یہ کیسا اندازِ سیاست ہے؟؟

پاکستانی سیاست کوسمجھنے کے لیے افلاطونی ذہن چاہیے جو ہمارے پاس نہیں ہے اِس لیے ہم ٹامک ٹوئیوں سے ہی کام چلاتے رہتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس کوئی چڑیا ،طوطا ،مینایا کوا توہے نہیں جو ہمارے لیے مخبری کرسکے ۔یوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے ہم ایسے سیاسی جنگل کے باسی ہوں جس میں سب اپنی اپنی بولیاں بولتے رہتے ہیں۔مولانافضل الرحمٰن حکومت کے اتحادی بھی ہیں اور ’’تڑیاں‘‘بھی لگاتے رہتے ہیں ۔جماعت اسلامی خیبرپختونخوامیں تحریکِ انصاف کی اتحادی اورپختونخوا کابلدیاتی الیکشن بھی تحریکِ انصاف سے مل کرلڑنے جارہی ہے لیکن اکیسویں ترمیم کے معاملے میں مولانافضل الرحمٰن کی اتحادی۔طرفہ تماشہ یہ کہ تحریکِ انصاف اور مولانافضل الرحمٰن کاہروقت ’’اِٹ کھڑکا‘‘ چلتا رہتاہے ۔ایم کیوایم کے ’’موڈ‘‘پر منحصر ہے کہ اُس نے کب سندھ حکومت میں شامل ہوناہے اورکب ’’داغِ مفارقت‘‘ دینا ۔قاف لیگ اورعوامی مسلم لیگ’’وَن مین شو‘‘ہیں ،یہ الگ بات کہ سب سے زیادہ ’’رَولا‘‘یہی جماعتیں ڈالتی ہیں۔پیپلزپارٹی کی ساری سیاست جنابِ آصف زرداری کے گردگول گول گھومتی رہتی ہے لیکن آجکل اِس میں بلاول زرداری کی وجہ سے کچھ رخنے نظرآنے لگے ہیں۔ زرداری صاحب جوبیان دیتے ہیں بلاول اُس کے بالکل اُلٹ بیان داغ دیتاہے اوربیچارے معصوم جیالے حیران کہ ’’کیدی منیے تے کیدی نہ منیے‘‘۔یہ بجاکہ ’’پہلے تولو ،پھربولو‘‘ لیکن اِس سیاسی جنگل کے ’’شیر‘‘تو ایسے کہ’’ تولتے تولتے‘‘ ہی اتنی دیرکر دیتے ہیں کہ اُن کے بولنے سے پہلے ہی کوئی نہ کوئی ’’کھڑاک‘‘ہو جاتاہے ۔محترم عمران خاں لہوگرم رکھنے کاکوئی نہ کوئی بہانہ تراشتے رہتے ہیں ۔پہلے اُنہوں نے اپنے ’’بَلّے‘‘سے پھینٹی پروگرام شروع کیا لیکن نوازلیگ کی ’’گُگلی‘‘سے چاروں شانے چِت ۔