آج اُمتِ مسلمہ ایک اہم ستون سے محروم ہوگئی،شاہ عبداﷲ انتقال کرگئے . !!

اُمتِ مسلمہ اور پاکستان کے عوام سعودی عرب کے نئے بادشاہ سلمان بن العزیزسے بہت سی اچھی اُمیدیں رکھتے ہیں...

بیشک ...!!موت کا ذائقہ ہر نفس کو چکھناہے‘‘ازل ہی سے یہ قانونِ قدرت ہے کہ ہر نفس کو ایک محد ود وقت تک دنیامیں رہناہے،اور اپنا وقت گزارکرواپس اُسی جانب لوٹ جاناہے، جدھر سے یہ آیاتھا،اَب اِس بات سے یقین ہوجاناچاہئے کہ اِس دنیا پر ایک ایسی ہستی یعنی کہ ربِ کائنات اﷲ رب العزت کی حکمرانی ہے جو ازل سے ہے اور ابدتک رہے گا، جوقادرِ مطلق ہے اِس کے نظام میں یوں ہی اچھے اور بُرے اِنسان ایک ٹائم کے لئے آتے ر ہیں گے اور اپناوقت گزارکر حکمِ ربی سے واپس اُسی کے پاس لوٹ جائیں گے جس نے اِنہیں دنیامیں بھیجاتھا،اوریہ سلسلہ تاقیامت چلتارہے گا لوگ آتے رہیں گے اور جاتے رہیں گے جب پرانے جائیں گے تو اِن کی جگہہ نئے لوگ آئیں گے اور وہ بھی دنیامیں اﷲ کے دیئے ہوئے فرائض اور اپنے حصے کی سونپی ہوئی ذمہ داریاں نبھاکر واپس اپنے رب کی جانب چلے جائیں گے۔

جیساکہ جمعہ اور جمعرات کی درمیانی شب خدائے بزرگ برتر کی جانب سے عطاکردہ اپنی زندگی کے91سال انتہائی تزک و احتشام اور اُمتِ مسلمہ کو ایک لڑی میں پروکررکھنے اور اِسے(بالخصوص اسلامی جمہوریہ پاکستان جیسے اپنے بردارملک پہ ہمیشہ )اپنے دستِ شفقت کا سایہ مہیاکرنے والے خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداﷲ بن عبدالعزیز السعودجو مختصر عرصے پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلارہے بالآخراِن کا یہ عارضہ اِن کے انتقال کا سبب بنااور آپ 23جنوری 2015بمطابق2ربیع الثانی1436ھ کو دارالحکومت ریاض میں انتقال کرگئے۔اِناﷲ وَاِنااِلیہ ِ راجِعُون۔

شاہ عبداﷲ1924میں ریاض میں پیداہوئے، ابتدائی تعلیم شاہی محل میں ہی حاصل کی کچھ سال صحرائی قبائل کے ساتھ رہے جنہوں نے عرب کی مخصوص اقدار اور روایات سے اِنہیں روشناس کرایا، 1962میں شاہ فیصل نے اِنہیں نیشنل گارڈ کی کمانڈ سوپنی،1975میں نائب وزیراعظم دوم مقرر کئے گئے ،1982ء میں جب اِن کے سوتیلے بھائی شاہ فہدتخت نشین ہوئے تو شاہ عبداﷲ کو ولی عہدنامزدکیا،شاہ فہدکی وفات کے بعدیکم اگست 2005کو شاہ عبداﷲ تخت نشین ہوئے، وہ سعودی عرب کے چھٹے بادشاہ، زورا کی کونسل کے سربراہ اور نیشنل گارڈز کے کمانڈربھی تھے،شاہ عبداﷲ کو مذہب ، تاریخ اور عرب ثقافت کے موضوعات سے خاص دلچپسی تھی، اُنہوں نے اپنے دورمیں مملکت کی ترقی پر خصوصی توجہ دی اور تعلیم، صحت ،انفرااسٹرکچر اور معیشت کے شعبوں میں کئی بڑے منصوبے شروع کئے،شاہ عبداﷲ کے نمایاں کارناموں میں مسجدالحرام اور مسجدنبویﷺ کی توسیع کے منصوبے خاصی اہمیت کے حامل ہیں اِن کے علاوہ شاہ عبداﷲ سعودی عرب کے لئے نمایاں کارنامے اور منصوبے ہیں اُن میں4اقتصادی شہروں کے قیام کا منصوبہ ،شاہ عبداﷲ یونی ورسٹی، پرنسس نورا یونی ورسٹی کا قیام اور کئی بڑے فلاحی منصوبے شامل ہیں، اُنہوں نے سعود ی عدالتی نظام کی تاریخی تشکیل نو کی بھی منظوری دی، اِس سے انکار نہیں کہ شاہ عبداﷲ نے عالمی سطح پرعالم اسلام کے وقار کو اجاگرکرنے کے لئے جو کردار اداکیاہے اِسے اُمتِ مسلمہ کا عظیم اثاثہ قراردیاجاسکتاہے آپ میں ایک فطری قائدانہ صلاحیت تھی،آپ ایک مدبراور سچے و کھرے اِنسان تھے،آپ نے ہمیشہ عالمی امن و استحکام، عرب اور اسلامی دنیاکے دفاع کے لئے بین الاقوامی سفارت کاری کا ایک انمٹ کرداراداکیاہے جِسے اسلامی دنیاصدیوں یار کھے گی۔

خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداﷲ بن عبدالعزیز السعود کے انتقال کی یہ خبراسلامی جمہوریہ پاکستان وعالم اسلام سمیت ساری دنیا میں انتہائی دُکھ اور افسوس کے ساتھ سُنی گئی،جہاں شاہ عبداﷲ کے انتقال پر سعودی عرب میں 3،مصر میں7، اردن میں40تو وہیں سعودی عرب کے سب سے زیادہ چہیتے اور برادر ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی سوگ کا اعلان کیاگیا،شاہ عبداﷲ کی نمازِ جنازہ جمعہ کے روز بعدنمازِ عصر اداکی گئی جن کی نمازِ جنازہ میں شاہی خاندان کے افراد کے علاوہ خصوصی طورپرپاکستان سے وزیراعظم نوازشریف اور اِن بھائی شہباز شریف اور اسلامی ودیگر ملکوں کے سربراہان اور نمائندوں نے بھی شرکت کی جنہیں السعود قبرستان میں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ سپردخاک کی گیا اِس موقعے پر پاکستان اورامریکاسمیت بہت سے ممالک کے صدوراور نمائندوں نے شاہ عبداﷲ بن عبدالعزیز السعودکے انتقال پر اظہارافسوس کے پیغامات میں اِن کے انتقال سے پیداہونے والے خلاء کو عظیم نقصان قراردیاہے ۔

آج اِس میں کوئی شک نہیں کہ خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداﷲ بن عبدالعزیز السعودکے انتقال سے اُمتِ مسلمہ کو عظیم نقصان سے دوچارہوناپڑاہے اور آج یقینایہ ایک اپنے ایک اہم ترین ستون سے محروم ہوگئی ہے تووہیں پاکستان بھی اپنے ایک انتہائی مخلص اور بھائی کی طرح محبت کرنے والے ایک عظیم دوست اور بھائی سے بھی محروم ہوگیاہے،آپ کو پاکستان کے سیاسی و اقتصادی ماحول سے بھی خاص دلچسپی تھی یہی وجہ تھی کہ آپ پاکستان کے سیاسی و اقتصادی صورت حال کی پل پل بدلتی کیفیات سے بھی خوب واقف تھے مرحوم شاہ عبداﷲ بن عبدالعزیز اپنے برادر ملک پاکستان کے لئے روایات سے ہٹ کر بڑاکام کرنے کا ارادہ رکھتے تھے،مگر اِن کی زندگی نے ساتھ نہ دیااور وہ اپنا یہ خواب دل میں لئے ہی اِس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے اور پاکستان سمیت دیگر اسلامی ملکوں کو روتاچھوڑگئے ۔

اگرچہ آج اپنے سوتیلے بھائی شاہ عبداﷲ بن عبدالعزیز کے انتقال کے بعدسعودی عرب کاتختِ بادشاہت سنبھالنے والے نئے شاہ سلمان بن عبدالعزیز السعودکی پیدائش 31دسمبر1935میں ہوئی ہے،سعودی عرب کے اَب نئے سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز السعودسات سدیری بردران میں شاہ فہد مرحوم کے بعد دسرے بااثرسدیری بن کر اُبھرے ہیں سدیری بردران میں شاہ فہدمرحوم (2005-1920)، سابق وزیردفاع شہزادہ سلمان مرحوم، سابق نائن وزیردافاع شہزادہ عبدالرحمن (پیدائش 1931)، سابق وزیرداخلہ شہزاد نائف مرحوم (2012-1934)، سابق نائب وزیردفاع شہزادہ ترکی (پیدائش 1934) اور موجودہ شاہ اور سابق وزیردفاع شاہ سلمان (پیدائش 1935) اور سابق وزیرداخلہ شہزادہ احمد(پیدائش 1942) شامل ہیں اِن سدیری برادران کی چابہنیں شہزادی لولواہ(2008-1928)، شہزادی لطیفہ، شہزادی جوہرہ اور شہزادی جواہر ہیں ،اِس طرح شاہ عبدالعزیز کی حصہ بنت احمدالسدیری سے 11اولادیں ہوئیں، حصہ کے والداحمدبن محمد السدیری (1936-1869) اپنے سدیری قبیلے کے سردار تھے اور سعودی عرب فتح کرنے میں شاہ عبدالعزیز کے اولین ساتھیوں میں سے تھے جنہیں وشم ، سدیر، قسیم اور العلج صوبوں کا گورنر مقررکیاگیا،شاہ عبدالعزیزکے برادران نسبتی ترکی، عبدالعزیز، خالد، محمد، عبدالرحمن اور مسیدبھی گورنرزرہے، جبکہ یہاں ایک سب سے اہم اور دلچسپ امریہ ہے کہ شاہ سلمان اپنے بقیدحیات 6بھائیوں مشعل(1926)، عبدالرحمن 1931))مطیب(1931)،طلال(1931)،نواف(1933)اور ترکی(1934)میں سب سے چھوٹے ہیں،انہو ں نے 5بھائیوں شاہ سعود(1969-1902)،شاہ فیصل(1975-1906)،شاہ خالد(1982-1913)، شاہ فہد(2005-1920) اور شاہ عبداﷲ(2015-1924)کو بادشاہ دیکھاہے، شاہ عبدالعزیز سے متعلق خیال کیاجاتاہے کہ یہ 37بیٹوں کے باپ تھے جبکہ دوسرے ذرائع اِن کے بیٹوں کی تعداد43بتاتے ہیں، سعودی عرب کے موجود شاہ جن کا نام بادشاہ سلمان ہے اِن کے بارے میں ہے کہ یہ بانی سلطنت شاہ عبدالعزیزکے25ویں نمبر کے ہونہار بیٹے ہیں،یہ ایک لمبے عرصے تک ریاض کے گورنر رہے یوں اِنہوں نے 57برس ریاض کی تعمیر وترقی میں اہم کرداراداکیاہے۔

