارے اصولوں کے خلاف ہے۔ امریکا
کی قیادت میں بیشک یوروپ نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نظریاتی اور اسلحہ
جاتی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔یہ جنگ ہمیں یاد دلاتی ہے اس جنگ کی جودورنبوت میں
مشرکین مکہ نے ھادیٔ برحق کے خلاف چھیڑی تھی۔ اس جدیدجنگ کا جواب ہم اسلام
کے اصولوں کو نظرانداز کرکے نہیں دے سکتے۔ ایسا جواب، بھلے ہی کچھ لوگوں کے
کلیجے کو ٹھنڈک پہچائے، مگر کیا اس پہلو پر غور نہیں کیا جانا چاہئے کہ جس
اسلام اور پیغمبر اسلام کی محبت کا دم بھرتے ہوئے ،ظلم کا جواب اسی طرح کے
ظلم سے دیاجاتا ہے تو ہم بھی ظالموں کی صف میں جا کھڑے ہوتے ہیں۔ عالم
اسلام نے بلاتفریق مذہب و مسلک، علاقہ اور عقیدہ تشدد کی مذمت کی ہے۔ لیکن
ہم اس طرح کے گناہوں پر بحیثیت مسلمان معذرت خواہی کو اپنا وطیرہ نہیں بنا
سکتے۔ ممبئی کی بیباک خاتون صحافی رعنا ایوب نے "French Have My
Condolences, Not My Apology" عنوان سے 11؍جنوری کے اپنے کالم میں( این ڈی
ٹی وی) اس کی معقول وجوہات درج کی ہیں۔ مثلاً اگر ایل ٹی ٹی ای کے خود کش
بم حملوں کے لئے جس سے ہمارے سابق وزیراعظم بھی مارے گئے، تملوں کو کٹ گھرے
میں کھڑا نہیں کیاجاسکتا، اگردلت خواتین کی اجتماعی آبرریزی اورقتل کے لئے
برہمنیت شرمندہ نہیں ہوتی، اگرمیانمار اور سری لنکا میں تشدد کے لئے مسلمان
سارے بودھوں سے سوال نہیں کرتے، اگرایک یہودی سے فلسطینوں پر اسرائیلی
مظالم کا جواب نہیں مانگا جاسکتا، اگر امریکیوں کے مظالم کے لئے کسی عیسائی
سے معذرت طلب نہیں کی جاسکتی تو آخر ہم مسلمانوں پر معذرت خواہی کیوں لازم
ہے ؟یہ خطا کاروں کا اپنا انفرادی فعل ہے، جن کو بغیر مقدمہ چلائے موت کے
گھاٹ اتاردیا جاتا ہے؟ وہ لاکھ اسلام کا نام لیتے ہوں مگر یہ حقیقت واضح
ہے، اور باربار اس کا اعلان کیا جاتا رہا ہے کہ اس طرح کی حرکتوں میں ملوث
افراد اسلامی تعلیمات سے رہنمائی حاصل نہیں کرتے۔ بیشک وہ خود سر، گمراہ
اوربرگشتہ لوگ ہیں۔ ہم ہر سفاکی کی مذمت کریں گے، چاہے اس کو سرزد کرنے
والا کوئی بھی ہو، لیکن اگر کوئی شخص یا گروہ ایسی حرکت اسلام کے نام
پرکرتا ہے تو اس کے لئے نہ اسلام ذمہ دار ہے اورنہ مسلمانوں کو شرمساراور
معذرت خواہ بن جانے کی ضرورت ہے۔
ترکی کے وزیراعظم احمد داؤد اوغلو نے بجا طور پر مطالبہ کیا ہے کہ دہشت
گردی کی مذمت کے ساتھ اس دہشت گردانہ ذہنیت کی بھی مذمت کی جائے اوراس پر
روک لگائی جائے، جو اہانت آمیز کارٹونوں اور افترا پر مبنی مضامین کی صورت
میں ظاہر ہوتی ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ اس ذہنیت کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے
اوردلیل یہ دی جاتی ہے کہ تمہارے جذبات کو مجروح کرنے کا ہم کو دائمی حق
