مدارس بارے اجلاس کی اندرونی کہانی

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

وزیراعظم ہاؤس کے وسیع اور کشادہ کانفرنس ہال میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی سربراہی میں اجلاس جاری تھا ۔اجلاس میں وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف ،وزیر مملکت برائے مذہبی امور پیر امین الحسنات ،وزیر اعظم کے معاونین خصوصی خواجہ ظہیر احمد اور بیرسٹر ظفر اﷲ ،مختلف سیاسی پارٹیوں کے زعماء جن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چودھری قمر الزمان کائرہ ،سابق وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک ،جماعت اسلامی کے فرید پراچہ ،پارلیمانی لیڈ ر جماعت اسلامی طارق اﷲ ،پاکستان تحریک انصاف کی شیریں مزاری ،قومی وطن پارٹی کی سینیٹر روزینہ عالم ،جمعیت علماء اسلام کے سینیٹر صالح شاہ ،ایم کیو ایم کے فاروق ستا ر ،بابر غوری ،نیشنل پارٹی کے افراسیاب خٹک اور دیگر اہم زعماء شریک تھے ۔اس موقع پر دینی مدارس کے پانچون نمائندہ وفاقوں کے سربراہان مولانا محمد حنیف جالندھری جنرل سیکرٹری وفاق المدارس العربیہ پاکستان ،مولانا عبدالمصطفی ہزاروی جنرل سیکرٹری تنظیم المدارس پاکستان ،مولانا ڈاکٹر یاسین ظفر جنرل سیکرٹری وفاق المدارس السلفیہ پاکستان ،مولانا عبدالمالک صدر رابطہ المدارس پاکستان ،علامہ افضل حیدری جنرل سیکرٹری وفاق المدارس الشیعہ پاکستان ،مولانا قاضی عبدالرشید ڈپٹی جنرل سیکرٹری وفاق المدارس العربیہ پاکستان ،مولانا حسین احمد ناظم وفاق المدارس خیبر پختونخواہ اور راقم الحروف شریک تھے ۔

اجلاس کے آغاز میں چودھری نثار علی خان نے حالات وواقعات اور اجلا س کا پس منظر بیان کیا اور پھر سیاسی زعماء کا اظہار خیال کی دعوت دی ۔اجلاس کا ابتدائی ماحول کچھ یوں تھا جیسے لگتا تھا کہ دینی مدارس کی قیادت کٹہرے میں کھڑی ہے اور اس وقت ملک میں تمام تر بدامنی اور مسائل ومشکلات کی جڑ دینی مدارس ہیں ۔دینی مدارس کے بارے میں وہی رٹے رٹے الزامات دہرائے جانے لگے ،اجلاس کے چند ایک شرکاء کے استثناء کے ساتھ اکثر لوگوں کا مدارس بارے وہی تاثرتھاجو نائن الیون کے بعد بڑی محنت سے مدارس کے خلاف بے بنیاد اور جھوٹے پروپیگنڈے کے نتیجے میں بنایا گیا ،شرکاء کا لب ولہجہ بھی بتا رہا تھا کہ انہیں مدارس کو قریب سے انصاف اور حقیقت پسندی کی نظر سے نہ دیکھنے اور مدارس بارے حقائق جاننے کا موقع ہی نہیں ملا ۔ایسے میں بعض لوگوں کی گفتگو بہت مثبت تھی جن میں جماعت اسلامی کے فرید پراچہ بطور خاص قابل ذکر ہیں جبکہ حیران کن امر یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے عبدالرحمن ملک اور چودھری قمر الزمان کائرہ نے بڑے خوبصورت انداز میں ہاؤس کو مدارس کے بارے میں حقائق سے آگاہ کیا اور بتایا کہ کس طرح کئی برسوں کی تحقیقات کے بعد بھی کسی مدرسہ پر دہشت گردی یا کسی قسم کی منفی سرگرمی میں ملوث ہونے کے کوئی ثبوت نہیں ملے ۔انہوں نے بتایا کہ اپنے دور حکومت میں مسلسل دینی مدارس کی قیادت سے مشاور ت کے بعد جن معاہدوں تک پہنچے وہی افہام وتفہیم والا طرز عمل موجودہ صورت حال میں سب سے زیادہ مفید اور موثر ثابت ہو سکتا ہے ۔

