نماز کے بعدمیں مسجد میں اما م
صاحب کے ساتھ دینی مسائل پر بات کررہا تھا کہ اچانک ایک عمررسیدہ شخص ہمارے
قریب آکر بیٹھ گیا۔ قاری صاحب سے ہاتھ ملانے کے بعد اس نے اپنی کہانی شروع
کردی ۔ کہانی چونکہ خاصی فکرانگیز تھی اس لیے میں بھی وہاں بیٹھ کر سننے
لگا۔اس شخص نے اپنا نام ضیا الدین بتایا۔ وہ اکثر مسجدمیں نماز پڑھنے
باقاعدگی سے آتا لیکن جب نماز سے فراغت پاکر نمازی ایک دوسرے سے مصافحہ
کرتے تو وہ خاموشی سے ایک کونے میں سر جھکائے بیٹھا رہتا پھر اٹھ کر چلا
جاتا ۔ہم یہی سمجھتے کہ شاید یہ شخص کوئی وظیفہ کررہاہے لیکن اس کے چہرے پر
تفکرات اور پریشانیوں کے آثار واضح دیکھے جاسکتے تھے ۔
آج اس نے خلاف توقع قاری صاحب کے پاس بیٹھ کر اپنی کہانی نہایت درد مندی سے
سنانی شروع کردی ۔ قاری صاحب بھی مکمل ہمہ تن گوش ہوکر اس کی بات سننے
لگے۔اس نے کہا جناب میں ایک ریٹائر آدمی ہوں میں نے میٹرک پاس کرنے کے بعد
ہی ملازمت شروع کردی ۔ملازمت بھی کیا تھی دوسرے لفظوں میں ایک فیکٹری میں
مزدوری کرنے لگا ۔جو تھوڑے بہت پیسے ملتے والدین کی ہتھیلی پر رکھ دیتا ۔والدین
نے فرماں برادری کا صلہ لڑکپن میں ہی میری شادی کی صورت میں دیا ۔ میں نے
ایک ان دیکھی لڑکی کے ساتھ شادی کرلی ۔وہ لڑکی بہت ملنسار اور محبت کرنے
والی تھی اس نے مجھے تنہائی کااحساس نہیں ہونے دیا میں جب بھی پریشانیوں
میں گھرا ہواگھر لوٹتا تو وہ مجھے حوصلے کا پہاڑ دکھائی دیتی ۔ میں آہستہ
آہستہ اس کے سانچے میں نہ صرف ڈھلنے لگا بلکہ یہ بھی سوچنے پر مجبورہوگیا
کہ والدین کے بعد شاید یہی میری سب سے بڑی ہمدرد ہے ۔ میری تنخواہ بہت کم
تھی ہم روکھی سوکھی کھا کر گزاراکرلیتے ۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ عید
کے دن بھی ہمیں نئے کپڑے اور اچھے کھانے نصیب نہ ہوتے لیکن ہم نے حالات سے
سمجھوتہ کرکے زندگی گزارنے کا فن سیکھ لیا ۔پھر وہ وقت بھی آیا جب ہم ایک
پلاٹ (1984) خرید کر علیحدہ گھر میں رہنے لگے ۔ وہ گھر نہیں بلکہ ایک خالی
پلاٹ تھا جس میں ایک جھونپڑی نماکمرہ تھا اس کمرے میں گارے کی چنائی ہوئی
تھی بارش کی وجہ سے مٹی تو بہہ نکلی جس کی وجہ سے دیواروں کے آر پار آسانی
سے دیکھا جاسکتا تھا ۔ 28 ہزار روپے میں پلاٹ خرید نے کے بعد ہم بہت مقروض
ہوچکے تھے گھر میں سودا سلف لانے کے لیے بھی پیسے نہیں ہواکرتے تھے ۔نہ گھر
میں پینے کے پانی کا نلکا تھا اور نہ ہی بجلی کا کنکشن ۔ ہم دونوں پیٹ
پرپتھر باندھ کر گھر کو آہستہ آہستہ تعمیر کرتے رہے ۔ اﷲ تعالٰی نے ہمیں
یکے بعد دیگر ے ایک بیٹی اور دو چاند سے بیٹے عطا کردیئے ۔ہم گھر کی تعمیر
