ایک پہلو یہ بھی ہے

 ایک طرف ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان ہیں جبکہ دوسری طرف اپنے ہاں سب کچھ ہے سوائے اسلام کے،ایک طرف ہم جمہوریت کے دعوے دار ہیں جمہوری ملک ہیں بلکہ ایک جمہوری حکومت بھی قائم ہے جبکہ دوسری طرف ملک کی آدھی سے زیادہ عمر مارشل لاؤں کی نذر ہو گئی،ایک طرف ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں تو دوسری طرف منافقانہ چلن بھی جاری و ساری ہے ایک دوسرے کے گلے کاٹنے والے اور مرنے والے سر عام دندناتے پھر رہے ہیں،ایک طرف ہم دنیا کے اتحادی ہیں جبکہ دوسری طرف ہمارے پاس نہ بجلی ہے نہ گیس اور نہ ہی ڈھنگ کا پینے کا صاف پانی،ایک طرف ہم اپنے لوگوں کو سادگی اور کفایت شعار ی کا درس دیتے ہیں تو دوسری طرف ایک ایک بڑے گھر کا خرچہ اربوں روپے سالانہ،ایک طرف قانون سب کے لیے برابر دوسری طرف ملزمان عدالت سے ضمانت کینسل ہو جانے پر اپنے پورے جاہ جلال اور پروٹو کول سے واپس اپنے فارم ہاؤس روانہ،ایک طرف عوام کے درد میں تڑپنے کراہنے والے حکمران جبکہ دوسری طرف انہی عوام کو گھنٹو ں بند سڑکوں پر کھڑا کر کے ان کی بے بسی کا مذاق ،اس جیسا عجیب وغریب ملک شاید دنیا نے نہ کبھی دیکھا نہ سنا ہو گا جہاں سبزیاں فروٹ اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء سڑکوں اور فٹ پاتھوں پہ پڑی ہیں جبکہ پاؤں میں پہننے والے جوتے اور سلیپر سجی سنوری صاف ستھری بلکہ ائرکنڈیشنڈ دکانوں میں سجے ہیں،یہاں کسی کے گھر میں چور آجائے کہیں ڈاکہ پڑ جائے یا کوئی بیمار ہو جائے تو گھنٹوں گذرنے کے بعد بھی پولیس نہیں پہنچتی جبکہ انہی گلیوں اور محلوں میں پیزے والا پانچ سے پندرہ منٹوں میں پہنچ جاتا ہے،ایک طرف چیختی چھنگاڑتی ایمبولینس کو راستہ نہیں ملتا جبکہ دوسری طرف کسی بھی نام نہاد وی آئی پی کے لیے اس ملک کی سڑکیں گھنٹوں بند کی جا سکتی ہیں،ایک طرف نہ کوئی چادر میں محفوظ ہے نہ چار دیواری میں جبکہ دوسری طرف اسی ملک میں سینکڑوں ایسے ایریاز اور وی آئی پی سیکٹرز ہیں جہاں اس ملک کا کوئی بھی عام شخص داخل ہونا تو دور کی بات ادھر سے گذرنے کا سوچ بھی نہی سکتاآگے بڑھیے ایک طرف ہم دین کی اصل اساس امن اور محبت کی تبلیغ کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف نفرت بغض اور حسد کے بیچ عین دلوں کے اندر بوتے ہیں، ایک طرف دنیا چاند سے نکل کر مریخ پر پہنچ چکی ہے جبکہ ادھر اب بھی گندی مندی ٹوپیا ں پہنے طوطے والے پروفیسر سڑکوں پر لوگو ں کو آنے والے وقتوں کا حال بتا رہے ہیں،ایک طرف وہ ٹرین ایجاد ہو چکی جس کا مقابلہ ہوائی جہاز کی اسپیڈ سے کیا جا رہا ہے اور 574کلو میٹر فی گھنٹہ ٹیسٹ پاس کر چکی ہے ادھر آج تین بجے آنیوالی ٹرین دوسرے دن تین بجے پہنچتی ہے اور جب مسافر اترتے ہیں تو گھر والے سامنے کھڑے