تب شورمچادیا کہ الیکشن کمیشن اورنگران حکومتیں تو اُن کے خلاف تھیں ہی ،ستم بالائے ستم یہ کہ ’’جِن پہ تکیہ تھاوہی پتے ہوادینے لگے ‘‘جس چیف جسٹس کی بحالی کی خاطر وہ پورے چھ دِن جیل میں رہے ،اُسی کے حکم پرRO's نے ’’روندی‘‘ماردی ۔خاں صاحب توشاید صبرشکر کرکے بیٹھ ہی رہتے لیکن بُراہو علامہ قادری سے لندن میں ہونے والی ملاقات کاجس میں ’’لندن پلان‘‘تشکیل پایااور خاں صاحب کویقین دلادیا گیا کہ اِدھروہ ڈی چوک پہنچے اوراُدھر امپائرکی انگلی کھڑی ہوئی ۔یہ توبعد میں پتہ چلاکہ امپائرکا تو ’’وہ ہاتھ سوگیاتھا سرہانے دھرے دھرے ‘‘۔اُدھر دھرنوں کے شورمیں میاں برادران ’’کچی نیند‘‘سے بیدارہوئے اوراسحاق ڈارصاحب کومذاکرات کافریضہ سونپ دیا ۔ڈارصاحب کی یہ خوبی کہ وہ وکیل تونہیں لیکن وکیلوں کی طرح تاریخ پہ تاریخ لینے کے ماہر ۔وہ تو مولانافضل الرحمٰن جیسے گھاگ سیاستدان سے بھی ’’ہَتھ‘‘کرگئے ۔ہوا یوں کہ اکیسویں ترمیم کی متفقہ منظوری کے شوقین وزیرِاعظم صاحب خوب جانتے تھے کہ مولاناصاحب کوئی نہ کوئی پھڈا ضرورڈالیں گے ۔اُنہوں نے ڈارصاحب کو مولاناکے چیمبرمیں بھیجا ،اُدھرڈار صاحب نے مولاناکو باتوں میں لگایااور اِدھر پارلیمنٹ نے اکیسویں ترمیم کی متفقہ منظوری کا ’’کھڑاک‘‘کر ڈالا ۔اب مولانانے تمام دینی جماعتوں کو اکٹھاکرکے کہاہے’’ہمارے مطالبات مانوورنہ ہم مدرسے بندکرکے جیلیں بھردیں گے ‘‘۔مولاناکا اصل مطالبہ توایک آدھ مزیدوزارت کاحصول ہے لیکن آڑمساجد اورمدارس کے خلاف ایکشن کی۔مولانا کی بے چینی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ چیف جسٹس ناصرالملک صاحب نے ’’ملٹری کورٹس‘‘کے بارے میں تین رکنی بنچ تشکیل دے دیاہے اورعام خیال یہی ہے کہ بنچ متوازی عدالتی نظام گردانتے ہوئے ملٹری کورٹس کو ’’پھڑکا‘‘دے گا۔اگر ایسا ہوگیا توپھرمولاناکی جماعت کونئی وزارت توملنے سے رہی البتہ پہلی دووزارتیں بھی چھن جانے کاخطرہ بہرحال موجودہے۔