اجلاس کے پہلے حصے میں تمام سیاسی جماعتوں کے زعما ء نے اپنا اپنا موقف اور تجاویز پیش کیں بعد ازاں وکیل اہلِ حق ،ترجمان مدارس دینیہ مولانا محمد حنیف جالندھری جنرل سیکرٹری وفاق المدارس العربیہ پاکستان کو اظہار خیال کی دعوت دی گئی ۔مولانا محمد حنیف جالندھری نے جس وضاحت اور تفصیل کے ساتھ مدارس دینیہ کا مقدمہ پیش کیا اور جس موثر اور مدلل انداز میں گفتگو کی وہ بلاشبہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔ہمیں بارہا مولانا جالندھری کی گفتگو سننے کا موقع ملا لیکن جس خوبصورت انداز میں اس اجلاس میں مولانا جالندھری نے مدار س دینیہ کی قیادت کا موقف پیش کیا اس کی نظیر نہیں ملتی ۔مولانا جالندھری کی گفتگو کے دوران ہال میں سناٹا چھایا رہا انہوں نے مدارس کی ضرورت واہمیت کا اجمالی تذکرہ کیا ،مدارس کی خدمات کو اجاگر کیا ،پاکستانی معاشرے پر مدارس کے اثرات اور احسانات کو نمایاں کیا ،انہوں نے مدارس کی قیادت کے مختلف حکومتوں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی تاریخ اور معاہدات کی تفصیل پر روشنی ڈالی،مدارس بارے اعتراضات کا مدلل جواب دیا ،انہوں نے اپنی گفتگو کے دوران مدارس بارے پائی اور پھیلائی جانے والی بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا اور موجودہ ملکی اور قومی حالات کے تناظر میں مدارس کے اصولی موقف کو بہت واشگاف الفاظ میں بیان کیا ۔مولانا جالندھری نے مدار س کے ساتھ رو ا رکھے جانے والی امتیازی سلوک پر شدید احتجاج کیا ،مدارس دینیہ کے مسائل ومشکلات کا تذکرہ کیا اورسانحہ پشاور کے بعد ملک بھر کے دینی مدارس کے ساتھ رو ا رکھے جانے والے رویے کا اس انداز سے تذکرہ کیا کہ ایک موقع پر گوجرانوالہ کے طالبات کے مدرسہ پر پولیس کے چھاپے اور معصوم بچیوں کے ساتھ توہین آمیز رویے پر مولانا جالندھری آبدیدہ ہو گئے ،ان کی آواز رندھ گئی ،حاضرین کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں ۔مولانا جالندھری نے کہا کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مدارس دینیہ کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ،ان کے ساتھ دست تعاون بڑھایا جاتا جبکہ یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے ۔

مولانا محمد حنیف جالندھری نے کوائف طلبی کے نا م پر مدارس کو ہراساں کرنے ،مختلف قسم کے کوائف ناموں اور رجسٹریشن کے عمل میں بیوروکریسی کی طرف سے ڈالی جانے والی رکاوٹو ں سمیت مدارس سے متعلق جملہ اہم ایشو ز کو بہت ہی خوبصورت انداز سے واضح کیا ۔انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کے زعماء اور حکومتی عہدیداران کو دعوت دی کہ وہ دینی مدارس کے دورے کریں اور مدارس کے نظام کا خود مشاہد ہ کریں۔مولانا جالندھری نے چودھری نثار علی خان کی طرف سے مدارس کے ساتھ مشاورت کے اہتمام اور تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے سامنے مدارس کا مقدمہ پیش کرنے کا موقع دینے پر ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ مدارس نے وطن عزیز کی سلامتی اور استحکام کے لیے ہمیشہ تعاون کیااور آئندہ بھی تعاو ن کیا جاتا رہے گا تاہم مدارس کے ساتھ جو بھی معاملات یا مذاکرات کیے جائیں وہ مدارس کو حلیف اور رفیق سمجھ کر کیے جائیں حریف یا فریق سمجھ کر نہ کیے جائیں ۔

