بجلی‘ گیس ،اور پٹرول کی قلت اور مہنگائی

حکومتی بدنظمی اور بے نیازی سے ملک میں پیدا ہونیوالا پٹرول کی قلت کا بحران مزید سنگین ہو گیا ہے اور ملک کے کم و بیش تمام پٹرول پمپوں پر پٹرول کے حصول کیلئے آنیوالی گاڑیوں کو لمبی لائنوں میں لگ کر کئی کئی گھنٹے کے اذیت ناک انتظار کے بعد بھی پٹرول دستیاب نہ ہو سکا اور جن پٹرول پمپوں پر تھوڑا بہت پٹرول دستیاب تھا‘ وہ موقع سے فائدہ اٹھا کر شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے اور دو سو روپے لٹر تک پٹرول فروخت کرکے پٹرول سستا ہونے کی ساری کسر نکالتے رہے۔ وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پٹرول کا بحران آئندہ 5 سے8 روز کے دوران ختم ہو جائے گا، بحران کی چار بڑی وجوہات ہیں، پٹرول کی کھپت12ہزار ٹن یومیہ سے بڑھ کر 15ہزار ٹن یومیہ ہو گئی، پارکو ریفائنری فنی خرابیکی وجہ سے 5روز بند رہی جبکہ پی ایس او پمپ تیل کا ایک جہاز ایک ہفتہ تاخیر کا شکار ہوا،اس کے علاوہ صوبہ سندھ اور خیبرپختونخوا کے جن علاقوں میں سی این جی مل رہی ہے وہاں پر بھی پٹرول سستا ہونے کی وجہ سے لوگوں نے استعمال بڑھا دیا، یکم جنوری کو 40ہزار ٹن پٹرول فروخت ہوا جو ریکارڈ ہے، 31جنوری 2015ء تک پٹرول کی ایک لاکھ 68ہزارٹن کی اضافی کھیپیں پہنچ جائیں گی،پی ایس او دیوالیہ نہیں ہوئی، ایل سیز بلاک ہونا معمول کی بات ہے، یکم فروری کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 5روپے تک مزید کمی متوقع ہے، پیپلز پارٹی انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس آرڈیننس کی مخالفت بلاوجہ کر رہی ہے، پنجاب میں موسم بہتر ہونے پر آئندہ ماہ سی این جی کی فراہمی شروع ہو سکتی ہے، 31مارچ سے 400 ملین مکعب فٹ یومیہ ایل این جی کی درآمد شروع ہو گی۔ وہ جمعہ کو پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پٹرول کا بحران شمالی پنجاب اور خیبرپختونخوا کے کچھ علاقوں میں موجود ہے جس کی تین چار بنیادی وجوہات ہیں، یکم جنوری کے بعد کھپت میں بہت اضافہ ہوا،12ہزار ٹن یومیہ سے بڑھ کر 15 ہزار ٹن یومیہ پر گئی، اس کی بڑی وجہ قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے لوگوں نے پٹرول کا استعمال زیادہ ہو گیا ہے جبکہ یکم جنوری 2015 کو ریکارڈ 40 ہزار ٹن پٹرول فروخت ہوا۔ دوسری بڑی وجہ جن علاقوں میں سی این جی مل تو رہی ہے لیکن آسانی سے نہیں مل رہی وہاں پربھی پٹرول کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ تیسری بڑی وجہ پارکو آئل ریفائنری خرابی کی وجہ سے پانچ روز بند رہی جبکہ چوتھی بڑی وجہ یہ ہے کہ تیل کا ایک جہاز ہفتہ لیٹ ہو گیا حالانکہ ان وجوہات کی بناء پر پٹرول کی قلت پیدا نہیں ہونی چاہیے تھی، پٹرول کی کھپت 340000ٹن تھی اور ریفائنری پروڈکشن 180000 تھی۔ اب سپلائی بڑھائی جا رہی ہے جس میں روزانہ اضافہ ہو گا۔ وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آئندہ 5 سے 8روز میں پٹرول کا بحران ختم ہو جائے گا کیونکہ اضافی کھیپ کا بندوبست کیا گیا ہے۔ جہاں تک پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی کا معاملہ ہے اس میں بھی حکمرانوں نے خوب ڈنڈی ماری اور عالمی مارکیٹ میں گزشتہ پانچ ماہ سے جاری تیل کے نرخوں میں کمی کے رجحان کا پہلے دو ماہ تک تو عوام کو فائدہ ہی نہ پہنچنے دیا جبکہ تیسرے مہینے حکومت نے عمران خان کی دھرنا تحریک کا دباؤ کم کرنے کیلئے عوام کو تیل کے نرخوں میں کمی کا مڑدہ سنایا جو عالمی مارکیٹ میں ہونیوالی کمی کا عشرعشیر بھی نہیں تھی۔ اس وقت عالمی مارکیٹ میں پٹرول کے نرخ 120 ڈالر فی بیرل سے کم ہوتے ہوتے 44 ڈالر فی بیرل تک آگئے ہیں اور اس حساب سے پاکستان میں بھی پٹرول کے نرخ زیادہ سے زیادہ پچاس روپے فی لٹر مقرر ہونے چاہئیں مگر حکومت نے ہر مہینے عوام کو ترسا ترسا کر پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں جو کمی کی‘ اس میں بھی جی ایس ٹی میں اضافہ کرکے حساب برابر کر دیا اور اب سرے سے پٹرول دستیاب ہی نہیں۔ چنانچہ پٹرول پمپ مالکان کو بھی اپنا ناجائز منافع کھرا کرنے کا نادر موقع مل گیا ہے۔ پی ایس او کے ترجمان کے موقف کی روشنی میں اگر پٹرول کی قلت پی ایس او کو مطلوبہ ادائیگی نہ کرنے کے باعث پیدا ہوئی ہے تو بیڈگورننس کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے جبکہ حکمرانوں کو پٹرول کے بحران سے پیدا ہونیوالے عوامی اضطراب کا ابھی تک احساس بھی نہیں ہو پایا۔ وزیراعظم میاں نوازشریف اس بحران سے کان لپیٹتے ہوئے خود سعودی عرب روانہ ہو گئے جبکہ پٹرولیم کے وزیر اور سیکرٹری پٹرولیم نے پہلے اس بحران کے حوالے سے کسی قسم کی وضاحت کی زحمت بھی نہ کی اور گزشتہ روز وزیر پٹرولیم نے لب کشائی کی تو عوام کو مزید جھٹکا لگاتے ہوئے انہیں پٹرول کی قلت آئندہ دو ہفتے تک برقرار رہنے کا ’’مڑدہ‘‘ سنادیا۔ جمہوری حکمرانوں کی ایسی عاجلانہ پالیسیوں اور بے نیازیوں کے باعث ہی سلطانی جمہور کا مردہ خراب ہوتا ہے اور غیرجمہوری عناصر کو جمہوریت کی بھد اڑانے اور اس کیخلاف سازشوں کے جال پھیلانے کا موقع ملتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اپنی ہی عاقبت نااندیشیوں کے باعث جمہوریت کی بساط بار بار لپٹوانے کے باوجود سلطانی جمہور کی صورت میں اقتدار میں آنیوالے سیاست دانوں نے اب تک اپنی ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہ اپنے دور اقتدار میں میرٹ کا جنازہ نکالتے‘ اقرباء پروری کی انتہاء کرتے‘ قومی خزانے اور وسائل کو اپنے تصرف میں لاتے اور کرپشن و لوٹ مار کی نئی داستانیں رقم کرتے وہی روش اختیار کئے رکھتے ہیں جو بالآخر جمہوریت کو خراب کرنے پر منتج ہوتی ہے۔ اس معاملہ میں موجودہ حکمرانوں کا ٹریک ریکارڈ تو اور بھی خراب ہے جنہوں نے اپنے ہر دور حکومت میں عوام کو زچ کرنیوالی پالیسیاں ہی اختیار کی ہیں جس کے باعث وہ اپنے خلاف عوامی تحریک کی راہ بھی خود ہی ہموار کرتے رہے ہیں۔ عمران خان نے اگرچہ انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کے تحت گزشتہ سال 14 اگست کو اپنی احتجاجی تحریک کا آغاز کیا تھا مگر عوام حکمرانوں کے پیدا کردہ روٹی روزگار کے مسائل‘ بجلی‘ گیس کے بحران اور مہنگائی کے عفریت سے زچ ہو کر عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی حکومت مخالف تحریکوں کی جانب متوجہ ہوئے اور انکی سیاست کے فروغ کا باعث بنے۔ جب اس تحریک کے نتیجہ میں حکمرانوں کو اپنا اقتدار کا سنگھاسن خطرات میں گھرا نظر آیا تو انہوں نے منتخب ایوانوں کی جانب توجہ دی اور وزیراعظم نوازشریف خود تواتر کے ساتھ پارلیمنٹ کے اجلاس میں شریک ہونے لگے۔ وہ اس حکومت مخالف تحریک کے دباؤ پر ہی پٹرولیم مصنوعات کے نرخ کم کرنے پر مجبور ہوئے تھے جس کا اعلان خود کرکے انہوں نے سیاسی کریڈٹ لینے کی کوشش کی مگر سانحہ? پشاور کی بنیاد پر عمران خان نے جیسے ہی اپنی دھرنا سیاست ختم کرنے کا اعلان کیا‘ حکمران عوام کو لوٹنے اور انہیں روزمرہ کے مسائل کی مار مارنے کیلئے پھر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے جبکہ اس وقت عملاً یہ صورتحال ہے کہ حکومتی گورننس کہیں ڈھونڈے سے بھی نظر نہیں آرہی جو حکومت کی اپنی کمزوریوں کے باعث دہشت گردی کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ ہر شعبہ زندگی میں فوج کے عمل دخل کے نتیجہ میں عملاً فوج کی حکمرانی میں تبدیل ہو چکی ہے جبکہ سول حکمرانی کی رہی سہی کسر حکمران طبقات بے نیازی پر مبنی اپنی پالیسیوں سے نکال رہے ہیں۔ اگر اس وقت حکومتی بے تدبیریوں کے نتیجہ میں عوام کو ملک بھر میں پٹرول کی قلت کا سامنا ہے جس سے روزگار حیات مفلوج ہو کر رہ گیا ہے تو امور حکومت تک میں فوج کے بڑھتے ہوئے عمل دخل سے حاصل ہونیوالی عوامی پذیرائی براہ راست افواج پاکستان کے اقتدار کی نوبت ہی لائے گی جس کے بعد ماضی کے تلخ تجربات سے سبق حاصل نہ کرنیوالے یہی سیاست دان پھر جمہوریت کی بحالی کیلئے اگلی ایک دو دہائیوں تک سر پھٹول کرتے نظر آئینگے۔ کیا کبھی انہیں عقل آئیگی کہ وہ سلطانی? جمہور کیخلاف ماورائے آئین اقدام والی سازشوں کو پنپنے نہ دیں۔ مگر یہ تو اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مارنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ انہیں سوچ رکھنا چاہیے کہ بجلی‘ گیس کی قلت اور مہنگائی کے مارے عوام اب پٹرول کی قلت سے جتنے مضطرب ہیں‘ وہ دوبارہ سڑکوں پر آئے تو اقتدار کے ایوانوں کا انجرپنجر ہلا دینگے۔ عوام کو مسائل کے دلدل کی جانب دھکیلنے والے حکمرانوں کو بھلا کیونکر حقِ حکمرانی حاصل ہو سکتا ہے؟ایک اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بجلی کا شارٹ فال بڑھتے بڑھتے سات ہزار میگا واٹ سے تجاوز کر گیا ہے جس سے وطن عزیز میں بجلی کا پہلے سے جاری بحران سنگین تر ہو گیا ہے اس حوالے سے ملنے والی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ حبکو کو فرنس ا?ئل کی عدم دستیابی کے باعث اپنا ایک اور یونٹ بند کرنا پڑا ہے جس سے بجلی کی پیداوار میں مزید کمی ا? گئی ہے اور لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ شہروں میں ا?ٹھ سے بارہ گھنٹے اور دیہات میں سولہ سے اٹھارہ گھنٹے تک جا پہنچا ہے یہی صورتحال گیس کی ہے خاص طور پر پنجاب میں اول تو گیس دستیاب ہی نہیں اور اگر بعض علاقوں میں اس کی سپلائی جاری ہے تو ان میں گیس کا پریشر اس قدر کم ہے کہ شہریوں کے لئے کھانا تو درکنار چائے تک پکانا بھی ناممکن ہو کر رہ گیا ہے یہ صورتحال دور دراز دیہات میں ہی نہیں بلکہ صوبائی دارالحکومت لاہور، گوجرانوالہ اور راولپنڈی ایسے شہروں کے باسی بھی اسی اذیت سے گزر رہے ہیں۔ بجلی اور گیس کا بحران ایک عرصہ سے پورے ملک کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ارباب اختیار اس مسئلے کی سنگینی کا پوری طرح احساس کر پا رہے ہیں نہ اس حوالے سے عوام کو فوری ریلیف مہیا کرنے کے لئے کوئی اقدام کر رہے ہیں ان کا سارا زور بیان اس بات پر صرف ہو رہا ہے کہ اس سلسلے میں ٹھوس منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور دو اڑھائی سال میں عوام کو بجلی کی فراہمی میں خاصی سہولت مل جائے گی لیکن عوام اس سے مطمئن نہیں ہو پا رہے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ 2018اگلے انتخابات کا سال ہو گا اور موجودہ حکومت بجلی و گیس کی فراہمی میں ناکامی کا سارا ملبہ اپنے سر پر اٹھائے عوام سے استدعا کر رہی ہو گی کہ انہیں ایک مرتبہ پھر منتخب کیا جائے تو وہ یہ مسائل مکمل طور پر حل کر دیں گے لیکن مسائل محض دعوؤں سے نہیں ٹھوس منصوبہ بندی سے حل ہوتے ہیں اس لئے اب حکومت کو عوام کے ان مسائل کے حل کے لئے کچھ کر کے دکھانا ہو گا تب ہی عوام کے آئندہ ووٹوں کی حقدار بن سکے گی-
Sajjad Ali Shakir
About the Author: Sajjad Ali Shakir Read More Articles by Sajjad Ali Shakir: 132 Articles with 131975 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.