اور سہولتوں کی خریداری کے ساتھ ساتھ اب بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھی توجہ
دینے لگے۔ بچوں کے تعلیمی اخراجات بے شک پورے کرنا بہت مشکل مرحلہ تھا لیکن
میں نے اپنی ضرورتوں کوکم کرکے پیسے بچوں کی تعلیم پر خرچ کرنا شروع کردیئے
میں انہیں دنیا میں کامیاب ترین انسان بنانا چاہتا تھااس مقصد کے لیے مجھے
تین تین نوکریاں بھی کرنی پڑیں ۔ صبح ساڑھے سات بجے گھر سے نکلتا اور رات
دس گیارہ بجے سارا دن کا تھکا ماندہ گھر لوٹتا ۔ میں نے ایف اے اور بی اے
کے امتحانات بھی عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعدہی پاس کیے ۔دس بارہ سال
کی محنت اور مشقت اور اﷲ تعالی کے فضل وکرم سے ہم نے اپنی ضرورت کی ہر چیز
بھی خرید لی اور مکان بھی تعمیر کرلیا ۔ پہلے ہمارے گھر میں ریڈیو بھی نہیں
تھا پھر بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی بھی آگیا ۔ پانی اور بجلی کا کنکشن بھی لگوا
لیا۔بڑا بیٹا پڑھائی میں کچھ تیز تھااس لیے وہ مرحلہ وار پڑھتا ہوا میٹرک
کاامتحان پاس کرگیا لیکن چھوٹا بیٹا پڑھائی میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتا تھا
وہ کتابوں کو ہاتھ لگانا گناہ تصور کرتا تھا جب سالانہ امتحان ہوتے وہ یا
تو فیل ہوجاتا یا بہت کم نمبروں سے پاس ہوتا ۔ ماں کی خواہش تھی کہ میں
سکول جاکر اس کے ہیڈ ماسٹر سے درخواست کروں کہ وہ میرے بیٹے کو پاس کردیا
جائے تاکہ اس کا سال نہ مارا جائے ۔اس لیے آٹھویں جماعت میں نے سکول کے
ہیڈماسٹر سے درخواست کرکے اسے نویں جماعت میں کروا دیا اس نے پڑھائی کی
جانب پھر توجہ نہیں کی ۔لاپرواہی کاسلسلہ جاری رہا وہ میٹرک کے امتحان میں
تین مرتبہ فیل ہوا ۔پڑھائی پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے جب میں اس کو ڈانٹتا
تو ماں ہمیشہ اس کی طرف داری کرنے لگتی ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ پڑھنے میں تو
تیز نہ ہوسکا لیکن اس کے دل میں ماں کے بارے میں محبت کے جذبات اور میرے
بارے میں نفرت کے جذبات پیداہوتے چلے گئے ۔اﷲ اﷲ کرکے اس نے میٹرک تو کرلیا
پھر ایف اے کے امتحان دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ ایف اے میں بھی چار پانچ
بار فیل ہوا۔ ہر تیسرے چوتھے مہینے اس کی ماں مجھ سے کمپارٹمنٹ کاداخلہ
بھجوانے کے لیے پیسے لے کردے دیتی اور وہ پیسے تو بورڈمیں امتحان کے لیے
جمع کروا آتا لیکن کتابوں کو ہاتھ پھر نہ لگاتا ۔ چنانچہ جب رزلٹ آتا تو وہ
پھر فیل ہوجاتا۔ پے درپے ناکامیوں پر جب اسے ڈانٹتا تو اس کی ماں ( یعنی
میری بیگم ) درمیان میں کود جاتی اور ہم دونوں میاں بیوی کی لڑائی شروع