اجلاس کے دوران مدارس سے متعلق کئی امور زیربحث آئے رجسٹریشن کے مسئلے پر مدارس کی قیادت نے ہاؤس کو بتایا کہ رجسٹریشن پر کسی مدرسہ کو ئی اعتراض نہیں البتہ رجسٹریشن کا عمل سہل اور آسان بنانے کی ضرورت ہے ۔غیر ملکی امداد کے بارے میں مدارس کی قیادت نے واضح کیا کہ دینی مدارس نہ تو پاکستانی حکومت سے اور نہ ہی کسی اور بیرونی حکومت سے امداد وصول کرتے ہیں انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایسے مدارس کی نشاندہی کی جائے جو کسی قسم کی بیرونی امداد لیتے ہوں ۔کوائف طلبی کے معاملے میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ مدارس کو کبھی بھی کوائف دینے پر کوئی اعتراض نہیں رہا لیکن دس دس قسم کے اداروں کی طرف سے براہ راست کوائف طلب کرنے کے لیے مدارس کا رخ کرنے سے زیادہ بہتر ہے کہ حکومتی ادارے باہمی روابط کو مستحکم کریں ،مدارس رجسٹریشن اتھارٹی کو کوائف دے دیا کریں اور دیگر ادارے کوائف کے لیے رجسٹریشن اتھارٹی سے رجوع کیا کریں ۔

اجلا س میں مختلف امور پر مشاور ت اور حکمت عملی وضع کرنے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی گئیں جن میں سے مدارس کی رجسٹریشن اور سروے فارم کی تقسیم کا عمل بطور خاص قابل ذکر ہے۔ چودھری نثار علی خان نے یقین دہانی کروائی کہ رجسٹریشن کی حکمتِ عملی وضع ہو نے اور کوائف کے لیے جامع فارم کی تیاری سے قبل نہ تو مدارس پر چھاپے مارے جائیں گے اور نہ ہی قسما قسم کے فارمز تقسیم کر کے مدارس سے کوائف طلب کیے جائیں گے بلکہ باہمی مشاورت سے جامع فارم تیار کیا جائے گا اوررجسٹریشن کے عمل کو سہل کرنے کے لیے بھی حکمت عملی وضع کی جائے گی۔انہوں نے کہا میں تمام صوبوں کے ذمہ داران کو فوری ہدایات جاری کروں گا کہ وہ مدارس پر چھاپے مارنا بند کریں انہوں نے بطور خاص گوجرانوالہ کے اس مدرسہ کا نام اور تفصیلات طلب کیں جس کے بارے میں پولیس اہلکاروں کی طرف توہین آمیز سلوک کی شکایت سامنے آئی تھین ۔

مجموعی طور پر یہ اجلاس ایک مثبت پیش رفت تھی لیکن بات صرف ایک اجلاس یا اس میں کی جانے والی زبانی کلامی گفتگو تک ہی محدود نہیں بلکہ اصل میں تو حکومتی اقدامات،پالیسیوں کی تشکیل پر آئندہ کے حالات وواقعات کا انحصار ہے دیکھنا یہ ہو گا کہ حکومت کی طرف سے مدارس میں زیر تعلیم لاکھوں بچوں کو اپنے بچے سمجھ کر ان کے ساتھ معاملات کیے جاتے ہیں یا پھر مدارس بارے مغربی دنیا کے ایجنڈے کو پروموٹ کیا جاتا ہے ؟……اس کا فیصلہ وقت کرے گا-
Abdul Qadoos Muhammadi
About the Author: Abdul Qadoos Muhammadi Read More Articles by Abdul Qadoos Muhammadi: 120 Articles with 130078 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.