لیاری کی ڈُور۔۔

سندھ میں آمر ضیا الحق کے دور میں ڈاکو پرو چانڈیو کا بڑا چرچا رہا ، جب پر چانڈیو کو مبینہ پولیس مقابلے میں مارا تو اس کی میت پر سندھوں نے دو ہزار اجرکیں ڈالی تھیں ۔انہی دنوں پاکستانی کے ایک مایہ ناز قانون داں لیکن ضیا الحق کے قریبی اے کے بروہی کا بھی انتقال ہوا لیکن ان کا جنازہ جب قبرستان پہنچا تو جنازے کے ساتھ صرف ایک آدھ درجن ہی لوگ باقی رہ گئے تھے،ایسا ہی ایک ہیرو قادو مکرانی کو مانا جاتا ہے جس کے لئے دیو مالائی داستانیں قصے بڑے مشہور ہیں ، بلوچ تاریخ داں یوسف نسکندی کے مطابق قادر بخش بلوچ اصل میں گجرات کا بلوچ تھا جو انگریز افسر کو قتل کرنے کے بعد ہندو تاتریوں کے قافلے میں جب بنگلاج کی زیارت کے راستے لیاری ندی پر سے گذر رہا تھا تو ایسے گرفتار کرلیا گیا اور مقدمہ چلا کر اسے پھانسی دے دی گئی ، تب سے اب تک وہ بلوچ لوک گیتوں میں ایک ہیرو کے طور پر جانا جاتا ہے ۔ضیالحق کے دور میں ہی جب پولیس نے امان اﷲ مبارکی جیسے ایرانی نوجوانوں کو تشدد کے بعد لیاری کے مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا تو وہ لیاری والوں اور کئی بلوچوں کی نظر میں ہیرو کا درجہ پا گئے۔ذوالفقار علی بھٹو کے دادا غلام مرتضی بھٹو ایک انگریز عورت کو عشق میں بھگا کر لیاری کے علاقے کھڈہ میں غلام محمد کے پاس پناہ لیا کرتے تھے۔بے نظیر بھٹو مرجومہ کے پہلے بیٹے کی پیدائش بھی لیاری میں ہوئی بلکہ ان کے پیر بخاری سروری کا مزار بھی لیاری میں ہی ہے۔سابق صد ر آصف زرداری کو لیاری والوں نے ہی جیل میں ہونے کے باوجود منتخب کرکے اسمبلی بھیجا، لیکن جب لیاری والوں کو پانی کے حصول میں شکایات صبر سے باہر ہوئیں تو ، لیاری کی عورتوں نے بڑا دلچسپ شکوہ کیا۔

بد قسمتی سے لیاری ہمیشہ کسی نہ کسی کا مشق ستم رہا ہے۔ یحیی خان کے دور میں حاجی چارو کے قصے زد عام تھے جب انسانی اسمگلنگ کے سلسلے میں لوگوں کو دوبئی بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا جس میں کئی افراد بحیرہ عرب کی لہروں کا شکار بھی ہوئے ، لیاری کے حاجی چارو سے لیکر تربت کییعقوب گینگ تک انسانی سمگلنگ ایک الگ کہانی ہے۔ ایوب خان کا دور آیا تو لیاری میں شیرل اور دادل کے قصے مشہور ہوئے ،جن کی سرپرستی کیلئے ہارون خاندان مشہور تھے ، کہا جاتا ہے کہ شیرل اور دادل سیاسی مخالفین کے جلسوں میں سانپ چھوڑ دیا کرتے تھے جس سے شرکا میں خوف وہراس پھیل جایا کرتا تھا۔ذوالفقار علی بھٹو نے لیاری میں جب قدم جمایا توعبدالر رحمان بلوچ (عرف رحمن ڈکیٹ) کے دادا ، دادل (داد محمد) کا اثر توڑا اور ان کا دعوی بڑا مشہور ہوا کہ "میری پارٹی اگر اقتدار میں آئی تو میرے وزیر لیاری کی گلیوں میں جھاڑو دیں گے"۔ ککری گراؤنڈ میں کئے گئے اس دعوے کو ابھی تک کوئی پورا نہیں کر سکا لیکن لیاری سے امن کے نام و نشان پر ضرور جھاڑو پھیر دی گئی۔لیاری اپنی ایک سیاسی ثقافت و تاریخ لئے ایک ایسا باب ہے جیسے ہر آج کے نوجوان لیاری کو جرائم کی گڑھ اور گینگ وار کی وجہ سے پہچانتے ہیں ، عبدالرحمن بلوچ ، ارشد پپو، بابا لاڈلا ،شیراز کامریڈ عزیر بلوچ جیسے کئی’بد‘ ناموں نے لیاری کو ایک الگ ہی پہچان دے دی ہے۔لیاری رقبے کے لحاظ سے کراچی کے اٹھارہ ٹاؤن میں سب سے چھوٹا ٹاؤن ہے ۔ اگست2000؁ء میں بلدیاتی نظام متعارف کئے جانے کے ساتھ ہی کراچی ڈویژن اور اس کے اضلاع کا خاتمہ کرکے شہری حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا تھا ، جس میں لیاری کو بھی ٹاؤن کا درجہ دیا گیا۔لیاری میں اردو ، سندھی ، بلوچی ،مکرانی ، کچھی ، گجراتی، پنجابی ، پشتو ، سرائیکی بولنے والوں کی بڑی تعداد عرصے سے آباد ہے۔

