پٹرول کا بحران

جب ہمارے پہلے خلیفہ حضرت ابو بکررضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے خلافت کی ذمہ داری سنبھالی توپہلے ہی دن آپ کپڑا فروخت کرنے کے لیے اپنے گھر سے نکل کھڑے ہوئے ۔حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ا ور حضرت عبد الرحمن بن عوف کو جب یہ پتا چلا تو آپ دونوں نے ان کو یہ مشورہ دے کر جانے سے روک دیا اور کہاکہ اب آپ کے اوپر مسلمانوں کی خلافت کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے اس لیے آپ کو اب اپنا کاروبار نہیں کرنا چاہیے ،ہاں آپ اپنی ضروریات کے لیے بیت المال سے سے اتنا لے سکتے ہیں کہ جس سے گھر کا خرچ چل جائے اس کے بعد ایک شوریٰ ہوئی اور ان کا ماہانہ مشاہیرہ طے ہوا ۔حضرت ابو بکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اﷲ تعا لیٰ عنہ اور عبدالرحمن کی بات مان لی اور بیت المال سے ان کاجو ماہانہ مشاہیرہ طے ہوا اس پر انھوں نے اپنا کام شروع کر دیا ۔

مسئلہ یہ ہے کہ کاروبار ایک ایساذریعہ معاش ہے جس میں ایک فرد چوبیس گھنٹے ذہنی طور پر مصروف رہتا ہے اور امور مملکت کی ذمہ داری بھی ایک ایسی ذمہ داری ہے جس میں ایک فرد چوبیس گھنٹے تک ذہنی و جسمانی طور پر مصروف رہتا ہے ۔دونوں جید صحابہ کرام نے جو عشرہ مبشرہ کے رکن بھی ہیں یہی سوچ کر ایک ایسا تاریخی فیصلہ کیا کہ اگر خلیفہ وقت کو کاروبار کی اجازت دی گئی تو شاید امور مملکت کی زمہ داری کی ادائیگی کی طرف توجہ پوری طرح مبذول نہ ہو سکے،یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو قیامت تک امت مسلمہ کے لیے ایک مشعل راہ ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ جب حضرت ابو بکر خلافت کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہورہے تھے تو آپ نے بیت المال سے جتنی رقم مشاہیرے کی شکل میں وصول کی تھی وہ سب میں لوٹا دی ایک اونٹنی جو آپ کو بیت المال سے ملی ہوئی تھی اور ایک بیت المال کی چادرتھی وہ بھی واپس کردی یہ سب دیکھ کر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رونے لگے اور کہا کہ آپ نے بعد میں آنے والوں کو آزمائش میں ڈال دیا ۔

درج بالا مثالیں صرف پڑھنے اور سر دھننے کے لیے نہیں ہیں بلکہ آج بھی لوگوں نے ایثار و قربانی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ویسے تو ہمارے ملک کی سیاست کا خمیر ہی کچھ اس طرح کا ہے یہاں جو لوگ انتخاب میں پیسہ خرچ کر کے کامیاب ہوتے ہیں تو پھر اس کا دس گنا بنانے کی فکر کرتے ہیں ۔لیکن ایسے لوگ بھی ہیں جنھوں نے عوامی خدمت کی خاطر اپنے کاروبار تک تباہ کر دیے مسلم لیگ میں بھی ایک زمانے میں یعنی قیام پاکستان کچھ عرصے تک ایسے لوگ رہے ہیں لیکن اب یہ تعداد بہت کم رہ گئی ہے ۔جماعت اسلامی سمیت دینی جماعتوں میں ایسی تعداد بہت ذیادہ ہے جماعت نے ایسی کئی مثالیں قائم کی ہیں ۔خود عبدالستار افغانی صاحب لیاری کے جس چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے تھے میئر بننے کے بعد بھی اسی میں رہے اور وہیں سے ان کا جنازہ اٹھایا گیا ۔

یہ جو ہمارے ملک آئے دن مختلف اشیاء کے بحران آتے رہتے ہیں اس کی ایک بڑی وجہ یہی ہے یہ سارے کاروباری لوگ امور مملکت چلارہے ہیں اب ان کی توجہ اپنے کاروبار کی طرف ہوگی یا اپنی وزارتوں کی طرف ۔امور مملکت کی ذمہ داریاں تو چوبیس گھنٹے کی توجہ چاہتا ہے ،اور اس توجہ کے ساتھ دلچسپی کا ہونا بھی ضروری ہے ۔ہمیں افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہا ہے کہ ہمارے ملک میں 1988کے بعد سے اب تک 27برسوں میں پرویز مشرف کے نو سال نکال دیے جائیں تو 18برسوں کی سول اور جمہوری حکومت باری باری دو پارٹیوں کے ہاتھ میں رہی ہے ۔ان دونوں سیاسی جماعتوں نے عوام کی خدمت کا نام لے کر اپنی اور اپنے ہمرکاب ساتھیوں کے پیٹ کی خدمت کی ہے ۔فرق صرف یہ رہا ہے کہ ایک جماعت نے کھل کر کرپشن میں اپنے ہاتھ دھوئے ہر جائز اور ناجائز طریقے استعمال کر کے بیرون ملک اپنے بینک بیلنس اور جائدادوں میں اضافہ کیا ۔ایک دوسرا گروپ جو آج کل برسراقتدار ہے کھل کر تو نہیں بلکہ اپنے اقتدار کے اثر ورسوخ کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دینے کی کوششیں کرتا ہے ۔ہم نواز شریف صاحب یا ان کی حکومت پر کرپشن کا الزام تو نہیں لگارہے ،لیکن یہ بات ضرور توجہ طلب ہے کہ ان کو وزراء میں اکثر ارب پتی ہیں ۔اس لیے ان کی دلچسپیاں اپنے اربوں کے کاروبار کی طرف ہوگی یا یہ دیکھنے اور سوچنے کی زحمت گوارہ کریں گے نلکی ضروریات کے لیے گندم کا کتنے دن کا اسٹاک ہے اس کی حالت کیا ہے یہ خراب تو نہیں ہو گیا آگے چل کر اس کی قلت کا سامنا تو نہ کرنا پڑے ۔

