وطن عزیز میں آئے دن کوئی نہ
کوئی نیا ایشو سر اٹھاتا رہتا ہے جس کی وجہ سے پوری قوم ایک عجیب سی کشمکش
میں مبتلا ہو جاتی ہے ہر روز کچھ نہ کچھ نیا سننے اور ٹی وی پر دیکھنے کو
ملتا ہے ایسا لگتا ہے کہ سیاست دان صرف اور صرف اپنے اقتدار کے چکر میں لگے
ہوئے ہیں حکومت کہتی ہے کہ اگر کہا جائے تو آدھے گھنٹے میں جوڈیشل کمیشن بن
سکتا ہے جبکہ پی ٹی آئی والے کہتے ہیں کہ حکومت اس جوڈیشل کمیشن کو بنانے
میں مخلص نہیں بلکہ ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے پی تی آئی والوں کا یہ بھی
گلہ ہے کہ ان کی با ت کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا اس کی بڑی وجہ وہ
دھرنے کے خاتمے کو قرار دیتے ہیں پی ٹی آئی کے اراکین کا کہنا ہے کہ جب سے
دھرنا ختم کیا گیا ہے کہ حکومت پر سے وہ نفسیاتی پریشر ختم ہو گیا ہے جو
دھرنے کی وجہ سے قائم تھا جو کسی حد تک سچ بھی نظر ا ٓ رہا ہے اب جبکہ حلقہ
این اے 122کو کھولا گیا تو الیکشن میں ہونے والی بے قاعدگی سامنے آئی ہے
جسے دونوں پارٹیاں اپنی، اپنی کامیابی سمجھ رہی ہیں لیکن اس بارے میں عدلیہ
کو بھی واضح اور دو ٹوک فیصلہ دینا چاہیے تاکہ کسی قسم کا کوئی ابہام نہ
رہے دو دن سے صرف اور صرف الفاظ کی تشریح کی بحث چل رہی ہے میرا ذاتی خیال
ہے کہ اگر ہمارے سیاست دان اردو کی ڈکشنری اپنے پاس رکھ لیں یا اس کو پڑھ
لیں تو ان کے کافی ابیہام دور ہو سکتے ہیں اور مرغی پہلے یا انڈا پہلے والی
کیفیت بھی دور ہو سکتی ہے لیکن شاید یہ لوگ ایسا چاہیں گے نہیں کیونکہ اگر
ایسا ہو گیا تو پھر ٹی وی کے چوبیس گھنٹے ضائع ہو جائیں گے اور ان پر کیا
چلے گا اس لئے میڈیا کا پیٹ بھرنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ اس قسم کی فضول
ایکٹیوٹی کو جاری رکھا جائے اور میڈیا مالکان کو بھی ناراضگی کا موقع نہ
دیا جائے اب بات کرتے ہیں پاکستانی عوام کی کیا ان الفاظ کی تشریح سے یا ان
جماعتوں کی آپس کے لڑائی جھگڑوں سے عوام کو کچھ ملنے والا ہے تو اس کا صاف
سا جواب ہے کہ نہیں سوائے پریشانی کے، الجھنوں ،کے اور ان کو کوئی خوشی
نصیب نہیں ہو سکتی کیونکہ ان بحث مباحثوں میں ان کے لئے کچھ بھی ایسا نہیں
جو ان کے مسائل کے حل کے لیے ہو بلکہ ان سے تو صرف اور صرف ان کے مسائل میں
اضافہ ہی ہو سکتا ہے اور کچھ نہیں ان بحث مباحثوں سے تو واضح نظر آ رہا ہے
کہ یہ نورا کشتی ہے جس کا انجام بھی کچھ بھی نہیں سوائے اس کے کہ آخر کار
دونوں فریقین صلح کر لیتے ہیں آج جبکہ ہماری تمام سیاسی قیادت نا اہل نظر
آرہی ہے کہ مسائل کو حل کرنے کے بجائے اس کے بگاڑ کی خواہشمند زیادہ ہے تو
عوام میں یہ بے چینی بھی واضح نظر ا ٓرہی ہے کہ اگر اس قوم کو کھبی بھی ایک
