ایک میں نہیں کہتا خبروں میں لکھا ہے یاروں

بھارت کی اصلیت......بھارت دنیاکا بدنام ترین ملک ہے
مذہبی عدم رواداری میں بھارت دنیا کا خراب ترین دوسرا ملک ثابت ہوگیا ہے

بھارت سے متعلق ایک ایسی خبر جس کے بارے میں ایک میں نہیں کہتا سب نے لکھا اور پڑھا ہے یاروں جو گزشتہ دنوں ساری دنیا کے الیکٹرانک اور پریس میڈیا کی زینت بنی رہی جس میں بھارت جیسے سیکولر ملک کی اصلیت کچھ اِس طرح سے بیان کی گئی تھی کہ بھارت جو اِن دنوں اپنے یہاں مذہبی عدم رواداری کا شکار ہے اور اِس کے یہاں یوں ہونے والی مذہبی عدم رواداری خود بھارت کے وقار کو بھی بُری طرح سے مجروح کرنے کا باعث بن چکی ہے۔

میرے خیال سے اگر بھارت نے اپنے یہاں روا رکھی گئی مذہبی عدم رواداری کی روش کو کسی بھی طرح تبدیل نہ کیا تو عین ممکن ہے کہ جس کی وجہ سے مستقبل قریب میں بھارت کو سیاسی، مذہبی، اقتصادی اور معاشی لحاظ سے شدید نقصان اٹھانا پڑے۔ اور بھارت جس کے بارے میں پہلے ہی یہ قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ بھارت کے عنقریب ٹکڑے ہونے والے ہیں اور بھارت ٹوٹنے والا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تمام قیاس آرائیاں سچ ثابت ہوجائیں اور بھارت جلد ہی مذہبی عدم رواداری کی وجہ سے اپنا شیرازہ بکھیر دے۔ جس سے جہاں بھارت کا اپنا نقصان تو ہوگا ہی وہیں اِس کے پڑوسی ممالک بھی نئی مشکلات اور چیلنجز سے دوچار ہوجائیں گے ۔

بہر کیف!اِس صورت ِحال میں یہ ساری باتیں تو سوچنے والی بھارتی حکمرانوں اور عوام کی ہیں کہ وہ اپنے یہاں ایک ایسی مذہبی رواداری کو فروغ دیں کہ جس میں بھارت میں بسنے والی اقلیتوں میں اپنے تحفظ کا احساس بیدار ہو اور بھارت میں مذہبی رواداری ٹھیک طرح سے پروان چڑھے۔

ہاں تو اِس طرح اچانک آنے والی اِس خبر نے جو بھارت میں مذہبی عدم رواداری سے متعلق ہے اِس نے جہاں نہ صرف خود بھارتی حکمرانوں( حکومت ) کو ہی ہلا کر رکھ دیا ہوگا تو وہیں اِس حیران کُن خبر سے ایک بڑا دھچکا بھارتیوں سمیت اُن لوگوں کو بھی ضرور لگا ہوگا کہ جو بھارتی تو نہیں ہیں مگر بھارتی مذہبی رواداری اور اِسے ایک مثالی سیکولر ملک ہونے کا موازانہ دنیا کے دیگر ممالک سے بھی کرتے اور کراتے نظر آتے ہیں اور جو اپنے اِس عمل سے بھی نہیں تھکتے ہیں اُنہیں یقیناً اَب ضرور ندامت ہوگی جنہوں نے یہ خبر پڑھی اور سنی ہوگی۔

