حقیقت میلاد النبی-تینتییسواں حصہ

4۔ نعمتوں پر خوشی منانا سنتِ انبیاء علیہم السلام ہے:-

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں اپنی اُمت کے لیے مائدہ کی نعمت طلب کی تو یوں عرض کیا :

رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ.

’’اے اﷲ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے عید ہوجائے ہمارے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لیے (بھی) اور (وہ خوان) تیری طرف سے نشانی ہو۔‘‘

المائده، 5 : 114

قرآن مجید نے اس آیت میں نبی کی زبان سے یہ تصور دیا ہے کہ جس دن اﷲ تعالیٰ کی نعمت اُترے اس دن کو بطور عید منانا اس نعمت کے شکرانے کی مستحسن صورت ہے۔ ’’اَوَّلِنَا‘‘ اور ’’اٰخِرِنَا‘‘ کے کلمات اس امر پر دلالت کر رہے ہیں کہ نزولِ نعمت کے بعد جو امت آئے اس کے دورِ اوائل میں بھی لوگ ہوں گے اور دور اواخر میں بھی، سو جو پہلے دور میں ہوئے انہوں نے عید منائی اور جو رہتی دنیا تک آخر میں آئیں گے وہ بھی یہی وطیرہ اپنائے رکھیں۔

قابلِ غور نکتہ:
آیت میں مذکور اَلفاظ۔ ’’اَوَّلِنَا‘‘ اور ’’اٰخِرِنَا‘‘۔ میں کلمہ ’’نَا‘‘ اِس اَمر کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ نعمت کی خوشیاں وہی منائے گا جو اس نعمت کے شکر میں ہمارے ساتھ شریک ہوگا، اور جو اس خوشی میں ہمارے ساتھ شریک نہیں اس کا عید منانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہاں قرآن نے لوگوں کے دلوں کے اَحوال پرکھنے کے لیے ایک معیار دے دیا ہے۔ وہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت تھی اور یہ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ وہ مائدہ کی عارضی نعمت تھی اور یہاں ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دائمی نعمت ہے لیکن یہاں ہمارے لیے بھی وہی معیار ہے کہ جب ماہِ ربیع الاول میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کا دن آئے اور عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سعید ساعتیں ہم پر طلوع ہوں تو دیکھنا ہے کہ ہم میں سے کون اپنے دلوں کو خوشیوں اور مسرتوں کا گہوارہ بنا لیتا ہے اور اپنے آپ کو ’’اَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا‘‘ میں شامل کر لیتا ہے۔ اگر اس کے برعکس میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کسی کا دل خوشی سے لبریز نہ ہو بلکہ دل میں ہچکچاہٹ، شکوک و شبہات اور کینے کی سی کیفیت پیدا ہو تو اسے چاہئے کہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرے۔ کیوں کہ یہ انتہائی خطرناک بیماری ہے اور اس سے اجتناب دولتِ ایمان کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لیوا اور اُمتی ہو کر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت پر خوشیاں نہ منائے۔

میلاد مبارک پر دلائل طلب کرنا اور اس کے عدمِ جواز پر بحث و مناظرہ کرنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے تقاضوں کے منافی ہے، محبت کبھی دلیل کی محتاج نہیں ہوتی۔ لہٰذا جب سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کا مبارک مہینہ آئے تو ایک مومن کی قلبی کیفیت یہ ہونی چاہیے کہ خوشیاں منانے کے لیے اُس کا دل بے قرار اور طبیعت بے چین ہو جائے، اسے یوں لگے کہ اس کے لیے کائنات کی ساری خوشیاں ہیچ ہیں اور میلادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی ہی حقیقی خوشی ہے۔ وہ محسوس کرے کہ اس دن کائنات کی ساری خوشیاں سمٹ کر اس کے دامن میں آگری ہیں۔ اس سے بڑھ کر اس کے لیے مسرت و شادمانی کا اور کون سا موقع ہوگا، وہ تو اس خوشی سے بڑھ کر کائنات میں کسی خوشی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔

جاری ہے-----
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 103335 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.