سر شاہنواز بھٹو کے بعد جناب
ذوالفقار علی بھٹو، سکندر مرزا کی کابینہ میں شامل ہوئے اور انہیں قائداعظم
ؒ سے بڑا لیڈر قرار دیا۔ کابینہ میں شمولیت سے پہلے جناب بھٹو نے سکندر
مرزا کے نام ایک خط میں لکھا کہ میرے والد نے نصیحت کی تھی کہ میں آپ سے
رہنمائی حاصل کروں۔ کابینہ میں شمولیت کے فوراً بعد سکندر مرزا کا دور ختم
ہوا تو آپ ایوب خان کی کابینہ میں شامل ہو گئے ۔ آپ نے ایوب خان کو بھی
ایشیا کا ڈیگال قرار دیا اور بحیثیت وزیر خارجہ بہت نام کمایا۔
کشمیر اور کشمیریوں کے متعلق آپ کے کارہائے نمایاں تاریخ کا حصہ ہیں جنہیں
سلطان محمود چوہدری اور چوہدری مجید سیاسی مفاداتی نعروں سے مٹا نہیں سکتے
۔ اس میں شک نہیں کہ بھٹو ایک عظیم دانشور اور مرد م شناس سیاست دان تھے
مگر اُن کی ترجیحات میں کشمیر شامل نہ تھا۔ بھٹو صاحب نے آزادکشمیر اور
شمالی علاقوں پر اکتفا کر لیا تھا اور اس سلسلہ سیاست میں کرنل حسن مرزا،
سردار عبدالقیوم ،سردار ابراہیم خان اور مرحوم کے ایچ خورشید کو بھی شمولیت
کی دعوت دی ۔کرنل حسن مرزا اور سردار عبدالقیوم کے انکار پر انہیں جیلوں کی
ہو ا کھانی پڑی اور سردار ابراہیم خان مرحوم اور جناب کے ایچ خورشید نے
اپنی اپنی سیاسی جماعتیں ہی پیپلز پارٹی میں مدغم کردیں تاکہ وہ کسی سیاسی
جرم کا حصہ نہ بنیں ۔ دونوں ہی دانشمند اور دور اندیش سیاستدان تھے اور
انہیں پتہ تھا کہ بھٹو جتنے ذہین وفطین ہیں اسی قدر کینہ پرور بھی ہیں۔
آزاد مسلم کانفرنس چوہدری نور حسین نے خرید لی اور لبریشن لیگ پیپلزپارٹی
بن گی ۔ اگر جناب بھٹو کو مہلت ملتی تو وہ آنیوالے سالوں میں آزادکشمیر اور
شمالی علاقوں پر مشتمل ایک بڑا صوبہ بنانے کا اردہ رکھتے تھے مگر قدرت نے
انہیں اقتدار کی پیڑی سے ہی اُتار دیا۔
برادری ازم جمہوریت، تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل ہے اور تاریخ کاعلم بھی
رکھتے ہیں۔ اُن کے چیئرمین محترم بلاول بھٹو زرداری نے تو ولائیت سے ڈگری
ہی تاریخ کے مضمون میں حاصل کی ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بھٹو بننے سے
پہلے اُنہوں نے اپنے نانامرحوم و مغفور کے تمام تر معاملات کا مطالعہ نہ
کیا ہو۔ چوہدری صاحبان کا المیہ ہے کہ اُن میں سے کسی ایک کا بھی تحریک
آزادی کشمیر اور جدو جہد آزادی کے مجاہدین سے تعلق نہیں ۔ وہ لوگ جنہوں نے
آزادی اور حرمت کشمیر کے لیے قربانیاں دیں، دکھ اُٹھائے، جیلیں کاٹیں، اپنی
جائیدایں قربان کیں اور اپنے خون سے صبح آزادی کے چراغ روشن کرنے کی کوششیں
جاری رکھیں آج اُن کے نام سے بھی کوئی ٹن سیاستدان اور پاکستان میں بیٹھا
اُنکا سیاسی ٹھیکیدار واقف نہیں ۔ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری ، چوہدری مجید
اور دیگر بلیک لیبل سیاستدان پاکستانی سیاسی لیڈروں کے سیاسی ایجنٹ ہیں اور
ان کی سیاست ان سیاستی لیڈروں کی خوشنودی سے منسلک ہے۔ لند ن مارچ بھی اسی
سلسلے کی ایک کڑی تھی جسکا مقصد بلاول کی خوشنودی حاصل کرنا اور تحریک
آزادکشمیر کو بلاول اور زرداری کی خواہش سے منسلک کرنا تھا۔ چوہدریوں اور
چوہدری بلاول کو پتہ ہی ہو گا کہ بھٹو آرائیں نہیں بلکہ راجپوت تھے۔ یہ اور
