گورنس سے گڈ گورنس تک

جمہوریت ا ور گڈ گورننس خوش نصیب قوموں کے حصے میں آتی ہے۔ایسے معاشرے جہاں ہرکوئی عوام کی عدالت میں جوابدہ ہوتا ہے۔جہاں مفاد عامہ کا راج ہوتا ہے۔جہان قوانین عوام کی سہولت کا سامان ہوتے ہیں۔جہاں کی پالیسیاں عوام دوست ہوتی ہیں۔وہاں بسنے والے لوگ آزاد،خودمختار،اور خوش قسمت ہوتے ہیں۔ہمیں دنیا کے کئی ملکوں میں گڈگورننس دیکھنے کو ملتی ہے۔اور اسی وجہ سے وہ قومیں ترقی یافتہ ممالک کی فہرست مین بہت جلد شامل ہو گئی ہیں۔ یہی جمہوری طرز معاشرت کا حسن ہے۔پاکستان کی موجودہ گورننس پر روشنی ڈالنااسلئے بھی ضروری ہے کیونکہ یہ گورننس عوام کے بھاری مینڈیٹ کی مرہون منت ہے۔لیکن کیا عوام کا یہ فیصلہ درست ہے ؟کیا یہ گڈگورننس صحیح معنوں میں رائج ہے یا کھوکھلے نعروں کے سوا کچھ نہیں ؟ یا موجودہ حکومت کو اس کا کردار آزادی سے ادا کرنے نہیں دیا جا رہا۔اچھی،معیاری اور مثالی حکمرانی کی پہلی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہان کی عوام حکومت کی مہیا کردہ تمام سہولیات اور سروسز سے استفادہ حاصل کر سکے ۔جہان شفافیت کا راج ہو اور کرپشن دور دور تک نظر نہ آئے۔پاکستان میں غریب طبقہ بے شمار مسائل سے دو چار ہے۔غریب عوام کے مسائل دیکھ کر پاکستان کی گڈ گورننس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کتنے پانی میںہے۔غریب لوگوں کے مسائل بھی بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں کیونکہ غریبوں کے پاس نہ تو بڑی بری گاڑیاں ہوتی ہیں،نہ بنگلے،نہ کارخانے،نہ زمینیں،اور نہ کوئلے اور معدنیات کی کانیں۔غریبوں کے مسائل کی نوعیت بہت چھوٹی ہوتی ہے۔لیکن پاکستان میں غریب عوام کے ساتھ ہونے والے سلوک کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔یوں لگتا ہے جیسے پاکستان کی افسر شاہی اور بیوروکریسی نے عوام کو اپنے مضبوط شکنجے میں جکڑ رکھا ہے جہاں ہر روز ان کے ارمانوں کا قتل عام ہوتا ہے۔پاکستان میں ہر ادارے یا محکمے میں کسی بھی کام کے سلسلے میں دفتروں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں اور اس کے باوجود کام کی تکمیل کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔کیونکہ ھر کام سفارش، اور رشوت سے ہوتا ہے جتنی بڑی سفارش ہو گی کام اتنا ہی جلدی انجام پائے گا۔چونکہ غریب کے پاس اﷲ کے علاوہ کسی کی سفارش نہیں ہوتی اسلئے اس کے دنیاوی کام ادھورے کے ادھورے رہتے ہیں۔رشوت اور سفارش کا بازارہر محکمے میں اس حد تک گرم ہے کہ اوپر سے لے کر نچلے طبقے تک تمام افراد اس سے استفادہ حاصل کئے بناء رہ نہیں پاتے۔اگر بات تعلیم کے بارے میں کی جائے توتعلیم کا معیار دن بدن گرتا چلا جا رہا ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا بڑی تعداد میں بے روزگار ہونا ہے نئی نسل جب پڑھے لکھے لوگوں کو اس حال میں در بدر ہوتا دیکھتی ہے تو تعلیم کی جانب انکا رجحان کم ہوتا چلا جاتا ہے۔پاکستان میںبڑی تعداد میں بے روزگارنوجوانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک سے کون نا واقف ہے اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات چھاپ کر ان کے جذبات کو روز بروز ٹھیس پہنچائی جاتی ہے۔