حاصل ہے، تم بولوگے تو سنیں گے نہیں۔اس روش کے خلاف پوری شدت سے آواز
اٹھانے کی ضرورت ہے۔ مگر دانائی اور تحمل کیساتھ۔
محمود مدنی کی پہل
مودی سرکار بن جانے کے بعد بالغ نظر مسلم قیادت نے بجاطور پر اس پر تنقید و
تنقیص کے بجائے حالات کا مشاہدہ اورجائزہ لیتے رہنے پر اکتفا کیا ۔ ہمارا
خیال یہ ہے کہ ابھی کچھ دن اورانتظارکرنا چاہئے۔ ہندتووا کے علمبرداروں میں
داخلی اٹھا پٹخ شروع ہوچکی ہے۔وی ایچ پی کھل کر مودی سرکار کے خلاف مورچہ
کھول رہی ہے۔ بھاجپا ممبران پارلیمنٹ میں بھی گھٹن کا ماحول پنپ
رہاہے۔اندرون پارٹی بھی کسمساہٹ ہونے لگی ہے۔ کچھ لوگوں اور ذیلی تنظیموں
کی بعض حرکتوں اور بیانوں سے وہ ماحولم نہیں بن رہا ہے جو بڑی اقتصادی پہل
کے لئے مودی کو درکار ہے۔ لیکن مودی کی مشکل یہ ہے کہ خودان کی،پارٹی
لیڈروں کی اور کیڈر کی ذہنیت ایک مخصوص سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے۔ مودی کے
پیش نظر جو کارنامہ ہے اس کو انجام دینے کے لئے اس کو بدلنا ہوگا۔ یہ کام
آسان نہیں۔لیکن انتظار کرنا چاہئے۔ تبدیلی کے کچھ اشارے مل ضرور رہے ہیں۔
ایسے موقع پر اگر ہم بولتے ہیں تواس کا ردعمل دوسرا ہوگا۔ ہم کو گرتی ہوئی
دیوار کا سہارا نہیں بن جانا چاہئے۔تاہم صورتحال پر غور و خوض کرنے میں
کوئی مضائقہ نہیں۔ جمعیۃعلماء ہند کے فعال جنرل سیکریٹری مولانا محمود صاحب
نے جماعت اسلامی ہند، مسلم پرسنل بورڈ، جمعیت اہلحدیث اور ملی کونسل کو ایک
پلیٹ فارم پر لانے کی پہل کی ہے تاکہ کوئی مشترکہ تدبیر تلاش کی جائے۔ اس
کا خیرمقدم ہونا چاہئے۔ لیکن بہتر ہوگا کہ اس کو مزید وسعت دی جائے ۔ شیعہ
اور اہل سنت تنظیموں کو بھی مشورے میں شامل ہونا چاہئے۔جمعیۃعلماء کے قیام
میں سبھی طبقات شامل تھے۔ اگرمحمودصاحب کی پہل سے جمعیۃ اپنی اصل کی طرف
لوٹتی ہے تو ایک مبارک بات ہوگی۔ اچھا یہ ہوگا کہ مولانا ارشد کی تنظیم بھی
اس میں شامل ہو۔
ساکشی کو نوٹس
ایک خبر یہ ہے بی جے پی نے اپنے دریدہ دہن رکن پارلیمان ساکشی کو ان کے
چاربچوں والے بیان پر نوٹس جاری کیا ہے۔ دیرآید درست آید۔ دیکھنا یہ ہے کہ
ساکشی کاکیا جواب آتا ہے۔ پارٹی دہلی الیکشن سے قبل صرف لیپا پوتی کرتی ہے
یا کچھ سنجیدگی بھی دکھاتی ہے۔ دریں اثنا ایک خبر یہ آئی ہے آر ایس ایس کی
ایک اہم تنظیم سودیشی جاگرن منچ نے آراضی ایکوائر ایکٹ میں اس تبدیلی پر
ناراضگی جتائی ہے جس کے لئے آرڈی ننس لایا گیا ہے۔اس تبدیلی مقصد کل
کارخانے لگانے کے لئے زرخیز زمین کو ایکوائرکرنا آسان کرنا ہے۔منچ کا یہ
اندیشہ درست ہے کہ کاشت کی زرخیز آراضی کم ہونے سے غذائی پیداوار پر منفی
اثرپڑیگا۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ مودی سرکار، گھر کے اندر سے اٹھنے والے اس
مخالفانہ آواز پر کیا رخ اختیار کرتی ہے؟(ختم) |
|