تاہم اِس خبر سے قبل بھارت جو دنیا بھر میں اپنی مذہبی رواداری کے باعث ایک بڑا سیکولر ملک ہونے کی وجہ سے اپنی ایک علیحدہ پہچان رکھتا تھا اور اِس کی اپنی ایک منفرد حیثیت تھی اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ اِس بنا پر اِس کی شہرت کے چرچے بھی ہر طرف ہوا کرتے تھے کہ بھارت دنیا کا ایک ایسا ملک ہے کہ جہاں بسنے والے مختلف ادیان کے لوگوں کو اپنی مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے اور یہاں بسنے والے لوگ اپنی مذہبی رسومات آزادی سے کرسکتے ہیں اِنہیں کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ اور یوں بھارتی ہندو حکمران اور ہندو عوام بھی اپنی خودساختہ اور نام نہاد مذہبی رواداری کے خول سے باہر ہی نہیں نکلتے تھے کہ اِنہوں نے دنیا کویہ ثابت کردیا ہے کہ ہندوستان میں ہندوؤں کے علاوہ ہر مذہب کے ماننے والوں کو پوری مذہبی آزادی حاصل ہے۔

مگر اِس کے ساتھ ہی مجھے یہاں یہ بھی کہنے دیجئے! کہ یوں اِسی خوش فہمی اور گھمنڈ نے بھارتیوں کے مزاج کو آسمان پر پہنچا دیا تھا۔ اور بھارتی ہندو حکمرانوں اور بھارتی ہندوؤں نے ہر دور میں یہ ہی سمجھ لیا تھا کہ دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں اِن کے یہاں بسنے والے دیگر دوسرے ادیان کی قوموں کی نسبت بھارتی مذہبی رواداری سب سے افضل و اعلی ٰ تھی۔ مگر گزشتہ دنوں بھارتی حکمرانوں اور عوام کا یہ غرور اور گھمنڈ اُس وقت خاک میں لوٹ پوٹ ہوتا ہوا نہ صرف محسوس کیا گیا بلکہ نظر بھی آیا کہ بھارتیوں کا سر کس طرح سے جھک گیا کہ اَب کبھی بھی بھارتی اپنی مذہبی رواداری اور بھارت کو دنیا کا ایک سیکولر ملک ہونے کے ناطے سر نہیں اٹھاسکیں گے کیوں کہ ایک امریکی تھنک ٹینک نے اپنے حالیہ سروے کے بعد انتہائی صاف و شفاف انداز سے یہ رپورٹ دی ہے کہ بھارت کے قائدین اور عوام جو اپنے ملک کو سیکولرزم اور مذہبی رواداری کا گہوارہ قرار دینے میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے نہیں تھکتے تھے اِن کا ملک بھارت اپنے یہاں مذہبی عدم رواداری اور اقلیتوں کے ساتھ تعصب برتنے کے سلسلے میں دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ خراب اور ایک ایسا بدنام ترین ملک بن گیا ہے کہ جہاں اقلیتوں کو کوئی تحفظ نہیں ہے اور اِس کے ساتھ ہی امریکی تھنک ٹینک نے اپنی اِس رپورٹ میں بھارت کو سیاسی طور پر ترقی پسند لیکن سماجی طور پر تنگ نظر ملک بھی قرار دے کر بھارت کی اصلیت دنیا کے سامنے عیاں کردی ہے اور اِس نے نہ صرف اپنی اِس رپورٹ میں یہ کہا ہے بلکہ اِس مفروضے کی حمایت میں 2002 کے گجرات کے مسلم کش فسادات اور 2008 میں اڑیسہ میں عیسائیوں کے خلاف شدت پسند ہندو تنظیموں کی پر تشدد مہم کا حوالہ بھی دیا ہے۔ جس کی بنا پر امریکی تھنک ٹینک نے اپنی یہ رپورٹ تیار کی ہے۔

اور اپنی اِس ہی رپورٹ میں اِس نے اِس نقطے کا بھی برملا اظہار کیا ہے کہ بھارت کے اکثریتی طبقے کے افراد اور یہاں کی انتہا پسند ہندو تنظیمیں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ انتہائی ناورا سلوک رکھتے ہوئے اقلیتوں کے حقوق کی کھلم کھلا پامالی کرتے ہیں۔ اور انہیں مذہبی رسومات کی ادائیگیوں سے بھی بزور طاقت روکتے ہیں۔ اقلیتوں کو جانی اور شدید مالی نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اور یوں خبر کے مطابق آگے چل کر امریکی تھنک ٹینک اور پیو ریسرچ سینڑ نے اِس کی مزید تفصیل میں بتایا کہ دنیا کے 198ممالک میں کئے جانے والے صفاف و شفاف سروے میں بھارت کو اِن 40ممالک کی فہرست میں جگہ دی گئی ہے جہاں سب سے زیادہ مذہبی پابندیاں رائج ہیں اِن ممالک میں بھارت دوسرے اور عراق کو اول نمبر پر رکھا گیا ہے۔

