حمیدالدین مشرقی .... عوامی حقوق کا علمبردار

یہ 2007 کے آخری دنوں کی بات ہے جب خاکسار تحریک کے علامہ حمید الدین مشرقی کے ساتھ میرا باقاعدہ تعارف ہوا۔ لاہور میں ہم کچھ دوستوں نے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی مسلسل قید و بند کے خلاف ایک تحریک کی بنیاد رکھی جس کے تحت ہر جمعہ کے روز پریس کلب کے باہر مظاہرہ کیا جاتا تھا اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائی کے لئے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کی جاتی تھی تاکہ حکمرانوں تک یہ پیغام پہنچ سکے کہ اس ملک کے عوام کسی بھی شخصیت سے زیادہ اپنے قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے محبت اور عقیدت رکھتے ہیں اور انہیں ہرگز ہرگز ملزم اور مجرم نہیں سمجھتے جیسا کہ ملک و قوم کی خاطر بلیک میل کر کے ان کا اعترافی بیان میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا اور ان کو قربانی کا بکرا بنا کر اصل لوگوں کو بچا لیا گیا۔ راقم چونکہ ”ڈاکٹر قدیر رہائی تحریک “کا پہلا کنوینیر مقرر ہوا اس لئے میری ذمہ داری میں مختلف لوگوں سے، جماعتوں اور زندگی کے تمام مکاتب فکر کے راہنماﺅں سے رابطہ بھی شامل تھا۔ چنانچہ جب میں نے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں اور لیڈران سے روابط کا آغاز کیا تو ان میں علامہ حمید الدین مشرقی بھی شامل تھے۔ ان سے ہلکا پھلکا تعارف تو وکلاء تحریک کے دوران ہوچکا تھا بلکہ اسے یکطرفہ تعارف کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کیونکہ وہ سول سوسائٹی کی جانب سے وکلاء کے جلوسوں میں شامل ہوتے تھے اور اپنی زور دار آواز کے ساتھ جب نعرے لگاتے اور جلوس کی رہبری کرتے تھے تو وکلاء کے دلوں کو گرمانے کے ساتھ ساتھ جلوس کے شرکاء میں جان بھی ڈال دیتے تھے۔ میں نے بطور کنوینیر ”ڈاکٹر قدیر رہائی تحریک“ اور دیگر دوستوں نے بہت سی شخصیات اور جماعتوں سے رابطے کئے، جس کے نتیجے میں ہمارے احتجاجی مظاہروں میں مختلف جماعتوں کے قائدین کا آنا جانا شروع ہوگیا لیکن ہوتا یہ تھا کہ وہ سب لوگ صرف ایک بار مظاہرے میں شرکت کر کے اور ”ثواب دارین“ حاصل کر کے اپنا ”فرض کفایہ“ادا کرتے اور پھر بھول جاتے لیکن خاکسار تحریک کے سرخیل علامہ مشرقی کی شخصیت ایسی تھی جو ہر بار اپنے کارکنان سمیت اس مظاہرہ میں شریک ہوتے تھے جبکہ ان کے ساتھ تحریک انصاف کے کارکنان بھی تقریباً ہر مظاہرے کی جان ہوا کرتے تھے۔