ہوجاتی ۔ بیٹا آرام کے ساتھ ماں کے پیچھے چھپ کر ہماری لڑائی سے محظوظ ہونے
لگتا ۔ اسے اس بات کا ذرا بھی خیال نہیں تھاکہ میں اس کادشمن نہیں ہوں باپ
ہوں اور باپ کی حیثیت سے میں چاہتا ہوں کہ وہ اچھی طرح پڑھائی کرکے کسی
اچھے عہدے پر فائز ہوجائے لیکن میری یہ باتیں اس کی سمجھ میں نہ آتیں وہ
میری ہر بات کو غلط سمجھ کر ٹھکرا دیتا وہ ماں کی ہلہ شیر ی میں آکر خود کو
معصوم بنائے رکھتا لیکن جب پیسوں کی ضرورت ہوتی تو سب سے پہلے اس کی ماں
سفارش لے کر میرے سامنے آ کھڑی ہوتی اور مجھے ہر حال میں پیسے دینے پڑتے۔
وقت گزرتا رہا اور بڑا بیٹا بی کام کر نے کے بعد مزید پڑھنے کی خواہش ظاہر
کرنے لگا وہ ایم بی اے کرنا چاہتا تھا اس وقت ایم بی اے کرنے پر چار لاکھ
روپے خرچ ہوتے تھے اس نے ایک دن مجھے کہا کہ ابو مجھے ایم بی اے کرنے کے
لیے چار لاکھ روپے چاہیئں ۔ میں نے کہا بیٹا میری مالی پوزیشن تمہارے سامنے
ہے میں نے تین تین نوکریاں کرکے تمہاری پرورش کی ہے تمہیں رہنے کے لیے ایک
مکان بناکے دیا ہے جس میں تو رات کو سکون کے ساتھ سوتے ہو ٗ اچھے کپڑے
پہنتے ہو اچھا کھاتے ہو۔ یہ گھر نہیں اس کی ایک ایک اینٹ میں میرا خون
پسینہ شامل ہے ۔میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں آپ کو ایم بی اے کرنے
کے لیے چارلاکھ روپے دے سکوں ۔ میں جو کماتا ہوں اس سے بمشکل گھر کے
اخراجات ہی پورے ہوتے ہیں ۔بیٹے نے مایوسی کااظہارکرتے ہوئے کہا ابو آپ
میرے بہتر مستقبل کے لیے اپنا مکان فروخت نہیں کرسکتے ۔ میں پڑھ لکھ کر کسی
اچھے عہدے پر جب ملازم ہوجاؤں گا تو پھر نیاگھر بنا لیں گے ۔ میں نے جواب
دیا بیٹا یہ گھر میں کسی بھی صورت فروخت نہیں کروں گا کیونکہ یہ گھر میں نے
بہت مشکل کے ساتھ بنایا ہے ۔میں یہ بات مان لیتا ہوں کہ تم پڑھ لکھ کر کسی
اچھے محکمے میں اگر بڑے افسر بن گئے تو مکان نیا بھی خریدا جاسکتا ہے لیکن
اگر بڑا افسر بننے کے بعد تمہارا دماغ خراب ہوگیا تو میں اور تمہاری ماں
کہاں جائیں گے ۔ سوری بیٹا یہ کام میں نے نہیں کرسکتا آپ بی کام کرنے کے
بعد ملازمت کرلو اور اپنی ہی تنخواہ میں سے پیسے بچاکر ساتھ ساتھ پڑھتے بھی
رہو ۔
میر ی بات سن کے بڑے بیٹے کا موڈ ہی خراب ہوگیا ۔ باپ کی حیثیت سے مجھے وہ
جو احترام پہلے دیا کرتا تھا اس نے وہ احترام بھی ختم کردیا ۔ میں جہاں
بیٹھتا وہ وہاں سے اٹھ کر دوسرے کمر ے میں چلا جاتا وہ میرا سہارا بننے کی
بجائے میرا رقیب بنتا چلا گیا ۔ اس کی ماں ( یعنی میری بیگم ) ہمدردی کے
جذبات لے کر اس کے پاس پہنچ جاتی اور نہ جانے کیا کیا باتیں ماں بیٹے میں