وزیر پٹرولیم کہتے ہیں کہ میرا قصور ہو تو بتایا جائے میں استعفا دینے کو تیار ہوں۔بڑی مضحکہ خیز بات ہے کہ آپ کی ناک کے نیچے پٹرول کا بحران ہوا ہر پٹرول پمپ پر عوام کا رش لگ گیا ،لوگوں میں لڑائی جھگڑے شروع ہو گئے سر پھٹول ہوگئی اور انھیں اس کا پتا بھی نہیں چلا ایسے بے خبر لوگوں کو تو کشی کارخانے کا مینیجر بھی نہیں بننا چاہیے ۔

خاقان عباسی صاحب یہ بتائیں کہ ہمارے پڑوسی ملک میں جب ریلوے کا حادثہ ہوتا ہے تو وزیر ریلوے استعفا دے دیتے ہیں وہ یہ نہیں کہتے کہ میرا قصور ہو تو بتاؤ وہ خاموشی سے مستعفی ہو کر گھر چلے جاتے ہیں ۔اگر کسی وزیر کا کاروبار ائیر سروس کاہو اور اس کا کوئی جہاز خراب ہو جائے اور وہ پرواز کے قابل نہ ہو تو اس سے عوام کو تو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اس لیے کے دیگر ائیر لائینز موجود ہیں جس سے سفر کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ وزیر صاحب جن کی یہ ائیر لائن ہے دین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک کے وہ جہاز درست ہو کر آپریشنل حالت میں نہ آجائے ۔

ہماری سیاسی جماعتوں کی مجبوری یہ ہے کہ وہ جب انتخابات میں امیدواروں کے لیے درخواستیں طلب کرتے ہیں تو اس کے ساتھ ایک معقول رقم بھی مانگتے ہیں جو ناقابل واپسی ہوتی ہے تو اب بتایے کہ صرف امیدوار بننے کے لیے جو لاکھوں روپئے پہلے دے گا وہ ایک طرح سے جوا کھیلتا ہے اگر اس کی درخواست منظور ہوجائے اس کے بعد انتخابی اخراجات بھی اسے خود ہی برداشت کرنا ہوتا ہے بلکہ پارٹی کے انتخابی فنڈ میں بھی کچھ دینا ہوتا ہے اس کے بعد جب وہ کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ وہ جوا جیت گیا ہے اب وہ اب تک کے تمام انوسٹمنٹ کا منافع حاصل کرنے کی کوشش کرے گا ۔ضروری نہیں ہے کہ وہ اس کے لیے کھلی براہ راست کرپشن میں ملوث ہو بلکہ وہ اپنے اثر و رسوخ کو اپنے کاروبار میں اضافے کے لیے استعمال کرے گا ۔ایسے قوانین بنوانے کی کوشش کریگا جس سے اس کے کاروبار کو فائدہ پہنچے ۔ویسے تو آج کے دور میں ایسا تو کم ہی دیکھنے میں آیا ہے کوئی کاروباری آدمی دیانتداری سے کاروبار کر کے ارب پتی بنا ہو ۔ملک ریاض سے سے کسی نے پوچھا کہ سرکاری اداروں میں آپ کے کام کیسے ہو جاتے ہیں اس نے خود یہ کہا کہ میں اپنی فائلوں کے نیچے " پہہہ"لگا دیتا ہوں اس کا مطلب تو سب سمجھتے ہیں ۔

موجودہ نوازشریف کابینہ میں اسحاق ڈار اور خاقان عباسی ارب پتی لوگوں میں سے ہیں اور پھر پٹرول کے بحران کے ذمہ دار براہ راست یہی لوگ ہیں لیکن انھوں نے کچھ بیورو کریٹس پر اس کا ملبہ ڈال کر انھیں معطل کردیا تاکہ عوام کے غیض وغضب کو ٹھنڈا کیا جاسکے۔حالانکہ وزیر اعظم نواز شریف صاحب نے خود براہ راست اس سلسلے میں متعلقہ افسران کا اجلاس بلایا لیکن وہ بھی اصل زمہ داروں کا تعین نہ کرسکے ۔اگر یہی صورتحال رہی تو آئندہ پھر اور چیزوں کا بھی بحران پیدا ہونے کا خطرہ رہے گا اور ہم اصل مجرمان تک نہیں پہنچ سکیں گے اس لیے کے ایسا لگتا ہے کہ ہمارے وزیر اعظم بھی مجبور نظر آتے ہیں ۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 41 Articles with 37598 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.