اشتہارات دیکھ کر نوجوان طبقہ روزگار کی تلاش میں جب روشنی کی ایک اور کرن محسوس کرتا ہے تو اگلے ہی لمحے میں اس کی یہ کرن بھی اس وقت چکنا چور ہو جاتی ہے جب اسے معلوم ہوتا ہے کے اشتہارات کے نتیجے میں درخواستیں جمع کروا کر سارا دن دھوپ میں لا ئنوںمیں کھڑے ھونے کی ازیت برداشت کرنا تو محض ایک دیکھاوے کے سوا اور کچھ نہ تھا اور اسی لمحے اس نوجوان کی آخری امید بھی دم توڑ جاتی ہے اس کی امیدوں کا روز قتل عام کیا جاتا ہے اور بے شمار نوجوان نوکری نہ ملنے کے دکھ سے اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا پھر غلط طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے نوجوانون کی ایک بڑی تعداد بے راہ روی کا شکار ہو رہی ہے اور جرائم کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ۔دوسری جانب اگر بات صحت کے شعبے کی کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہسپتالوں میں مسیحا نا پید ہو گئے ہیں۔سرکاری ہسپتالوں میںجہاں ڈاکٹر مریض کو میٹھی گولی دے کر ٹرخا دیتے ہیں وہیں اپنے پرائیویٹ کلینکس میں غریبوں سے پیسے بٹورنے کیلئے علاج کے نت نئے طریقے ایجاد کر لیتے ہیں۔اگر بات تھانے اور کچھری کی کریں تو ایف۔آئی۔آر درج کروانے کے لئے شرائط اور تفتیش کے جن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ان مراحل کو در گزر کرنے کے لئے غریب انسان اپنے ساتھ ہونے والے جرائم اور حادثات کی رپورٹ درج نہ کروانے میں ہی عافیت جانتا ہے۔کچھر یوں میں زمینوں کے انتقال کے لئے پٹواریوںکی منتیں کرنی پڑتی ہیں اور کچھری کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔ حکو مت کوتوبہت آسانی سے برا بھلا کہ دیا جاتا ہے لیکن اپنے گریبان میں ایک بار بھی جھانک کرنہیں دیکھا جاتا۔پاکستان میں موجودہ گورننس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے والے لوگ باہر کی دنیا کے نہیں بلکہ اسی ملک کے باشندے ہیںایسے لوگ خود کو کہتے تو وفادار ہیں لیکن شایدہی کوئی ان سے بڑا غدار ہو۔ملک کے دشمن جو خود کو ملک کا وفادار کہتے تھکتے نہیں وہ پاکستان کی گورننس میں رکاوٹیں پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔پاکستان میں موجودہ حکومت کو آزادی سے ان کا کام نہیں کرنے دیا جا رہا اور مختلف رکاوٹیں پیدا کر کے حکمرانوں کو بد نام کیا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے دھرنوں سے پاکستان کی معیشیت کو جتنا نقصان اٹھانا پڑا اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔بلا شبہ حکومت نے متعدد بار ان جماعتوں سے مذاکرات کر کے ان دھرنوں کا حل نکالنے کی کوشش کی لیکن بے سود اور یہ سب بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف تھا۔

بحرحال اس سے پاکستان کوسیاسی،معاشی،معاشرتی،اورمالی ہر لحاظ سے بے حد نقصان پہنچا۔اب پاکستان کی موجودہ حکومت کے سامنے بے شمار چیلنجز موجود ہیں جن کا سامنا اسے بحر حال کرنا ہے۔ اب یہ حکومت کی زمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کے عوام کو مطمئن کرنے اور ہر ادارے سے کالی بھیڑوں کا خاتمہ کرنے کے لئے موئژ اقدامات کرے تا کہ ملک سے تمام جرائم اور برائیوں کا خاتمہ کیا جا سکے اور موجودہ گورننس کو گڈ گورننس کہا جا سکے۔
saiqa manzoor chohan
About the Author: saiqa manzoor chohan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.