تعصب نہیں !محبت

کہتے ہیں گیڈر کی جب شامت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف دڑکی لگا دیتا ہے۔پھر اس کے ساتھ جو ہوتا ہے وہی آجکل گڈ گورننس کے چمپئین شہباز شریف کے صوبے اور پچاس کلو میٹر پہ محیط وفاق کے باسیوں کے ساتھ ہو رہا ہے جہاں عملی طور پہ پنجاب ہی کی حکمرانی ہے۔اس خطے کو بھلے وقتوں میں غریبوں کی پناہ گاہ کہا جاتا تھا۔ہمارے پرکھے اس وقت کے صوبہ سرحد کے جنت نظیر شہر ایبٹ ا ٓباد سے تعلق رکھتے تھے۔وہاں موسم کمال کا تھا۔نظارے دلفریب تھے لیکن نہ موسم پیٹ کی آ گ بجھاتا ہے اور نہ نظارے گلے کی تراوٹ کا باعث بنتے ہیں۔یوں والد محترم نے چھوٹی سی ہجرت کے بعد واہ کو اپنا مسکن بنایا اور نو تعمیر واہ آرڈیننس فیکٹری میں ملازمت اختیار کر لی۔گم گشتہ جنت انہیں بہت یاد آتی لیکن غمِ روزگار اور پھر بچوں کی پڑھائی ہمیشہ ان کے پاؤں کی زنجیر بنی رہی۔چاہنے کے باوجود بھی وہ واپس نہ جا سکے۔

پنجاب کھلے دل کے لوگوں کا وطن ہے اور نمک کی کان ۔ ہر شے در کان نمک رفت نمک شد۔جو ایک بار یہاں چلا آئے پنجاب اس سے یوں بغل گیر ہوتا ہے کہ واپسی ناممکن بنا دیتا ہے۔میں نے پورا پاکستان گھوما ہے۔پنجابی کو ہر جگہ ہر صوبے میں کسی ٹیڑھی بات ترچھی نظر کا نشانہ بننا پڑتا ہے لیکن پنجاب میں کوئی آ جائے اور کہیں سے آ جائے پنجاب دس قدم پیش قدمی کر کے اسے گلے لگاتا ہے۔کوئی خان صاحب ،کوئی مانڑو ،کوئی لالہ۔پنجابی توا تو موقع ملے تو اپنے ابے کا بھی لگا لیتا ہے لیکن اس میں تعصب نفرت یا بد نیتی کا شائبہ تک نہیں ہوتا ۔یہ تو پنجابی کی محبت کا ایک انداز ہے۔کھلے ڈلے ،ہاتھوں پہ ہاتھ مار کے فلک شگاف قہقہے لگانے والے سادہ دل اور منہ پھٹ لوگ۔یہ خدا کی دین ہے جسے پروردگار دے۔کھل کے بات کرنے والے اور کھل کے کھانے والے۔لاہور پنجاب کا دل ہے اور ان سب خوبیوں سے مالا مال۔کہتے ہیں ڈاکٹر کسی بیماری کے علاج کے لئے قہقہے تشخیص کرے تو لاہوریا تلاش کر لیں وہ آپ کو مرنے نہیں دے گا۔یہ الگ بات کہ وہ آپ کو ہنسا ہنسا کے مار دے۔فیصل آباد کے تو ہر شہری نے خواہ وہ خواندہ ہو یا ناخواندہ مزاح میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔فیصل آباد پہنچ کے ایک مخولیے نے مزاح کا لوکل لیول چیک کرنے کے لئے ایک بڑھیا سے پوچھا۔امان یہ کچی بستی ہے؟ ترنت جواب آیا ۔پتر مجھے تو پتہ نہیں تو خود ہی ٹکر مار کے دیکھ لے۔

پنجاب اکثریتی صوبہ ہے۔اس کی آبادی دوسرے صوبوں کی نسبت زیادہ ہے۔وسائل کی تقسیم آبادی کی بنیاد پہ ہوتی ہے تو یہاں کے وسائل بلاشبہ کم پڑ جاتے ہیں۔اسی لئے یہاں دوسرے صوبوں کے مقابلے میں گیس بھی کم ملتی ہے اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ بھی زیادہ ہوتی ہے۔عوام تو ان باریکیوں کو نہیں سمجھتے کہ لیکن جو سمجھتے ہیں وہ اس معاملے میں پنجاب کے حکمرانوں کو پوری رعائت دیتے ہیں۔بجلی کی لوڈ شیڈنگ برداشت،گیس کی قلت قابل معافی لیکن پیٹرول کی عدم دستیابی کا تو وسائل کی تقسیم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔یہ وفاق کا معاملہ ہے اور وفاق کی نالائقی اور نا اہلی دراصل پنجاب ہی کی نا اہلی ہے کہ" نتھا سنگھ اینڈ پریم سنگھ بوتھ آر دا سیم تھنگ "کہ پورے پاکستان پہ شریف برادران ہی حکمران ہیں یا ان کے رشتہ دار۔پنجاب کے عوام راتیں پیٹرول پمپوں پہ گذار رہے ہیں اور حکمران بیورو کریسی کے مہروں کو معطل کر کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔حکمران تو بیس سال آگے کا سوچتے ہیں لیکن ہمارے حکمران شب دیگ کی دیگ سے سر نکالیں تو انہیں خبر ہو کہ آگے کیا معاملات در پیش ہیں۔ملک اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے لیکن یہ نا اہل اور نالائق لوگ بجلی کے منصوبے شروع کرنے کے سڑکیں بنا رہے ہیں۔ لوگ بھوک کی وجہ سے اپنے بچے اور اعضاء بیچ رہے ہیں اور یہ نابغے ووٹوں کے لئے ان بچوں میں لیپ ٹاپ بانٹ رہے ہیں جن کے پاس پہلے ہی چھ چھ لیپ ٹاپ ہیں۔