ہوتیں ۔ میں اس سے لا علم ہوں ۔لیکن دونوں بیٹوں کے رویوں میں یکسر ناگوار
اور ناپسندیدہ تبدیلی دکھائی دینے لگی۔ چھوٹا اپنی نالائقی پر ڈانٹنے پر
مجھ سے ناراض تھا اور بڑا مکان فروخت کرکے پیسے نہ دینے کی وجہ سے مجھ سے
خفا ہوگیا لیکن دونوں بیٹے ماں کے لیے آنکھیں بچھانے میں پیش پیش تھے
۔رویوں میں تبدیلی بہت نمایاں اور واضح دکھائی دینے لگی ۔ میں گھر کو ٹوٹنے
سے بچانے کے لیے سب کچھ برداشت کرتا اور بھاڑے کا ٹٹو بن کر کمائی کرتا رہا
جو بھی تنخواہ ملتی وہ لاکربیگم کی ہتھیلی پر رکھتا رہا ۔ بیگم میری ہی
کمائی سے دونوں بیٹوں کی خواہشات کو پوری کرتی رہی ۔
بڑے بیٹے نے بی کام کے بعد ایک نجی ادارے میں ملازمت کرلی ۔پہلی تنخواہ کے
ساتھ ہی باپ کی حیثیت سے اس کا سلوک میرے ساتھ ناروا ہونے لگا ۔ میں حتی
الاالمقدور اس کے رویے سے صرف نظرکرتا رہا لیکن جب وہ میرے کسی حکم کو
ماننے سے انکار کرتا تو ماں (میری بیگم ) بیٹے کی نافرمانی دیکھ کر نہ صرف
خاموش ہوجاتی بلکہ کسی اور کمرے میں جاکر اپنی غیر جانبداری کا اظہارکرتی
۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ بیٹے کی نافرمانی دیکھ کر اسے کوئی تکلیف نہیں
ہوئی ۔ماں کی خاموشی کو ہمدردی تصور کرکے بیٹا بھی میری نظروں سے اوجھل
ہوجاتا ۔چھوٹا بیٹا بھی بمشکل ایف اے کرنے کے بعد ایک ادارے میں بہت کم
تنخواہ پر ملازم ہو گیا کیونکہ وہ ہے ہی اس قابل تھا ۔ بے شک اس نے ایف اے
کاامتحان کسی نہ کسی طرح پاس کر تولیا تھا لیکن نہ اسے اردو لکھنی آتی تھی
اور نہ ہی انگریزی ۔ حتی کہ وہ نوکری کی درخواست لکھنے سے بھی قاصر تھا ۔
اس ماں کی خواہش تھی کہ میں اپنے اثرو رسوخ سے اسے کسی بنک یا کسی اچھے
ادارے میں کسی اعلی پوسٹ پر ملازم کردوں۔ ماں کی خواہش اپنی جگہ لیکن یہ
حقیقت میں کیسے ممکن تھا۔اول تو میں اس پوزیشن میں ہی نہیں تھا او راگر اسے
کسی اچھے عہدے پر ملازم کروا بھی دیتا تو کتنے باصلاحیت اور تعلیم یافتہ
نوجوانوں کی حق تلفی ہوتی جو میرا ضمیر برداشت نہیں کرسکتا تھا۔
اس لمحے مجھے اپنی ماں یاد آتی جو قدم قدم پر ہمیں باپ سے ڈرایا کرتی تھی ۔
باپ ہمیں اگر کوئی کام کہہ کر ڈیوٹی چلا جاتا تو ماں اس کام کو انجام دینے
کے لیے ہم پر بار بار دباؤ ڈالتی کہ شام کو تمہارا باپ جب گھر آئے گا تو اس
کا کام ہوجانا چاہیئے وگرنہ وہ بہت ناراض ہوگا ۔ ماں کی بار بار نصیحت کی
وجہ سے ہم باپ سے بہت ڈرتے تھے ۔ جب وہ ڈیوٹی سے واپس آتے تو کوئی باپ کا
سر دباتا تو کوئی ٹانگوں کو چمٹ جاتا ۔ کوئی جوتے پالش کرکے ان کے سامنے
رکھتا تو کوئی ان کے آئندہ حکم کا منتظر ہوتا ۔ ماں نے ہمیں ایک بات