اپنے مٹی سے اٹے رشتہ دارکو پہچانے بغیر اس سے پوچھ رہے ہوتے ہیں ہمارے کزن نے بھی اسی ٹرین سے آنا تھا ،ایک طرف وہ گاڑیاں ہیں جوخودبخود ڈرائیورکود منزل تک پہنچا رہی ہیں جبکہ دوسری طرف موٹر سائیکل کے ساتھ باڈی لگا کر دس دس بچوں کو اسکول پہنچایا جا رہا ہے،اور ایک طرف دنیا اپنی ذاتی گاڑیوں کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کو محفوظ اور آرام دہ سمجھ کر ترجیح دے رہی ہے جبکہ ادھر ابھی بھی گیس سے بھرے سلنڈر عین مسافروں کی سیٹوں کے نیچے فٹ کیے جاتے ہیں نجانے کتنے معصوم لوگ ان سلنڈرز کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں مگر کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا،دنیا میں اگر کوئی واقعہ ہو جائے جس سے انسانی جانوں کا کچھ بھی نقصان ہو فی الفور متعلقہ محکمے کا سربراہ اپنا عہدہ چھوڑ دیتا ہے یہاں جناب شیخ فرماتے ہیں میں کیوں استعفیٰ دوں میں بیک وقت حادثے کا شکا ر ہونے والی تین ٹرینوں کا ڈرائیور ہوں جو گھر چلا جاؤں،ایک طرف آنکھوں کے بعد دل اور جگر کی ٹرانسپلانٹیشن ہو رہی ہے جبک دوسری طرف ابھی بھی فٹ پاتھوں پہ لوگوں کے دانتوں کی ڈینٹنگ پیٹنگ کی جا رہی ہے،ایک طرف وہ سوئی ایجاد ہو گئی جس سے انجکشن لگوانے کو پتہ بھی نہں چلے گا انجکشن لگنے کا اور تو اور اب نیڈل بھی جسم کے اندر ہی تحلیل ہو جائے گی جبکہ دوسری طرف انسان اکٹھے کر کے قومی جھنڈے بنانے اور ملی نغمے گانے کے بے مقصد اور فضول ریکار ڈ بنائے جا رہے ہیں،دنیا آکسفورد کا سلیبس پڑھ رہی ہے جبکہ اپنے یار لوگ سومنات کے مندر کی جان چھوڑنے کو ہی تیار نہیں،ادھر جانور بھی وی آئی ٹریٹمنٹ لیتے نظر آتے ہیں جبکہ اپنے ہاں انسان کے بچے اور ان بچوں کی مائیں ہسپتالوں کے ننگے فرشوں پہ پینا ڈول اور پیرا سیٹامول کی گولیوں کو ترس رہے ہوتے ہیں،نہ بجلی نہ گیس نہ کھانے کو روٹی نہ رہنے کو مکان،کوئی نیا پاکستان بنانے کے چکر میں تو کوئی پورے پاکستان کو بدل کر رکھ دینے کا عزم کیے ہوئے،کوئی انقلاب کا داعی تو کوئی نظام کو دریا برد کرنے کا خواہشمند،کوئی نہیں کوئی بھی نہیں جو کم از کم اور کچھ نہیں تو ہماری سمت ہی سیدھی کر دے،اور یہ کوئی اتنا مشکل کام نہیں صرف اپنی ترجیحات بدلنے کی ضرورت ہے،مگر جو انسانوں کو غلام در غلام رکھنا اور دیکھنا چاہیں وہ کیوں کر اپنی ترجیحات بدلیں گے،انہیں کیا ضرورت ہے حبیب جالب کے یہ جو آٹھ کرورڑ ہیں جہل کا نچوڑ ہیں کے لیے اپنی ترجیحات بدلنے کی،سو انتظار کیجیے اور کرتے رہیے یہاں کچھ بھی تبدیل نہیں ہو نے والابجلی ہو گی تو گیس نہیں ملے گی گیس آئے گی تو پٹرول کے لالے پڑ جائیں گے،استحصال جاری ہے اور جاری رہے گا کیوں کہ جیسا منہ ویسا تھپڑ،جیسی روح ویسے فرشتے اور جیسی قوم ویسے حکمران،،،،،،اﷲ تعالیٰ ہم سب پہ رحم کرے