قسمت کا کھیل کہا جائے یا اسے حکمرانوں کی مسائل سے غیر
شعوری طور پر لاعلمی قرار دیا جائے؟ جب سے میاں نواز شریف حکومت برسراقتدار
آئی ہے،ویسے تو پاکستان کے پینسٹھ فیصد علاقے پر مسلم لیگ نواز کی ہی حکومت
چلی آ رہی ہے ۔میری مراد شہباز شریف کی حکومت سے ہے جس میں وہ پچھلے پانچ
سال سے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ بس وفاقی حکومت کی سطح پر نواز شریف اب
کوئی بیس ماہ سے برسراقتدار ہیں۔ بجلی بحران ،گیس کی آنکھ مچولی کا کھیل ہو
یا عمران خاں کی دھرنا سیاست ہو ……سب نے ملکر میاں نواز شریف اور ان کے
بھائی شہباز شریف سمیت ساری حکومت کو ’’وخت‘‘ ڈال رکھا ہے۔ ہر بحران کی
ناکامی کی ذمہ داری بے چارے سرکاری ملازمین پر عائد کر کے خود حکومت سرخرو
ہونے کی کوشش کرتی ہے۔
میں جانتا ہوں کہ کسی بھی حکومت کی یہ خوائش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ
عوام کی خدمت کرے اور اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرکے اگلے انتکابات میں
فتح و کامیابی سے ہمکنار ہو……کویہ بھی حکومت چاہے کمزور ترین بھی کیوں نہ
ہو وہ ایسے اقدامات کرنے سے ہچکچاہتی ہے جن سے عوام میں حکومت کے خلاف نفرت
پیدا ہونے کا شائبہ تک ہو۔ لیکن بعض اوقات حالات نہ چاہتے ہوئے بھی ایسے
موڑ پر لا کھڑا کرتے ہیں جہاں حکومت اور اس کے وزرا اپنی تمام تر عقل و فہم
اور فراست کے ساتھ بے بس دکھائی دیتے ہیں۔جیسے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے
بجلی اور گیس کے مسائل حل کرنے میں کامیابی اس حکومت کا مقدر نہیں بن
پائی،حالانکہ وزیر اعلی پنجاب اور وزیر اعظم نواز شریف نے پیپلز پارٹی کی
حکومت کے خلاف اپنی احتجاجی مہم اور انتخابی مہم کا مرکزی نکتہ ہی بجلی اور
گیس کی لوڈ شیڈنگ سے عوام کو نجات دلانا رکھا تھا ۔کسی نے چھ مہینوں میں
اور کسی نے ایک سال کے اندر اندر ان دونوں مسائل سے نجات دلانے کے وعدے کیے
تھے لیکن پنجاب اور وفاقی حکومت اپنی نیک نیتی اور مخلص پن کے باوجود ان
دونوں مسلوں میں ابھی تک بے بس ہیں۔
پیپلز پارٹی کی بیڈ گورنس نے پاکستان کے عوام کو بے حد مایوس کیا جس سے
عوام میں شدید غم و غصہ پیدا ہوا جو بتدریج نفرت کی صورت میں تبدیل ہوا۔اس
اثناء میں پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف نے وفاقی حکومت کے حوالے سے سرگرم
کرپشن کہانیوں کے خلاف خصوصابجلی اورگیس کی بدترین لوڈ شیڈنگ کے ہاتھوں
ہاتھوں پریشان عوام کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا اور ان کی نمائندگی کرتے ہوئے
احتجاجی مہم کی قیادت کی، پھر انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ کی قیادت نے
دلکش نعروں کے ذریعے عوام کے دلوں اور اذہان میں ان کے مسائل کے حل کی
امیدو آس کے چراغ روشن کیے۔عوام نے سمجھا کہ مسلم لیگ کے برسراقتدار آنے پر
پلک جھپکتے ہی ان کے سارے مسائل ،مشکلات دور ہو جائیں گے۔لیکن ایسا نہ ہو