بات ہے کہ آرائیوں نے ضیا الحق کو آرمی چیف بنوانے کے لیے بھٹوکو آرائیں
بنا دیا۔ آج بھی پنجاب کے آرائیں بھٹو قبیلے کو سندھ کے آرائیں کہتے ہیں۔
بھٹو صاحب کو ایک موقع پر کل پاکستان انجمن آرائیاں کا صدر بھی بنایا گیا
جوکہ حیرت کی بات ہے۔ قدرت اﷲ شہاب لکھتے ہیں کہ نائیدمرزا ایک خوبصورت
نوجوان کے ہمراہ میرے دفتر آئیں اور کہنے لگیں کہ مسٹر شہاب ان سے ملیں ۔
یہ بیرسٹر زلفی ہیں ۔ انکے والد سر شاہنواز بھٹو ، سکندر مرزا کے انتہائی
قریبی دوست تھے۔ آپ زلفی کو صدر کی ذاتی لائبریری میں مطالعہ کے لیے سہولت
دیں۔قدرت اﷲ شہاب لکھتے ہیں کہ پہلی نظر میں مسٹر ذوالفقار علی بھٹو ایک
کھلنڈرے نوجوان دکھائی دیے مگر میری حیرت کی انتہانہ رہی کہ اس نوجوان نے
چند دنوں کے اندر صدراتی گھر کی لائبریری چھان ماری۔ مسٹر بھٹو نے سیاسیاست
، فلسفے ، تاریخ اورسماجیات پر لکھیں جانیوالی سبھی کتابیں پڑھیں اور ضروری
نوٹس بھی لیے ۔ بھٹو صاحب کی ایک خوبی یہ بھی تھی وہ سنجیدہ اور تعلیم
یافتہ لوگوں کی عزت کرتے تھے اور ہمیشہ ادب سے گفتگو کرتے تھے ۔ بھٹو نے
پہلی ملاقات پر مجھے آپ صاحب کہہ کر بلایا اور آخری ملاقات تک ہمیشہ آپ
صاحب ہی کہا ۔
جناب چوہدری مجید کو زرداری اور بلاول ہاؤس میں سائیلین کی طرح پکارا جاتا
ہے اور یہی حال دیگر قائدین برادری جمہوریت کا ہے۔ نون لیگی بھی ایسے ہی
برتاؤ کے حقدار ہیں اور میاں صاحبان نو ن لیگیوں کو اپنے ذاتی ملازمین جیسا
بھاؤ بھی نہیں دیتے ۔ آزادکشمیر نون لیگ کا ٹھیکہ راجہ ظفر الحق کے پاس ہے
اور اُن کی طبعیت اکثر خراب رہتی ہے ۔وزیرا ُمور کشمیر سانگلہ ہل کے چوہدری
ہیں اوراُنہیں راجوں مہاراجوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ میرے خیال میں انہیں
سانگلہ ہل کی وجہ سے وزیر امور کشمیر بنایا گیا تاکہ وہ ہل مین ہونے کے
ناتے کشمیر ہلز کے باسیوں کا خیال رکھیں ۔ میاں صاحبان کو شائد پتہ نہیں کہ
اب سانگلہ ہل میں کوئی ہل نہیں۔ ساری پہاڑیاں کاٹ کر بجری بنا دی گئیں ہیں
اور جہاں کبھی ہلیں شلیں ہوا کرتی تھیں اب وہاں کچرے کے ڈھیر ہیں ۔ سانگلہ
ہل کی ایک مشہور شخصیت چوہدری کِلہ خان تھے ۔ اگر وزیر اُمور کشمیر کا تعلق
کلہ خاندان سے ہے تو پھر اُنکا سیاسی کِلہ بھی مضبوط ہوگا۔ ورنہ وزیر امور
کشمیر کی کوئی خاص ضرورت نہیں ۔ وزارت اُمور کشمیر ،کشمیر کمیٹی اور کشمیر
کونسل ایسے کِلے ہیں جن پر بندھے سیاسی جانوروں کو جی بھر کر کھلایا پلایا
اور کبھی کبھی کرسی سے گرانے کے لیے ڈرایا بھی جاتا ہے ۔ جب سے یہ تین ادرے
بنے ہیں آزادکشمیر کشمیریوں کانہیں رہا ۔ مہاجرین مقیم پاکستان کی اسمبلی
سٹیوں اور نوکریوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ۔نئے مہاجرین کی تعداد بڑھ
رہی ہے اور آزادکشمیر کے باشندوں کے حقوق پر دن دیہاڑ ے ڈاکہ ڈالا جارہا ہے
۔ نام نہاد کشمیری لیڈر اقتدار اور شراب کے نشے میں دھت کبھی ایک دراورکبھی
دوسرے پر اقتدار اور آسائیش کا کشکول لیے پھرتے ہیں اور ہر در سے دھتکا رے
جاتے ہیں ۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کا ذاتی ملازم نواز، ضیا الحق کا اردلی
صوبیدار میجر فقیر خان ، وزارت خارجہ کا سیکشن افسر امان اﷲ خان نیازی اور
