کراچی پریس کلب میں کراچی
یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام 21 ویں ترمیم ، فوجی عدالتیں ،انسانی حقوق
اور میڈیا کے موضوع پر سیمینار منعقدہ ۔
رضاربانی نے پارلیمنٹ میں تو جمہوریت کو زندہ دفن ہوتے دیکھ کر آنسوؤں
بہائے۔ووٹ پارٹی کی امانت تھا جو آپ نے جمہوریت کو زندہ دفن کرنے کے لیے
فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے دے دیا۔ ا ستعفی دینا تو آپ کے اختیار میں ہے۔
ادریس بختیار
سپریم کورٹ بار ایو سی ایشن کے سابق صدر علی احمد کردنے کہا ہے کہ جمہوری
حکومت میں فوجی عدالتوں کا قیام خوبصورت جمہوری مارشلء ہے۔ 21 ویں آئینی
ترمیم منظور کرکے پارلیمنٹ نے اپنے اختیار ات اور طاقت کسی اور کے ہاتھ میں
دے دی ہے ، عدالتیں انصاف فراہم کرنے جبکہ فوجی عدالتیں سزائیں دینے کے تصو
ر کے تحت قائم کی جاتی ہیں ۔ فوجی عدالتوں کا قیام انصاف کے بنیادی اصول کے
منافی ہیں ۔ ان خیالات کے اظہار انہوں نے کو کراچی پریس کلب میں کراچی
یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام 21ویں ترمیم ، فوجی عدالتیں ،انسانی حقوق
اور میڈیا کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر
پاکستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر ادریس بختیار، ہیومین رائٹس کمیشن کی
چیئرپرسن زہرہ یوسف ، پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان ،سیکٹرئری جنرل کراچی
پریس کلب اے ایچ خان زادہ سمیت دیگر نے بھی خطاب کیا ۔ علی احمد کرد نے
اپنے خطاب میں کہا کچھ جہگیں بٹری اہمیت کی حا مل ہوتیں ہے ایک بار ایسوسی
ایشن دوسری پریس کلب ہے دونوں ہی جہگیں اسی ہیں ۔جو حکومت کے لیے لمحہ
فکریہ ہے کہ جہاں وقت مقررہ پر باقاعدگی سے نظم ونسق اوردھاندلی سے پاک
الیکشن ہوتے ہیں۔ یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ کہ میں کراچی پریس کلب میں
آپ سے خطاب کر رہا ہوں۔ انہوں نے کہاکہ کوئی وکیل و صحافی نا انصافی اور
ظلم کا ساتھی نہیں بن سکتا۔ پارلیمنٹ نے 21ویں آئینی ترمیم کی منظوری دے کر
جو کارنامہ سرانجام دیا ہے میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔اس پاداش میں 28جنوری
کو پاکستان کے تمام وکلاء بار کے صدور ،سیکریٹرز کا ملکی سطح پر کنونیشن
منعقد کیا جا رہا ہے۔ آج جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں انہوں نے سب سے
پہلے ا نصاف کے تقاضوں کو پورا کر تے ہوئے انصاف فراہم کیا ہے۔ لوگ عوا ی
نمائندوں کو اپنے خوابوں کی تعبیر کے لئے پارلیمان میں بھیجتے ہیں ۔مگر جس
کام کے لئے انہیں بھیجا گیا تھا افسوس کہ انہوں نے کوئی اور کام کر دیا ۔
انہوں نے حضرت علی ؓ آپ کے قول کو بیان کرتے ہوے کہا کہ ،ریاستیں وملک کفر
کی بنیاد پر قائم رہے سکتی ہیں۔ظلم اور زیادتی کی بنیاد پر قائم نہیں رہے
سکتیں۔ مہذب معاشرے انصاف کے بغیر ترقی نہیں کرسکتے ، تہذیب یافتہ معاشرے
کی جانب بڑھنے کا حل فوجی عدالتیں نہیں کیونکہ فوجی عدالتیں انصاف کے
تقاضوں کے تحت نہیں بلکہ تاثر یہ ہے کہ سزاوں کے لئے بنائی جاتی ہیں ۔
پاکستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر ادریس بختیار نے کہا کہ پارلیمنٹ نے فوجی
عدالتوں کے قیام کے لئے آئینی ترمیم کی منظوری دے کر عوام کے اعتماد
کودھچکا پہنچایا ہے۔ عوام اپنا ووٹ اس لیے دیتی ہے کہ عوامی نمائندے
پارلیمان میں جاکر عوام کی نمائندگی اور آیئن کا تحفط کرئے گئے۔لیکن انہوں