سمجھائی تھی کہ تمہارا باپ صرف اور صرف لیے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر
نوکری کرتا ہے اگر مہینے بعد گھر میں تنخواہ نہ آئے تو ہم سب بھوکے مار
جائیں گے اس لیے باپ کی ہر بات کو حتمی تصور کرکے ان کی تابعداری کرو۔ ویسے
بھی ہمارا باپ بہت سخت طبیعت کا مالک تھا ۔ہمیں جب اپنی سالانہ یا ششماہی
تعلیمی رپورٹ پر دستخط کروانے پڑتے تو کئی کئی دن ہم ریہرسل کرتے اور پہلے
سے زیادہ باپ کی فرماں برادری میں پیش پیش ہوتے تاکہ باپ کا دل ہمارے بارے
میں مزید نرم ہوجائے ۔لیکن پھر بھی کسی نہ کسی بات پر ڈانٹ پڑ جاتی تھی
کبھی کبھار تو پینٹی بھی لگ جاتی۔لیکن مجال ہے ہماری زبان سے ایک لفظ بھی
باپ کے خلاف نکلتا ہو اور نہ ہی ہماری ماں کو یہ جرات تھی کہ وہ درمیان میں
آکر ہمدردی جتاتی ۔ وہ بھی خاموش ہوکر دور بیٹھی ہماری درگت بنتی ہوئی دیکھ
رہی ہوتی ۔ یہی وجہ تھی کہ جب تک میرے والدین زندہ رہے ہم نہ صر ف ان کا دل
سے احترام کرتے رہے بلکہ ایک ایک لمحہ خدمت میں بھی گزارتے رہے ان کا ہر
حکم ہمارے لیے قانون کا درجہ رکھتا تھا ۔
وقت پر لگا کر اڑتا رہاپھر وہ وقت بھی آیا جب دونوں بیٹوں کی باری باری
شادیاں بھی ہوگئیں ۔تمام فیصلے بیگم نے بچوں سے مل کر خود کیے ۔ مجھے ان
فیصلوں کا بعد میں پتہ چلتا لیکن میں اس لیے خاموش رہا کہ چلو کام تو چل
رہا ہے نا ۔لیکن مجھے یہ احساس ہونے لگاتھاکہ بیگم اپنے بچوں کے ساتھ مل کر
میری اتھارٹی کو آہستہ آہستہ ختم کرتی جارہی ہے۔ بچے مجھے اپنے باپ کی
بجائے اپنا دشمن سمجھنے لگے تھے اور ماں کے ہر حکم کو بجا لانا اپنا اولین
فرض تصور کرنے لگے ۔ بچوں کے رویوں کو تبدیل ہوتا دیکھ کر بیگم نے کوئی
مزاحمت نہیں کی بلکہ اس کی خاموشی ہی نیم رضا مند بن کر بچوں کے ذہنوں میں
پختہ ہوتی چلی گئی کہ گھر میں اگر ان کا کوئی دشمن ہے تو وہ صرف اور صرف
باپ ہی ہے جو ہر بات پر انہیں ڈانٹتا بھی اور برا بھلا بھی کہتا ہے ۔
بچوں کے توہین آمیز یہ رویے مجھے سخت پریشان کرنے لگے اور بیگم کی خاموشی
بھی تکلیف دینے لگی ۔ وقت گزرتا رہا اورایک دن میں ملازمت سے ریٹائر ہوکر
گھر تک محدود ہوگیا ۔ اﷲ کاشکر ہے ابھی میری جیب میں پیسے تھے اس لیے میں
اپنے فیصلوں پر خود عمل کرتا رہا لیکن گھر کے تحفظ اور مالی پریشانیوں سے
بچانے کے لیے بیٹوں کی لاپرواہی مجھے مسلسل کوستی رہی۔ایک بار مجھے ہسپتال
میں داخل رہنا پڑا تو میں من پسند کھانے پینے کی چیزوں کو بھی ترس گیا میں
بیٹے کو اگر کوئی چیز لانے کو کہتا تووہ میری بات کو سنی ان سنی کرکے چلتا
بنتا بلکہ ناگواری کا اظہار بھی کرتا۔میں ایک لمحے کے لیے سوچ میں پڑگیا کہ