ستمبر2014؁ء میں دنیا نے لیاری کا ایک نیا چہرہ دیکھا ، جب لیاری فسٹیول(ایل ایف ایف ) کا انعقاد کیا تھا ۔ جس میں نوساچ اکیڈمی ، ویمن ڈیویلپمنٹ فاؤندیشن پاکستان ( ڈبلیو ڈی ایف پی) اور کراچی یوتھ انیشی ایٹو ( کے وائی آئی)کے اشتراک سے مجموعی طور مختصر اور طویل دورانئے کے 37فلمیں دیکھائیں گئیں اور چار ججوں پر مشتمل پینل نے فیچر اور شارٹ فلموں کے سات سات اور دستاویزی فلموں کیلئے چار شعبوں میں ایوراڈ دئیے۔2010ء ؁ میں قائم نوساچ فلم اکیڈمی کے پروجیکٹ لیڈرعادل حسین بزنجو کا کہنا تھا "کہ ایل ایف ایف لیاری کو نوجوانوں کی طرف سے صرف لیاری کے لوگوں ہی کیلئے نہیں بلکہ کراچی کے سب لوگوں کیلئے ایک تحفہ ہے۔" جبکہ نوساچ کے صدر عمران ثاقب کا کہنا تھا کہ "لیاری شروع ہی سے پاکستان اور سندھ کی فلم سازی میں نمایاں کردار ادا کرتا رہا ہے ، لیاری نے فلمی صنعت کو اداکار بھی دئیے ہیں اور تکنیک کار بھی ، ہم نے صرف اُس تسلسل کو جوڑا ہے جوٹوٹ گیا تھا۔"

لیاری کو جس زاوئیے سے جتنا پڑھا جائے اتنا ہی کم لگتا ہے۔لیاری میں واحد بخش بلوچ جیسے جگریلے نوجوان بھی پیدا ہوئے جنھوں نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے منشیات فروشوں کے خلاف تحریک شروع کی جسے ضیاالحق کے مارشل لا دور میں قتل کردیا گیا ۔واحد بخش بلوچ کا ساتھی ناصر داد بلوچ بھی اسی ، اس وقت کی سب سے زیادہ بد نام زمانہ افشانی گلی رہتا تھا ، جیسے مقامی لوگوں کی حمایت حاصل تھی اور انھوں نے بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے منشیات فروشوں کو بھگا کر نائٹ اسکول قائم کئے تھے اور ایسے نائٹ اسکول ممبا سا گلی میں بھی قائم کئے گئے جہاں منشیات فروشوں کے اڈے تھے۔محود عالم اور امین بلوچ کئیرس تک اسے چلاتے رہے ۔آج جب لیاری کمزور دلوں کیلئے خوف کا نمونہ ایک سازش کے تحت بنا دیا گیا ہے ۔

