کیابحرانوں میں قومیں پیدا ہوتی ہیں یا مر جاتی ہیں ؟
(Mushtaq Ahmad kharal, jatoi)
بحران کسی بھی سیاسی ، معاشرتی ،
مذہبی اور معاشی نظام میں وہ ہل چل کا نام ہے جو ایک غیر یقینی کی صورت حال
پیدا کردیتی ہے۔
لوگ اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرنے لگتے ہیں۔ معیشت کی کمر ٹوٹنے لگتی ہے
اور مقروض قوموں پر قرض کا حجم روز بروز بڑ ھتا چلا جاتاہے۔ مگر یہ بھی ایک
مسلمہ حقیقت ہے کہ قوموں نے ہمیشہ آزمائش کی گھڑی میں اپنے اندر ایک نئی
روح پھونکی ہے ۔ یہاں لفظ بحران سے مراد وہ زلزلے ہیں جو شہر کے شہر صفحہ
ہستی سے مٹادیتے ہیں۔ وہ سیلاب ہیں جو ہنستے بستے گھروں کو اجاڑ دیتے ہیں
وہ ایٹم بم کی تباہ کاریاں ہیں جو ہیرو شیما اور ناگا ساکی کی صورت بدل
دیتے ہیں۔ یہ وہ خود کش دھماکے ہیں جو پھولوں کو کفن میں لپیٹ دیتے ہیں۔
بحران کبھی قدرتی آفات کی شکل میں آتے ہیں تو کبھی ہماری بد اعمالیوں کی
سزا بن کر، کبھی انقلاب کی صورت میں تو کبھی انتشار کی صورت میں ۔کبھی
دھرنوں کی صورت میں تو کبھی ہڑتال کی صورت میں۔ معاشی بحران ریاست کے پہیے
کو جام کردیتے ہیں ۔ سیاسی بحران لوٹوں کی بولی بڑھا دیتے ہیں۔ مذہبی بحران
خوف اور دہشت کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور معاشرتی بحران قوم کے مرکب کو
اکائیوں میں بدل دیتے ہیں۔
لفظ قوم سے مراد افراد کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ قوم اس یکجا سوچ کا نام ہے
جو راکھ سے چنگاری اور لہو سے فصل گل پید ا کر سکے۔ آئیے میں آپکو لے
چلتاہوں 8اکتوبر5 200ء کے زلزلے کی طرف جس نے وطن عزیز کے درودیوار ہلادیے
۔جس نے ہماری بہشت کو دوزخ میں بدل دیا وادیاں اجڑ گئیں۔ اس دن زمین نے وہ
کروٹ بدلی کہ اپنے لاکھوں ماسیوں کو پھر کروٹ نہ بدلنے دی۔ اس قیامت صغریٰ
پر قوم کا جذبہ اور ولولہ دیدنی تھا ۔دنیا نے دیکھا کہ فرقوں اور مختلف
قومیتوں میں بٹی ہوئی قوم یک جان اور یک زباں ہوگئی ۔ نا کوئی سندھی تھا ،
نہ کوئی بلوچی ، ناکوئی پنجابی تھا ناکوئی پٹھان ۔شعیہ سنی کے اختلافات کو
بالا طاق رکھ کر پاکستان قوم نے پھر سے زندہ ہونے کا ثبوت دیا۔
کوئی ذی شعور انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ ایک قوم بحران یا آزمائش میں اپنا
وجود کھو بیٹھتی ہے ۔ چند قبیلوں اور چند گروہوں کے ساتھ ایسا ہوا ہو تو
اور بات ہے لیکن حقیقی قوموں نے بحرانوں میں ہی جنم لیاہے قوموں کا نشاطِ
ثانی عموماََ بحران ہی لاتے ہیں ۔
دنیا عالم کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو آج آپکو سائنس و ٹیکنالوجی ، صنعت و
حرفت اور زراعت کے میدان میں جو قوم پیش پیش ہے اسکے بارے میں کہا گیا تھا
کہ شاید یہ صدیوں تک لڑکھڑاتے رہیں گے۔ ہیروشیما اور ناگا ساگی پر گرائے
جانے والے ایٹم بم دنیا کی سب سے بڑی تباہی تھی۔ لیکن داد دیجیے اس قوم کو
جس نے کھنڈرات کو گل گلزار میں تبدیل کیا ۔ 65 19کی جنگ ہو یا 71 19کی
پاکستانی قوم کا جذبہ دیدنی تھا ۔ اور جب کبھی پاکستان میں بحران آیا ہے
تمام سیاسی، لسانی اور مذہبی اختلافات کو بھلائے ہوئے قوم ایک ہوئی ۔ حالیہ
دور میں جب پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوا تو پاکستان کی تمام سیاسی
اور مذہبی جماعتوں نے تمام اختلافات کو بالا طاق رکھ کر وزیر اعظم کی آواز
پر لبیک کہا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سیاسی اور عسکری قوتیں ایک
پیج پر نظر آئیں۔
بہت دور نہیں جاتے پچھلے سال کے سیلاب کا ہی تزکرہ کرلیتے ہیں پاکستان کی
تاریخ کے ان بد ترین سیلاب نے سرحد سے لے کر سندھ تک وہ تباہی مچائی کہ
لگتا تھا کہ شاہد ہم کبھی بھی نہ سنبھل سکیں گے لیکن قوم نے ایک حقیقی اور
زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیا ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بحرانوں نے ہی سوئی ہوئی
قوموں کو جگایا ہے ۔ صرف اور صرف مردہ قومیں ہی بحرانوں میں مٹی ہیں ۔ کوئی
انسان اسی حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ امتحان اور آزمائش آگے بڑھتی
ہوئی قوموں پر ہی آیا کرتے ہیں ۔ جتنا بڑا جیلنج ہوتا ہے اتنی ہی طاقت و
قوت خود بخود پیدا ہو جاتی ہے ۔
وطن عزیز نے اپنی تخلیق سے لیکر اب تک کبھی سکھ کا سانس نہیں لیا ۔ ہر آنے
والے لیڈر نے حسب توفیق اسے لوٹا ۔ ہر شخص کا گلہ یہ ہے کہ اس وطن نے ہمیں
کیا دیا ہے مگر میرا سوال یہ ہے کہ ہم نے اس وطن کو کیا دیا ہے؟ ملک میں
پیدا ہونے والے زیاد ہ تر بحران خود ہماری اپنی داخلی اور خارجی پالیسی کا
نتیجہ ہیں ۔ ہم نے ہمیشہ اجلت میں ہی فیصلے کیے ہیں ان کے بعد از اثرات کا
جائزہ لینے کی کبھی تکلیف گوارہ نہیں کی ۔ ہم نے کبھی بھی اپنے سابقہ
بحرانوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ بلکہ ہمیشہ غلطی در غلطی کرتے چلے گئے۔ اب
کبھی ملک میں بجلی غائب ہوجاتی ہے تو کبھی پٹرول ۔ کبھی گیس کا بحران پیدا
ہوجاتاہے تو کبھی پانی کا ۔ بنیادی انسانی ضروریات کے بحران ہمیشہ خوف ناک
سگنل ہوا کرتے ہیں۔ اور جو حکومتیں اپنی عوام کو بنیادی انسانی ضروریات
باہم نہیں پہنچا سکتیں وہ اقتدار میں رہنے کا جواز کھو بیٹھتی ہیں۔ |
|