اب بلاول ہاؤس اور زرداری ہاؤس کے دربان جن الفاظ اور القاب سے مجاوروں کو
پکارتے ہیں اسکا ذکر کرتے ہوئے راؤف کلاسرانے ٹیلی ویژن چینل پر کہا کہ ان
کی حیثیت کسی ادارے کے ہیڈکلرک کے برابر بھی نہیں ہے۔ آزادکشمیر کی ٹوٹی
پھوٹی سٹرکوں پر سوسو سرکاری گاڑیوں کے قافلے لیکر پھرنے والے کاغذی شیر
گڑھی خدابخش اور جاتی عمرہ کی بلیوں کاجوٹھا کھانے پر بھی تیار ہو جاتے ہیں
اور لائینوں میں لگ کر کرپٹ اور بد یانت نودولیتے لیڈروں کے دیدار کو ترستے
ہیں۔ اگر ان نام نہاد لیڈروں کی رگوں میں اُن عظیم لوگوں کا خون ہوتا جنہوں
نے مہاراجہ کشمیر کو ایک اشرفی نذرانہ دینے سے انکار کیا تو یہ کرائے کے
لیڈر بلاول ہاؤس کے سامنے کرپشن کی کمائی کی بوریاں بھر نہ بیٹھتے۔ جن
لوگوں نے عزت نفس کا سودا کر لیا ہو وہ آزادی تو کیا غلامی کے حقدار بھی
نہیں۔ آئے واپس بھٹو صاحب کی کشمیر پالیسی پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں تاکہ جناب
چوہدری بلاول بھٹو زرداری کے لیے اپنی کشمیر ی رعایا سے معاملات طے کرنے
میں آسانی رہے۔
جیالے کشمیری کہتے نہیں تھکتے کہ پیپلز پارٹی کا جنم اعلان تاشقند سے ہوا ۔
عقل کے اندھوں کو پتہ نہیں کی اگر جناب بھٹو کے تیار کردہ مسودے پر جنرل
ایوب خان دستخط کردیتے تو آج لائن آف کنٹرول اوڑی کے بجائے کوہالہ پر ہوتی
اور بھارتی بوفر توپیں پنڈی اور اسلام آباد پر گولے برساتیں ۔وہ یہ بھی
بھول گے کہ اعلان تاشقند سے پیپلز پارٹی نے زبردستی جنم اس لیے لیا چونکہ
بھٹو صاحب کو خان عبدالولی خان اور اصغر خان نے اپنی پارٹیوں میں جگہ نہ دی
۔انہیں یہ بھی یا دہونا چاہیے کہ جناب بھٹو کو الگ سیاسی جماعت بنانے کا
مشورہ جنرل یحییٰ خان نے دیا تھا اور نہ صرف حوصلہ افزائی بلکہ ہر طرح کی
مدد بھی کی تھی۔ کشمیری جیالوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مشرقی پاکستان
سقوط ڈھاکہ سے بنگلہ دیش نہیں بنا تھا بلکہ اسکا اعلان لاہور ائیر پورٹ پر
گنگا طیارے کی تباہی کے دن ہوا جب جناب ذوالفقار علی بھٹو ہاشم اور اشرف
قریشی سے مل کر طیارے سے باہرآئے تھے۔
کشمیر کی تاریخ میں ایک شخص کا نام مقبول بٹ شہید بھی تھا جسے بھٹو صاحب کے
حکومتی ارکان نے ٹانڈا ڈیم ریسٹ ہاؤس کوہاٹ پہنچا کر ڈرایا دھمکا یا مگر
بات نہ بنی تو مذاکراتی بہروپ بناکر بات چیت شروع کر دی۔ ایجنڈا تحریک
آزادی سے لاتعلقی اورآزادکشمیر بشمول شمالی علاقہ جات کے ایک نئے اور بڑے
صوبے کا قیام تھا۔مقبول بٹ شہید کو صوبہ کشمیر کا تاحیات بااختیار گورنر
بنانے اور دیگر مراعات کا لالچ بھی دیا گیا مگر مٹی سے محبت کرنیوالے درویش
نے سب کچھ ٹھکرادیا ۔ سارے ہتھکندے ناکام ہو ئے تو مقبول بٹ کو مقبوضہ
کشمیر جاکر مسلح جدوجہد کے لیے میدان ہموار کرنے کا حکم دیا گیا اورو عدہ
کیا گیا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اس جدوجہد کی تیاری کے لیے مالی معاونت
بھی کرے گی ۔ مقبول بٹ وادی میں داخل ہوئے تو بھارتی انٹلیجنس اداروں کو
پہلے ہی خبر مل چکی تھی ۔ آگے کی کہانی تہاڑ جیل کی کال کوٹھری میں اختتام
پذیر ہوئی مگر پیچھے ایک نیا ولولہ ، نیا جوش اور عزم چھوڑ گئی۔ |