اگرچہ یہاں بعض یورپی ذرائع ابلاغ کا (اپنے تئیں )یہ تجزیہ ضرورہے کہ جہاں شاہ عبدالعزیزکے بیٹوں نے کاروبارمیں دلچسپی لی اور اِس حوالے سے سعودی عرب سمیت دنیابھر میں اپنی ایک نمایاں ساکھ قائم کی تو وہیں سدیری براردان کی دلچسپی مُلکی اور عالمی سیاست سے بھی وابستہ رہی جب شاہد عبدالعزیز کا 1953میں انتقال ہواتو ان کے سب سے بڑے بیٹے شاہ سعودنے جگہہ لی تاہم شاہ عبدالعزیز نے اپنے دوسرے بڑے بیٹے کو ولی عہدمقررکردیاتھا اِس کے بعدسے آل سعود میں اقتدار بڑے سے اِس کے بعدکے نمبرکے بھائی کو منتقل ہوتارہااور ابھی تک یہ بھائیوں میں ہی منتقل ہوتاچلاآرہاہے،ابھی شاہ عبدالعزیزکے پوتوں کی باری نہیں آئی ہے،وسیع تر آل سعودمیں شہزادوں کی تعدادچھ ہزاربتائی جاتی ہے تاہم یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ جو شہزادے عرب ماؤں سے نہیں ہیں اِنہیں زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہے بتایاجاتاہے کہ ابن سعود کے 5بیٹے امریکی ماؤں سے ہیں ( سعودی عرب کا شاہی خاندان اِس کی اصلاح کرے کہ آیا کہ ایساہی ہے جیساکہ مغربی ذرائع ابلاغ چیخ رہاہے یا حقائق وہ نہیں ہیں جو یہ کہہ رہاہے)آل سعودکا خفیہ حلقہ بادشاہ اور ولی عہد کا چناؤ کرتاہیاور ایک موقع پرتو اِس نے 1964میں شاہ سعودکو معزول بھی کیا،جبکہ 1992میں شاہ فہد نے خودہی اپناجانشین اور ولی عہدمقررکرنے کا اعلان کیا۔

اَب مستقبل کے ولی عہدکی منظوری شاہی کمیشن دیتاہے جو ابن سعود کے بیٹوں پر مشتمل ہے اختلاف رائے کی صورت میں بادشاہ وقت تین نام تجویز کرتے ہیں جن میں سے استصواب کے ذریعے ایک کا انتخاب کیاجاتاہے۔

جبکہ یہاں یہ امر اُمت مسلمہ اور عالمی برادری کے لئے خوش آئند اور حوصلہ افزاہے کہ آج سعودی عرب کے نئے بادشاہ شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز السعود نے سلطنت کا عہدہ سنبھالنے کے بعداپنے پہلے خطاب میں صاف اور واضح طور پر کہہ دیاہے کہ سعودی عرب کی سمت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ، ملک موجودہ سمت میں ہی آگے بڑھتارہے گا،تمام مسلمانوں کو متحدہوکررہناچاہئے،‘‘اُمیدہے کہ سعودی عرب کے نئے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیزاپنی اعلی صلاحیتوں کو بروئے کارلاتے ہوئے اپنے پیش رومرحوم شاہ عبداﷲ کی طرح نہ صرف سعودی عرب بلکہ اُمتِ مسلمہ کے لئے بھی اپنی خدمات انجام دیں گے اور خصوص بالخصوص اپنے برادر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بھی ہر مشکل گھڑی میں مدد اور معاونت فراہم کریں گے جیسے اِن سے پہلے والی شخصیات کسی بھی مشکل لمحے پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہوتی تھیں اور پاکستان پر اپنا دستِ شفقت رکھاکرتی تھیں اور یہ بھی اُمیدہے کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیزاُمتِ مسلمہ کو درپیش مسائل کے حل کے لئے مفاہمت اور مصالحت سے کام لینے کے بجائے اُمتِ مسلمہ کی بقاو سالمیت کے خاطر دوٹوک فیصلہ کریں گے ۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 900906 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.