نے اپنے ہی پاوں پر کلہاڑی ماری ہے اس اقدام پر پارلیمنٹ ہمیشہ شرمندہ رہے
گی۔ ر ضا ربانی نے بھی اس سمینار میں آنا تھا وہ آئے نہں لگتا ہے انہوں نے
میرا آرٹیکل پڑھ لیا ہوگا۔ میں نے لکھا اور اب آپکے سامنے بیان کر رہا
ہوں۔رضاربانی نے پارلیمنٹ میں تو جمہوریت کو زندہ دفن ہوتے دیکھ کر آنسوؤں
بہائے۔ووٹ پارٹی کی امانت تھا جو آپ نے جمہوریت کو زندہ دفن کرنے کے لیے
فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے دے دیا۔ ا ستعفی دینا تو آپ کے اختیار میں ہے۔
وہ آپ نے نہیں دیا؟ ا ب تک آٹھ ہزار افراد کو موت کی سزائیں دی جا چکی
ہیں۔ان کے فیصلے سول عدالتوں نے ہی کیے ہیں۔1999 کی فوجی عدالیوں کا تذکرہ
کرتے ہوئے انہوں نے جسٹس مری کی کتاب کا ایک فوجی عدالتوں کا کارنامہ بتاتے
ہوئے کہا کہ ایک قتل کو مقد مہ عدالت میں زیرسماعت تھا جس میں مجرم کو
پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ بعد میں مقتول عدالت میں پیش ہوا جناب میں تو
زندہ ہوں۔ دوسرا واقعہ انہوں نے اپنا بیان کیا۔ کراچی میں تکبیر مجلے کے
بانی صلاح الدین کا قتل ہو ا اس میں تین صحا فیوں کو ا ستغاثہ گواہ بنالیا۔
اے۔ایچ خانزادہ،زرارخان،ادریس بختیار، ہمیں پتا بھی نہیں تھا کے ہم اس مقد
مے میں گواہ ہیں ہمارے دستخظ بھی جعلی تھے۔ یہ بھی ایک بنیادی وجہ ہے جس
پرصحافیوں کو فوجی عدالتوں کے قیام پر تشویش ہے۔ فوجی عدالتوں میں شھادت
اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے کیوں کے فوجی عدالتوں میں کوئی تفصیلی
فیصلہ نہیں سنایا جاتا بس اتنا بتایا جاتا ہے کہ جرم اور سزا کیا ہے جمہوری
حکومت میں فوجی عدالتیں انتہائی قابل مذمت ہیں جتنی توانائی فوجی عدالتوں
کے قیام پر ضائع کی گئی اگر سسٹم کو درست کرنے کے لئے کرتے تو آج صورتحال
بہتر ہوئی ۔ جس طرف ہم بڑھ رہے ہیں یہ انتہائی قابل افسوس ہے ۔ اگر فوجی
عدالتیں 2سال میں انصاف نہ دے سکیں اور دہشت گردی ختم نہ ہوئی تو پھر ان کے
لئے بھی سزا مقرر کی جائے ۔
ہیومین رائٹس کمیشن کی چیئرپرسن زہرہ یوسف نے کہا کہ سپریم کورٹ فوجی
عدالتوں کو 99میں غیر آئینی قرار دے چکی ہیں 21ویں آئینی ترمیم انسانی حقوق
کے رائٹس فار فری ٹرائل کی خلاف ورزی ہے فوجی عدالتوں کی وجہ سے ہماری
سیاسی قیادت سے ہمیں بہت ناامیدی ہوئی ہے 21ویں ترمیم پارلیمنٹ کی سنگین
غلطی ہے ۔ اگر فوجی عدالتیں قائم ہوئیں تو ہیومین رائٹس کمیشن مانیٹر کرے
گی ۔ حکومت کو فوی عدالتوں سے ٹرائل سپیڈی ہو گا مگر مجھے خطرہ ہے کہ ان
کورٹس کے ذریعے فوجی اور سویلین میں ایک بڑی رکاوٹ ڈالنے کی بنیاد رکھی جار
رہی ہے جس کے اثرات بہت دور تک ہو ں گے ۔
ایڈیٹر نئی بات مقصود یوسفی۔منتخب حکومت میں فوجی عدالتوں کا قیام جمہوریت
کی ناکامی ہے۔21ترمیم کے بعد بھی اگر امن قائم ناہو سکا تو جوابدے کون
ہوگا۔ہماری سیاسی قیادت نے یہ سوچ ہی نہی کے پولیس کے تحقیقات کے طریقہ کار
کو کیسے بہتر بنایاجائے۔ گواہوں کو تحفظ فراہم کیا جائے کیو ں کے مقد مات
کا فیصلہ شھادتوں کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ گواہ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ آزاد
عدلیہ کیو ں ناکام ہورہی ہے۔دوسری جانب فوجی عدالتوں کے قیام کا اعلان
کردیا گیا۔وزیر اعظم عد م توازن کا شکار ہیں۔انہوں نے کہا کہ انتہا پسندی
،مذہبی ، لسانی، طبقاتی، انفرادی ہو ۔انتہاپسندی ہی ہوتی ہے۔اور دہشت گرد
دہشت گرد ہی ہوتا ہے۔ |