اِس سب کچھ کے باوجود اگر اَب بھی بھارتی یہ کہتے ہیں کہ بھارت میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے تو یہ بھارتیوں کی خود فریبی اور دنیا کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا کیوں کہ بھارت کی کوکھ سے اَب جو مذہبی عدم رواداری کا ناسور پیدا ہو رہا ہے اِس کی جڑیں اُس وقت تک روز بروز مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جائیں گیں کہ جب تک بھارتیوں میں عفو و درگرز اور برداشت کا مادہ پیدا نہیں ہوجاتا اور بھارتیوں میں یہ احساس بیدار نہیں ہوجاتا کہ انسانوں کا احترام ذات پات، رنگ ونسل، مذہب اور سرحد سے بھی بالاتر ہے۔

اور آج میں اپنے کالم کا اختتام حضرت شیخ سعدی رحمتہ اﷲ علیہ کی اِس حکایت پر کرتا ہوں کہ شر سے خیر اور برائی سے بھلائی کا پہلو نکالا جائے۔ ایک نیک سیرت بزرگ کا غلام بدخصلت ہونے کے علاوہ بڑا بد شکل بھی تھا اور اِس کے ساتھ ساتھ اِس کے لانبے لانبے اُلجھے اُلجھے بال ہمیشہ سے اٹے رہتے تھے اور اِس کی آنکھوں سے پانی جاری رہتا تھا بڑا کام چور تھا زمین پر پڑا ایک چھوٹا سا تنکا بھی اٹھانا گوارا نہ کرتا تھا اگر اِسے کوئی کام کرنے کو کہا جاتا تو سنی اَن سُنی کردیتا اور اگر کوئی کام کرتا تو اَدھورا کرتا۔ البتہ کھانے میں بڑا شیر کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا۔ بڑاپیٹو۔ کھانے پینے کے معاملے میں بڑا بے تکلف بڑا بیباک اجازت کے بغیر مالک کے ساتھ کھانا کھانے دسترخوان پر بیٹھ جاتا۔

ایک دن اِس نیک سیرت بزرگ کے پاس اِن کا ایک دوست ملنے آیا اور غلام کے لچھن دیکھ کر کہنے لگا” آپ کو اِس میں کونسی خوبی نظر آتی ہے جو آپ اِسے برداشت کر رہے ہیں مجھے تو اِس کی کوئی کل سیدھی نظر نہیں آتی ایسا بھدا، بھدا اور اول درجہ کا بدتمیز میں نے تو آج تک کہیں نہیں دیکھا۔ میرامشورہ ہے میاں اِس کے دام کھرے کرو۔ ایسی بھونڈی صورت تو رزق، روٹی کا کال ہوتی ہے نکالو اِسے گھر سے“
دوست کی باتیں سُن کر نیک سیرت بزرگ نے جواب دیا۔

” بیشک اِس کی شکل بری بھونڈی ہے عادتیں بھی اِس کی بڑی بُری ہیں چہرے سے اِس کی نحوست برستی ہے باتوں سے اِس کی بدبو آتی ہے۔ انسان نہیں؟ سینڈاس خانہ ہے لیکن اِس کی وجہ سے خود بھی میری عادتیں درست ہوئی ہیں میں نے اِس کی اِس قدر زیادتیاں برداشت کی ہیں کہ اَب ہر شخص کی زیادتی کو برداشت کرسکتا ہوں۔ اس لئے ہر بات مروت سے خالی ہوگئی کہ میں اِسے فروخت کرسکتا ہوں نہ گھر سے نکال سکتا ہوں“
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 900315 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.