علامہ حمید الدین مشرقی، خاکسار تحریک کے بانی علامہ عنایت اللہ مشرقی کے صاحبزادے اور نہایت متحرک انسان تھے۔ ان سے باقاعدہ تعارف کے بعد شاید ہی کوئی ہفتہ ایسا گزرا ہو جب انہوں نے راقم کو یاد نہ رکھا ہو۔ وہ ہر اتوار کے روز پریس کلب کے باہر مہنگائی، غربت، امن و امان، ڈاکٹر عافیہ اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائی کے لئے مظاہرہ کا اہتمام کرتے تھے اور ایس ایم ایس کر کے سب دوستوں کو اطلاع بھی کرتے تھے۔ ان کی آواز پاٹ دار اور رعب دار تھی اور ان کی بات میں اثر تھا کیونکہ وہ جو بات کہتے وہ دل سے کہتے۔ ایم آر ڈی کی بحالی جمہوریت تحریک میں وہ ہر اول دستہ میں شامل تھے۔ مشرف کی آمریت کے خلاف چلنے والی تحریک میں وہ سول سوسائٹی کی سب سے متحرک شخصیت تھے۔ مجھے یاد ہے کہ وہ دونوں مرتبہ لانگ مارچ میں بھی سب سے آگے آگے تھے۔ ان کی ٹانگیں سوج جاتی تھیں، پاﺅں میں پیدل چلنے کی وجہ سے آبلے پڑ جاتے تھے لیکن نہ تو انہیں کھانے پینے کا ہوش تھا نہ اپنی صحت کی پرواہ، ایک لگن تھی، دھن سوار تھی کہ اس ملک سے آمریت کے سیاہ بادل چھٹ جائیں اور ایک نئی صبح بیدار ہوجائے۔ چیف جسٹس اور عدلیہ کی بحالی کے لئے جہاں جہاں وکلاء گئے وہیں وہیں علامہ مشرقی بھی گئے، ان کا جذبہ تھا جو ہر وقت انہیں متحرک رکھتا تھا۔ ایک انتھک اور جاندار شخصیت جس کو کوئی دھمکی یا لالچ اس کے راستہ سے ہٹا نہ سکا۔

عوامی مسائل اور معاملات پر فوری رد عمل ان کی شخصیت کا خاصہ تھا۔ نہ صرف یہ کہ زبانی رد عمل بلکہ عملی طور پر مظاہروں اور جلوسوں کے ذریعہ عوام کے جذبات کا اظہار اور حکمرانوں تک بات پہنچانے کا فن قدرت نے انہیں بطور خاص عطا کر رکھا تھا۔ ناروے کے شیطانوں کی جانب سے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کی گئی تو علامہ مشرقی، وکلاء کی جانب سے نکالی گئی حرمت رسول ریلی میں سب سے آگے تھے۔ وہ حقیقتاً ایک محب رسول تھے جن کے دل میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اللہ تعالیٰ نے بہت زیادہ رکھی تھی۔ مہنگائی کے عفریت کے خلاف، امن امان کی بہتری کے لئے، پاکستان پر امریکی ڈرون حملوں کے خلاف، محسن پاکستان ڈاکٹر قدیر کی رہائی، دختر پاکستان ڈاکٹر عافیہ کی امریکی چنگل سے رہائی اور وطن واپسی کے لئے، ملک میں قانون کی حکمرانی غرضیکہ ہر عوامی معاملہ میں علامہ مشرقی فوری طور پر متحرک ہوجایا کرتے تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ پاکستان میں عوامی مسائل پر احتجاج کا استعارہ بن چکے تھے تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔

جب دو روز قبل مجھے اطلاع ملی کہ علامہ مشرقی اب اس دنیا میں نہیں رہے تو انتہائی دکھ اور رنج ہوا اور مجھے لگا کہ اس دھرتی کا ایک اور بہادر سپوت رزق خاک ہوا، ابھی ان کی عمر صرف 53 برس تھی لیکن وہ نوجوانوں سے بھی زیادہ جوشیلے تھے، ان کے سینے میں پاکستان سے محبت کے جذبات کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر رواں دواں تھا۔ انہوں نے زندگی میں صرف دوست بنائے، جس سے بھی ملتے اسے اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے۔ آج جب ان کی نماز جنازہ میں ان کی مغفرت کے لئے ہاتھ اٹھائے تو بے اختیار آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے، وہ میرے دوست بھی تھے اور بزرگ بھی! ان کی نماز جنازہ میں تمام مکاتب فکر کے لوگوں کی شمولیت اس بات کا اظہار تھی کہ وہ سبھی کے لئے محترم تھے، وہ پاکستان اور بالخصوص اہل لاہور کے لئے ایک اثاثہ تھے، عوامی حقوق کے تحفظ کا نشان تھے اور آج کے دور میں جب ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے، اس طرح کا بے لوث، مخلص اور ہمدرد انسان شاید ہی کہیں موجود ہو! اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عنایت فرمائے، ان کی غلطیوں اور انسانی لغزشوں کو معاف فرمائے، اس قوم کے لئے کئے گئے ان کے اعمال کا انہیں بہترین اجر عطا فرمائے اور ان کے لواحقین اور ان کے چاہنے والوں کو صبر جمیل عطا فرمائے! ....آمین
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222553 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.