اس کے باوجود لیاری میں ایک تعلیمی ادارہ "کرن اسکول"سے قائم ہے جو چودہ سال سے ’ سبینہ‘ نامی خاتون کی جرات مندی اور تعلیم سے محبت کی بنا ء پر قائم دائم ہے’سبینہ ‘ کا ماننا ہے کہ"کرن اسکول میں ہم لیاری کے لائق اور ذہین بچوں کو داخل کرتے ہیں اس کے بعد انہیں تیار کرتے ہیں تاکہ وہ نجی اسکولوں میں داخلہ لے سکیں ، یہ ایک ایسا موقع ہے جو وہ کسی صورت کبھی حاصل نہیں کر سکتے۔"’ سبینہ ‘ جہاں اس پر تشدد ماحول میں بچوں کو باہرکا جہاں اور شہر کی تفریح گاہوں میں لے جا کر نئی دنیا متعارف کراتی ہیں تو بچوں کے والدین سے بھی ملاقات کرکے انھیں تعلیمی شعور سے آگاہ کرتی ہیں اور والدین کے ساتھ مشترکہ نشستوں کا انعقاد بھی کرتی ہیں۔

لیاری میں ثقافت کے تمام رنگ موجود ہیں ۔ سیاست سے لیکر فنون تک اور کھیلوں میں فٹ بال اور باکسنگ کی ایک منفرد پہچان لئے لیاری کی تاریخ کو ایک کوزے میں بند نہیں کیا جاسکتا ۔ غور طلب بات صرف اتنی ہے کہ آخر کیا وجوہات ہیں کہ لیاری کو جہاں کالعدم تنظیموں ، گینک وار جماعتوں یا مخصوص سیاسی جماعتوں کے درمیان شکار کیلئے چھوڑدیا گیا ہے۔ مستقل مزاج اور مضبوط قامت کے حامل تاریخی حیثیت رکھنے والی بلوچ قوم کے تشخص کو اس قدر مسخ کیوں کیا جارہا ہے کہ لیاری کا نام سامنے آتے ہی ، ماسوائے قتل وغارت ، منشیات ،بھتہ خوری اور گینگ وار کے کوئی دوسرا خیال نہیں آتا۔کیا لیاری کے اس تشخص کو بنانے کیلئے کسی سوچی سمجھی سازش کے تحت کوئی منصوبہ بندی کی گئی ہے کہ محنت کش قوم کو ایک جرائم پیشہ قوم بنا کر کوئی مخصوص مقاصد حاصل کئے جاسکیں۔

لیاری کو ہمیشہ تختہ مشق بنایا جاتا رہا ہے۔سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کے دور میں جس طرح لسانی طور لیاری کو تقسیم کیا گیا اس کے اثرات آج تک کراچی پر حاوی ہیں۔ایم کیو ایم اور امن کمیٹی کے درمیان تنازعے نے شہر میں ایک ایسا سراسمیگی کا ماحول پیدا کردیا تھا کہ اس کے اثرات نہ جانے کب تحلیل ہونگے۔ جس طرح ایم کیو ایم کیخلاف 992, 1994,1 996, 1998,1میں ریاستی طاقت کا استعمال کیا گیااسکے باوجود ایم کیو ایم سندھ میں مارشل لاء لگانے کیلئے مطالبے کرتے نظر آتی ہے تو اسی طرح لیاری میں متواتر گینگ وار نے امن پسند عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی اور ارباب اختیار نے امن کے بجائے تشدد کی فضا بنانے کیلئے شعلہ بیانی کے نت نئے ریکارڈ قائم کرکے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا۔کراچی میں لسانی سیاست ، اردو ، پشتو ، بلوچ ، سندھی، کچھی تک محدود نہیں رہی بلکہ کراچی میں رہنے والی تمام قومیتوں کو لسانی عفریت نے گھیرے میں لیا ہوا ہے اس پر فرقہ وارنہ ماحول نے کراچی کو ہی لیاری بنا دیا ہے۔ایک طرف کراچی امن کے لئے ترس رہا ہے تو ارباب اختیار کے پس پردہ منصوبہ سازوں نے لیاری کے تشخص کو بگاڑنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔کراچی میں مسلسل دہشت گردوں کی حکمرانی اور حکومت کی رٹ نہ ہونے پر عوام ایک ایسے خوف کے ماحول میں رہ رہے ہیں ، جس میں انھیں باعافیت اپنے گھر واپس آنے کی کوئی ضمانت حاصل نہیں ہے۔پولیس اہلکاروں سے لیکر سیاسی وغیر سیاسی افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے نہ رکنے والے سلسلے نے ثابت کردیا ہے کہ کراچی میں بد امنی کی ڈور لیاری میں نہیں بلکہ عوام کی آنکھوں میں دھول ڈالنے والوں کے پاس ہے۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744944 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.