سکا،بقول مسلم لیگ کے قائدین ’’انہیں حالات کی سنگینی کا اندازہ ہر گز نہیں
تھا‘‘
عوام کو ان باتوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا انہیں تو بس اپنی زندگی میں
سکون اور چولھے جلنے سے کام ہوتا ہے۔
تیل کا بحران یک دم راتوں رات پیدا نہیں ہوا۔ اگر حکومت پی ایس او کی جانب
سے بھیجی گئی خط و کتابت پر ایک نظر ڈالنے کی زخمت گوارا کرتے، پی ایس او
کو 220 ارب روپے جاری کر دیتی تو یہ نوبت کبھی سامنے نہ آتی۔ جب پی ایس او
اپنے ذمہ واجب الااد ادائیگیاں نہیں کرے گی تو اسے تیل کیسے ملے گا؟
ادائیگیوں میں توازن برقرار رکھنا انتہائی لازمی امر ہے۔ حکومت کی لاپرواہی
کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے
بنائی جانے والی فورس کے لیے وزیر خزانہ نے گرانٹ دینے سے انکار کر دیا تھا
جبکہ میٹرو بس کے منصوبے پر اربوں دبوئے جا رہے ہیں۔ اگرحکومت میٹرو بس
منصوبے سے ہی نکال کر ، اور دیگر مددوں میں کٹوتی کرکے بھی پی ایس او کو دے
دئیے جاتے تو تیل کی سہلائی میں تعطل ہر گز پیدانہ ہوتا اور بدنامی حکومت
کے کھاتے میں آتی۔
اب بھی اس مسئلے یا بحران کا شارٹ ٹرم حل تلاش کرنے کی بجائے مستقل حل کی
جانب اقدامات اٹھانے اور فیصلے کرنے چاہئیں کیونکہ اڈہاک ازم سے کاروبار
مملکت نہیں چلا کرتے، اور حکومت کو سکریٹری وزارت پیٹرولیم عابد
سعید،ایڈیشنل سکریٹری پیٹرولیم نعیم ملک،ڈی جی چودہری محمد اعظم اور ایم ڈی
پی ایس ا و امجد ججوعہ کو معطل کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ اگر
حکومت سمجھتی ہے کہ اس نے معطلی کے فیصلے درست کیے ہیں تو پھر اسے اس فیصلے
کو وسعت دینے ہوگی اور وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ ساتھ اپنے
سمدھی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے بھی استعفے لینے ہوں گے تاکہ انصاف میں
توازن پیدا ہو سکے۔ ورنہ حکومت دنیا میں جگ ہنسائی موجب ٹھہرے گی۔اس کی
دلیل یہ ہے کہ وزارت کا سربراہ وزیر ہوتا ہے وزارت سے وابستہ بیوروکریٹوس
نے تو وزیر کی ہدایات پر عمل پیرا ہونا ہوتا ہے۔
سب اہم بات جس کی طرف حکومت کو سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضروت ہے وہ یہ کہ
حکومت کو برسراقتدار آئے تقریبا بیس ماہ ہو چلے ہیں لیکن وہ حکومت کو یہ
احساس دلوانے میں کامیاب نہیں ہو پائے کہ واقعی ملک میں حکومت تبدیل ہو چکی
ہے۔ کیونکہ ابھی تک حکومت کوئی ایسا برا کارنامہ نہیں دکھا سکی جس سے عوام
یہ سمجھیں کہ ملک میں چہرے نہیں نظام تبدیل ہوا ہے۔ جب تک نظام یا طرز
حکومت تبدیل ہونے کا عوام میں احساس اجاگر نہیں ہوتا عوام میں بے یقینی کی
فضا پیدا ہوتی رہے گی۔ عوام کا اعتماد بحال رکھنے کے لیے وزیر اعظم اور
انکی حکومت کو ’’بولڈ سٹیپ‘‘ ؛ینا ہوں اور کام کرنے کی صلاحیتوں سے عاری
وزرا ء کو ان کے مناصب سے الگ کرنا ہوگا بصورت دیگر ایم ڈی اور سکریٹری سطح
کے سرکاری ملازمین کی قربانیاں کچھ کام نہ آئیں گی۔ |