پیٹرول درآمد کیا جاتا ہے۔اس کے لئے باقاعدہ وزارت موجود ہے اور ایک باقاعدہ وزیر بھی۔ان کا کام یہی ہے کہ وہ طلب اور رسد کا حساب رکھیں۔ اس کے مطابق عالمی منڈی سے تیل کی خریداری کو یقینی بنائیں۔اس تیل کی خریداری کے لئے فنڈز وزارت خزانہ مہیا کرتی ہے۔پی ایس او نے بر وقت اپنی وزارت کو متنبہ کر دیا تھا کہ فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے اور گردشی قرضوں کی بنا پہ ملک میں پیٹرول کی شدید کمی واقع ہو سکتی ہے۔گردشی قرضے بھی ایک معمہ ہیں۔بجلی بنانے والی اور تقسیم کار کمپنیاں بھی حکمرانوں یا ان کے رشتہ داروں کے کنٹرول میں ہیں یا ان کی ملکیت ہیں۔انہیں فرنس آئل ادھار دیا جاتا ہے اس کی وہ بروقت کیا سرے سے ادائیگی ہی نہیں کرتے اور یوں پی ایس او دباؤ میں آتی ہے۔وزارت پیٹرولیم کے وزیر شاید خاقان عباسی نے اسی وجہ سے یہ بیان دیا ہے کہ تحقیقات کے نتیجے میں اگر میرا قصور ثابت ہو جائے تو میں مستعفی ہو جاؤں گا۔ انہیں پتہ ہے کہ قصور ان کا یا ان کی وزارت کا نہیں بلکہ وزیر اعظم کے سمدھی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا ہے۔اسحاق ڈار کے استعفے کا مطلب وزیر اعظم کا استعفیٰ ہے۔

اوپر بیان کی گئی سب کہانیاں ہیں اور آپ سب کے علم میں ہیں۔ جس بات پہ اس بحران میں مجھے سب سے زیادہ افسوس اور دکھ ہوا وہ لاہور کے سی این جی پمپس کھولنے کا معاملہ ہے۔پہلے پنجاب کے لوگوں سے دوسرے صوبوں کے عوام کو شکایات ہوا کرتی تھیں ۔اب ہمارے حکمران باقی پنجاب کو لاہور اور لاہوریوں سے متنفر کرنا چاہتے ہیں۔معاملہ یہاں بھی ووٹوں کا ہے۔نفرت تعصب پھیلتا ہے تو پھیلے ہمارے ووٹ خراب نہ ہوں۔ یہ ایسا عمل اور ایسی سوچ ہے جسے معاف نہیں کیا جا سکتا۔آپ یقین کریں پنجاب کے دوسرے شہروں میں پیٹرول پمپوں پہ خوار ہوتے عوام جہاں شریفوں پہ تبرا کر رہے ہیں وہیں لاہوریوں کو بھی کوس رہے ہیں۔یہ انسانی نفسیات ہے ۔تفریق یا تمیز وہ برداشت نہیں کرتا۔ گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ پہ بھی شور اسی لئے زیادہ مچتا ہے کہ عوام کے لئے یہ سہولیات میسر نہیں لیکن حکمران موج کر رہے ہیں۔اگر گیس کی لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی بندش وزیر اعظم اور وزیر اعلی کے بچوں کو بھی متائثر کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ قوم اس تکلیف کو ہنس کے نہ برداشت کرے۔

عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ عنہ کے دور میں شاہی فرمان تھا کہ برفباری کے دنوں میں پہاڑ کی چوٹیوں پہ چڑھ جاؤ اور وہاں خوراک کے دانے پھیلا دو کہ مسلمانوں کی حکومت میں کہیں پرندے بھوکے نہ رہ جائیں۔ حکمرانوں کے پسندیدہ ملک ترکی میں آج بھی اس روایت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ حکمران زرداری کے لئے چھتیس چھتیس ڈشیں پکاتے ہیں تو پھر انہیں عوام کی نفرت کا نشانہ بھی بننا پڑے گا کہ وہ اور تو کچھ کر نہیں سکتے نفرت تو کر ہی سکتے ہیں۔حکمرانو! ہمارا سب کچھ تو تم بند کر ہی چکے۔ ہو سکے تو کسی طرح ہوا بھی بند کر دو لیکن اپنے غلط فیصلوں سے اس منقسم قوم کو مزید تقسیم نہ کرو۔ہمیں تعصب کی نہیں محبت کی ضرورت ہے۔

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 267986 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More