ہونا کا موقع ملتا ہے تو کیونکر وہ موقع یہ سیاسی لوگ ضائع کر دیتے ہیں اور
ایک دوسرے سے دست و گریبان ہوتے نظرآ تے ہیں اس کی بڑی وجہ ایسے ناہل لوگوں
کو سیاست میں آنا بھی ایک بڑی وجہ سے جن کا بد قسمتی سے ماضی کچھ اچھا
دیکھائی نہیں دیتا شریف آدمی تو اس طرف آنے سے ویسے بھی گھبراتا ہے کیونکہ
اس میں کھبی تخت اور کھبی تختہ بھی ہوتا ہے اور حالیہ چند سالوں میں جس طرح
ان سیاست دانوں میں یہ رواج عام ہو رہا ہے کہ کیسے مخالف فریق پر کیچڑ
اچھالنا ہے اس کے ہماری سیاست پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں آپ خود اندازہ
لگائیں کہ آج کل اگر کوئی کسی کے ساتھ دھوکہ یا فراڈ کرنے کی کوشش کرتا ہے
تو اسے کہا جاتا ہے کہ وہ سیاست کر رہا ہے لیکن اگر ان ممالک میں جن میں
جمہوریت مضبوط ہے اور سیاست کیا ہوتی ہے ان کے سیاست دان بخوبی جانتے ہیں
وہاں دیکھا جائے تو وہ لوگ سیاست کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں
سیاست ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے آپ پارلیمنٹ کی ہسٹری چیک کر لیں
ایک سے ایک بڑا کاروبای آپ کو اسمبلی میں بیٹھا ہوا نظر آئے گا اور ایسا
شخص کیا اپنے کاروبار کو چھوڑ کر عوام کا خیال کر سکے گا یقینا نہیں دوسرے
ممالک میں سیاست کو عبادت سمجھ کر کیا جاتا ہے تبھی تو وہ لوگ ہم سے بہت
آگے ہیں ان کے عوام کا معیار زندگی ہم سے کہیں بہتر ہے ان کی ملکی ترقی ہم
سے کہیں آگے ہے مگر ہمارے ہاں سب کچھ اس کے برعکس ہے یہاں اداروں کی نہیں
بلکہ شخصیات کی قدر کی جاتی ہے یہاں عوام کے لئے نہیں بلکہ اقتدار کے لئے
ایک دوسرے پر الزامات لگائے جاتے ہیں اور یہ ہمارے حکمران اس میں اس حد تک
گر جاتے ہیں کہ ایک دوسرے کے بیڈ رومز تک کی باتیں ٹی وی ٹاک شو زمیں کر
جاتے ہیں مگر مجال ہے کہ کسی کے ماتھے پر شکن بھی آئے کہ وہ تہذیب کے
دائیرے سے کہیں دور بد تہذیبی کا مرتکب ہو رہا ہے اس کی بہت سی مثالیں انٹر
نیٹ پر موجود ہیں جن کو دیکھ کر ہمارے سیاست دانوں کے سیاہ چہرے سامنے نظر
آتے ہیں آج کے دور میں اور خاص طور پر پاکستانی سیاست دانوں میں یہ جو روش
پائی جا رہی ہے اگر اس کا تدارق نہیں ہوا تو کل کوئی بھی شریف اور باکردار
آدمی سیاست میں آنے کا نہیں سوچے گا اور اگر کوئی نیک نیت شریف ،باکردار
آدمی اس شعبے میں نہیں آئے گا ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام اب جاگیں دیکھیں
کہ کون ہیں وہ لوگ جو ان کے ساتھ مخلص ہیں اور پاکستان کے ساتھ مخلص ہیں
ایسے لوگوں کو منتخب کیا جائے جو وطن کے وفادار ہوں جو عوام کے خدمت گار
ہوں تب جا کر ملک و ملت کو بہتر کیا جا سکتا ہے ۔ |