ابھی تو میرے پاس سب کچھ ہے اگر خدانخواستہ میری جیب خالی ہوگئی اور میں
چلنے پھرنے سے معذور ہوگیا تو کیا یہ بیٹوں کا رویہ میرے لیے تکلیف دہ نہیں
ہوجائے گا۔
وہ کچھ دیر سانس لینے کے بعد پھر بولا ۔ قاری صاحب اسلام میں خودکشی حرام
ہے لیکن میں اپنے گھر میں بیگانہ اور غیرضروری چیز بن گیا ہوں ۔ اب آپ
بتائیں میں کیا کروں ۔ میں تو اپنی بیگم اور بچوں کو دل و جان سے چاہتا ہوں
اور اب بھی اپنی جیب سے پیسے خرچ کرکے انہیں تحفظ فراہم کرتا ہوں لیکن وہ
میری زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کا کبھی بھرم نہیں رکھتے اور نہ ہی کبھی
انہیں توفیق ہوئی ہے کہ میری کوئی پسندیدہ چیز یا پھل لے کر گھر آئے ہوں
اور پیار سے کہیں ابا جی ہم یہ آپ کے لیے لائے ہیں ۔ میں فخر کے ساتھ ان کو
کوئی کام نہیں کہہ سکتا میں جب بھی انہیں اپنے ساتھ کہیں جانے کے لیے کہتا
ہوں ابھی بات پوری نہیں ہوتی کہ وہ انکار کرکے میرے تن بدن میں آگ لگا دیتے
ہیں ۔اس کے برعکس میری بیگم اگر انہیں یہ کہے کہ پیدل ہی دنیا کا چکر لگا
کر آؤ تو وہ اسی وقت حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پیدل ہی دنیا کا چکر لگانے کے
لیے نکل پڑیں گے ۔بیٹوں کا یہ رویہ مجھ بہت تکلیف دیتا ہے اور بیگم بیٹوں
کو سمجھانے کی بجائے جب خاموش ہوجاتی ہے تو مجھے اس کی خاموشی سانپ بن کر
ڈستی ہے ۔اس کے باوجود کہ میری بہوئیں بہت اچھی ہیں وہ میرا ہر طرح کا خیال
رکھتی ہیں لیکن بیٹوں کی نافرمانی اور توہین آمیز رویے اور بار بار انکار
دن بدن مجھے موت کے قریب لے جارہے ہیں ۔ قاری صاحب اب آپ بتائیں میں کیا
کروں ۔ میں اب جینا نہیں چاہتا ۔
ضیا الدین نامی بزرگ اپنی بات مکمل کرکے چلا گیا میں اور قاری صاحب دونوں
ایک دوسرے کاچہرہ دیکھنے لگے کہ کیا واقعی دنیا میں ایسی عورتیں بھی موجود
ہیں جو باپ کی عزت اور احترام بیٹوں کی نظر میں گرا کر خود گھر کا سربراہ
بننے کی جستجو کرتی ہیں ۔کیاایسی اولاد بھی موجود ہے جو باپ کی خدمات کا
اعتراف کرکے اس کا سہارا بننے کی بجائے شریک بننے لگتی ہے ۔ لوگ تو کہتے
ہیں کہ قدر کرو اس شخص (باپ کی ) جس نے اولاد کی کامیابی کے لیے اپنا سب
کچھ قربان کردیا ہے ۔اس بزرگ کی باتیں بہت ہی تکلیف دہ تھیں ۔ چند دن تک وہ
بزرگ دوبارہ مسجد میں دکھائی نہیں دیئے ۔ پھر ایک دن خبر سنسنے کو ملی کہ
اس بزرگ نے بی آر بی نہر میں کود کر خودکشی کرلی ہے اور اس دنیا سے ہمیشہ
ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کرلیا ہے جہاں اسے پوری زندگی محنت و مشقت کرنے
کے باوجود اپنے ہی گھر وہ عزت اور احترام نہیں مل سکا ۔ |