اسحاق ڈارصاحب نے مذاکرات کے نام پرتحریکِ انصاف کو ’’ٹرک کی بتی‘‘کے پیچھے لگادیا جس کے پیچھے بھاگتے بھاگتے وہ ’’ ہپھ‘‘گئے ۔مولاناقادری توتھک کر کسی نئی پلاننگ کے لیے چندہ اکٹھاکرنے اپنے ’’دیس‘‘سدھارے لیکن خاں صاحب ڈٹے رہے ،یہ الگ بات ہے کہ اُداس خاں صاحب اپنے کنٹینرکے اندر ہروقت گنگناتے رہتے تھے
کیا غم خوار نے رسوا لگے آگ اِس محبت کو
نہ لاوے تاب جو غم کی وہ میرا رازداں کیوں ہو

دھرناابھی جاری تھاکہ ’’سانحہ پشاور‘‘ہوگیااور خاں صاحب کومجبوراََ دھرنا ختم کرناپڑا ۔خاں صاحب نے دھرنوں کے دَوران ایک بارکہاتھا ’’سوچتاہوں کہ اگردھرنا ختم ہوگیا تومیری شامیں کیسے گزریں گی‘‘۔ گویا
اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے
اب رہائی ملی بھی تو مر جائیں گے

یہی وجہ ہے کہ خاں صاحب نے آؤ دیکھانہ تاؤ ،اپنی ’’اُداس شاموں‘‘کو خوشگواربنانے کے لیے ’’نیاپاکستان‘‘بنانے سے پہلے ہی ریحام خاں سے شادی کرکے اپنی زندگی میں’’تبدیلی‘‘لے آئے۔خیال تویہی تھاکہ خاں صاحب نے تبدیلی کاوعدہ پورا کردیا اِس لیے اب ایک اچھے شوہرکی طرح اپنی بیگم صاحبہ کی خدمت میں جُت جائیں گے لیکن ہماری توقعات کے بالکل برعکس خاں صاحب پھر ’’اِن ایکشن‘‘ہیں ۔کپتان صاحب نے سوچاہوگا کہ مومن کی تلوار اگر میان میں رہے تو زنگ آلود ہوجاتی ہے اِ س لیے ’’سونامیوں‘‘کو کسی نہ کسی کام پرلگا دیناچاہیے ۔اُنہوں نے سوچاکہ ضمنی انتخاب توہونے سے رہے اِس لیے چلواپنے ’’ٹائیگروں اور ٹائیگرنیوں‘‘کا انتخاب ہی کروادیتے ہیں۔اب نوجوان ٹائیگردھاڑتے اور ٹائیگرنیاں چنگھاڑتے ہوئے انتخابات میں حصّہ لے رہی ہیں اور خود خاں صاحب خیبرپختونخوا کو جنت نظیربنانے نکل کھڑے ہوئے ۔اُنہوں نے 90 دنوں میں نیاپاکستان بنانے کااعلان کیالیکن ہماری بدقسمتی کہ وہ حقِ حکمرانی سے کوسوں دور رہے ۔پھرچھ ماہ میں خیبرپختونخوا کی قسمت سنوارنے چلے لیکن ’’لندن پلان‘‘آڑے آگیا ۔اب دیکھیں بہشت بَرسرِ زمیں کب بنتاہے ۔

اُدھر ٹائیگراور شیرباہم گتھم گتھا اوراِدھر ’’شکاری‘‘تاک میں۔ماناکہ شکاری کے تیرآجکل نشانے پرنہیں بیٹھ رہے لیکن جب زرداری صاحب جیساگھاگ شکاری ہوتو کچھ بھی ہوسکتاہے ۔اُنہوں نے اپناجال پھیلادیاہے اورپہلی قسط کے طورپر تحریکِ انصاف کے چار ’’پرندے‘‘بھی شکار کرلیے اب سندھ اسمبلی تحریکِ انصاف سے خالی ہوگئی ۔دراصل پیپلزپارٹی کوخطرہ تھا کہ کہیں تحریکِ انصاف دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر اُن کی سینیٹ میں ایک دوسٹیں کم نہ کردے اِس لیے اُس نے یہ کھڑاک کردیا ۔اُدھر ایم کیوایم کی ’’پتنگ‘‘ہواؤں کے دوش پراونچی اُڑان میں اِس لیے پیپلزپارٹی سے مفاہمت کاامکان مفقود۔ویسے بھی الطاف بھائی لندن میں بیٹھ کر ہرروز یہ بڑھک لگادیتے ہیں کہ فوج اقتدارسنبھال لے ۔اِس سے پہلے شیخ رشیدبھی پانچ سال تک ’’کرلاتے‘‘ اوراپنی ’’قلم دوات‘‘سے فوج کو اقتدار سنبھالنے کی عرضیاں لکھتے رہے لیکن شیخ صاحب ہی کے بقول فوج ’’سَتّو‘‘پی کرسوتی رہی ۔اب شیخ رشیدکی جگہ الطاف بھائی نے لے لی ہے لیکن فوجی دَورمیں اقتدارکے مزے لوٹنے والی قاف لیگ تا حال خاموش،وجہ یہ کہ اُن کی سائیکل کی ’’پھوک‘‘نکلی ہی رہتی ہے ۔سیانے کہتے ہیں کہ سائیکل کونئے ’’ٹائرٹیوب‘‘کی ضرورت ہے لیکن وہ دستیاب نہیں کیونکہ وہ تو دوکان ہی بندہوچکی اور پرانادوکاندار بوڑھا ،بیمار،لاچار ،نکبت میں گرفتار۔نئی دوکان کھلنے کافی الحال دوردور تک کوئی امکان نہیں ۔

Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 643326 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More