موسم بدل رہا ہے ،ہواکی درشتگی
اور تلخی میں کمی واقع ہو رہی ہے ،نکھرے نکھرے پھول پتے بہاراں کا مژدہ
سنارہے ہیں ،پنچھیوں کے گیت بھی ہواؤں میں بکھرنے لگے ہیں ۔پہاڑوں پر بارش
سے بھی کافی فرق پڑا ہے ،مگر ابھی برف جمی ہے اورگلوں کی وادی میں نیم مردہ
جزبے مدہوش پڑے ہیں مگر انگڑائی لینے لگے ہیں ، اور امید ہے وہ بھی آئندہ
چند دنوں میں بیدار ہوجائیں گے ۔روح سے دہشت و خوف کا جوآسیب لپٹ گیا تھا
وہ بھی ہماراعزم و ہمت کو دیکھ کر بھاگ رہا ہے۔ مقام افسوس یہ ہے کہ سیاسی
موسم میں کوئی واضح تبدیلی دکھائی نہیں دے رہی ہے ،سرد لہجوں کے برف زاروں
پر منجمد سوچیں ، برہنہ خواہشیں اور احساس سے عاری فیصلے ہیں۔گزشتہ سال جس
جنگ کا آغاز ہوا تھا اسے سانحات اور حادثات بھی نہیں روک پائے ہیں ،جذبات
پر جب بے حسی کی کہر جم جائے تو یہ کسی بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے
۔اور اس میں نقصان صرف بے حس کا نہیں ہوتا اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ آٹے
کے ساتھ اکثر گھن بھی پس جاتا ہے اور پھر سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں
رہتا کیونکہ وقت کی تیزی تو ضرب المثل کی قید سے بھی آزاد ہو چکی ہے ۔کسی
نے کیا خوب کہا ہے
وقت اک ریشمی آنچل ہے ترے شانے پر
تو اسے روکنا بھی چاہے یہ ڈھلکتا جائے
پاکستان کو وجود میں آئے ۸۶ برس بیت چکے مگرآج تک ہم نے من حیث القوم کچھ
بھی نہیں کیا جو بھی کیا من حیث الذات کیا ۔اورہمیں حیرت ہے کہ پاکستان کے
حالات اس قدر گھمبیر کیوں ہیں ، آج سوال یہ نہیں کہ ان حالات کا کس کو ذمہ
دار ٹھہرایا جائے آج سوال یہ ہے کہ کس کس کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے ۔کیوں کہ
چند دن پہلے تو یہ عہد کیا گیا تھا کہ سانحہ پشاور پر سیاست نہیں ہوگی
کیونکہ ملک سیاست کا متحمل نہیں ہوسکتا ،گو جناب عمران خان کے ان الفاظ نے
ان کی عظمت کے معیار کو بلند کیا تھا مگر وقت کی گھڑیوں نے دیکھا کہ حزب ِ
اختلاف اور حزب اقتدار نے اس پر کس طرح عمل درآمدکیا ،میں پھر کہوں گی بات
صرف ترجیحات کی ہے ،چالیسویں سے پہلے سہرا سجاکر ۲۲ گاڑیوں کا لشکر لیکر
اپنی نوبیاہتا دلہن کے ساتھ مقتل کا دورہ کرنا اور پھر یہ کہنا کہ مجھے تو
سمجھ ہی نہیں آیا کہ والدین نے احتجاج کیوں کیاہے’’اس سادگی پر کون نہ مر
جائے اے خدا‘‘اوراسی پر بس نہیں کیاگیا، انفارمیشن منسٹر مشتاق غنی نے اس
کو سیاسی رخ دینے کی کوشش کی اورجناب عمران خان نے جب پریس کانفرنس کی
توسانحہ پشاور کے شہداء کے بارے کسی بھی قسم کے کوئی عملی اقدام یا کسی بھی
عملی پیش رفت کا ذکر نہیں کیا ، NA 120 کے حوالے سے ہی بات کی اور یہ کہ ہم
دوبارہ تحریک کا آغاز کریں گے اور یہ کہ پینسٹھ ہزار سکولوں کو سیکیورٹی
فراہم کرنا حکومت کے لیے ممکن نہیں ،یعنی سارے دعوی دھرے کے دھرے رہ گئے
ہیں،تو عوام کو بھی سوچنا ہوگا کہ جو ایک صوبہ سنبھال نہیں سکتے پورا ملک
کیسے سنبھالیں گے ۔وزیر اعظم میاں نواز شریف کے پاس تو مشیر ہی ایسے ہیں جو
انھیں کبھی بھی درست سمت کا پتا نہیں دیتے ،جبکہ ان کو بھی پہلے دن بچوں کا
استقبال کرنا چاہیئے تھا ،فرانس میں صرف 17 افراد کی ہلاکت پر 40 ملکوں کے
سربراہان پیرس ریلی میں شریک ہو سکتے ہیں تو مگر ہم لوگ چند دن کا سوگ نہیں
منا سکتے ان معصومم بچوں کو گلے لگا کر حوصلہ نہیں دے سکتے ہمارے احساس
زیاں کو کون سی ایسی دیمک نے چاٹ لیا ہے کہ جو ہمیں ذات سے نکلنے ہی نہیں
دیتی۔
مگر اک بات طے ہے کہ اب سنجیدگی سے اس ملک کے کرتا دھرتا کو سوچنا ہوگا ،کہ
ایسے میں سیاست ہونی چاہیئے ،بیان بازی ہونی چاہیئے ،وہی میدان کارزار جو
گزشتہ سال سجا رہا وہ دوبارہ سجنا چاہیئے یا سب کو مل کر کام کرنا چاہیئے
۔کام کی تو خیر بات ہی چھوڑیں اس ملک میں کیا کام ہو رہا ہے اگر اس پر ایک
طائرانہ سی نگاہ ڈالی جائے تو انساں ن خود پشیمان ہو جاتا ہے کہ وہ اس ملک
کا باسی ہے ۔پنجاب کے عوام کو تین روز تک مناسب مقدار میں پٹرول سپلائی نہ
ہو سکا اور اس نا اہلی پرابھی تک کوئی کاروائی بھی نہیں کی گئی ہے ،اس سے
کس قدر نقصان ہوا شاید اس کا بھی کسی کو احساس نہیں ہے ، احساس تو اس کا
بھی کسی کو نہیں کہ Urine Bag سے پلاسٹک دانہ بنایا جارہا ہے اور ان سے
بچوں کے فیڈر بنتے ہیں ،سندھ میں پانی جو کہ بنیادی ضرورت ہے ،تھر میں اس
کی کمی سے معصوم بچے مر رہے ہیں تو کراچی میں پانی کو بیچا جا رہا ہے
۔پشاور میں شہداء سراپا احتجاج ہیں تو حکومت مڈٹرم الیکشن کی خواہاں ہے اور
حکومت کی جانب سے کوئی پیش رفت یا بچوں کے لیے مناسب اقدامات دیکھنے میں
نہیں آرہے جن سے ان کے والدین کے غم میں کمی واقع ہو سکے ،ہاں اتنا ضرور
ہوا ہے کہ تجاوزات ہٹادی گئیں ہیں اور کرین کے نیچے ۳ افراد کچلے گئے ہیں
مگر کسی کو کیا غرض کہ ان کے لواحقین اب کیا کریں گے ،اب گزر بسر کیسے
ہوگی۔ بجلی اور گیس کی فراہمی کا تو کچھ پوچھئیے مت اور ہم داعی ہیں کہ ہم
اب بہتری کے لیے کوشا ں ہیں ۔یہ تو اندرونِ ملک کے حالات ہیں اگر ہم بیرونی
دنیا کی طرف نگاہ دوڑائیں تو یورپ اور فرانس میں مسلمان کمیو نیٹی کے خلاف
جذبات میں اضافہ ہو رہا ہے ۔اگر چہ دوستانہ تعلقات تو پہلے بھی نہیں تھے،
مسلسل مسلمانوں کے جذبات کو مجروع کیا جاتا رہا ہے مگر اب مغرب ڈیڈھ ارب
مسلمانوں کو ناراض کر رہا ہے ہم دہشت گردی کے خلاف ہیں اور ہمارے آرمی چیف
اس کے خلاف روز و شب برسر پیکارہیں مگر ۔۔۔وائے افسوس !ہم حمایت بھی نہیں
کر سکتے کیوں کہ ہم توہین آمیز خاکوں کے بھی خلاف ہیں ،یہ امت مسلمہ کے لیے
کس قدر باعث ِاذیت ہے اس کا ادراک مغرب کو کرنا ہوگا ،اس بارے اقوام متحدہ
کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیئے اور مثبت حل نکالنا چاہیئے ۔
آج ہم اغیار و اجانب کے بیچ میں ہیں ،راستہ غبار آلودہے منزل کا تعین بھی
مشکل نظر آرہا ہے اور غمازِ چمن ہمارے اندر انتشار پھیلا رہے ہے ،درحقیت ہم
اس دشت بھٹک رہے ہیں جہاں سکون و سلامتی اور فلاح ملت سراب ہو چکی ہے
۔کیونکہ ہم سب مفادات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں آج اگر ہم نے اپنے روایتی
اندازِ زندگی نہ بدلے تو اب کے موئرخ ہمارا ذکران اقوام میں کرے گا جن کے
سامنے موت رقصاں تھی اور وہ مست مئے پندار رہیں۔ اس لیے ہمیں بنا کسی تامل
آگے بڑھنا ہوگا اس وہم کو بالائے طاق رکھ کر کے کہ آنے والے پل کیا ہوگا
اور کیا ہو چکا ہے کیونکہ
ہر کہ آمد بہ جہاں فنا خواہد بود
آں کہ پائندہ و باقیست خدا خواہد بود
’’ہر شخص جو کہ دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن مرنا ضرور ہے ہمیشہ باقی رہنے
والی تو صرف خدا کی ذات ہے ۔‘‘اگر آج ہمیں اندرونی اور بیرونی جنگ جیتنی ہے
تو ہمیں اپنی سوچ اور فکرمیں اتحاد لانا ہوگا ہم سب کو ایک جھنڈے تلے جمع
ہونا ہوگا اور ایک نکتہ نظر پر متفق بھی ہونا ہوگا ۔کیونکہ جب تک ہماری سوچ
میں اتحاد نہیں ہوگا قوم متحد نہیں ہوسکتی !ہمیں اپنی ذات سے باہر نکلنا
ہوگا ،ذاتی اغراض کو پس پشت ڈال کر قوم کے لیے فیصلے کرنے ہونگے ،گروہی
تقسیم ہمیں راس نہیں آئی ،حریف ہم پر حاوی ہو رہا ہے،وقت کی پکار ہے کہ شہر
ذات سے باہر نکلو کہ زمانہ چال قیامت کی چل گیا ۔۔۔ |