بلوچستان میں مقامی حکومتوں کا قیام
(Asim Kazim Roonjho, Lasbela)
ہمارے لیئے یہ بات باعث خُوش
آئند ہے کہ ایک صوبے بلوچستان میں ہی صحیح بلدیاتی اداروں کی تشکیل ممکن
ہوئی اور مقامی حکومتوں کے قیام کا ممکن ہوا۔مقامی حکومتیں کسی بھی جمہوری
معاشرے میں انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں کیونکہ شہریوں کے بنیادی مسائل
جیسے صحت وصفائی کے معاملات ، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، گندے پانی کی
نکاسی ،ماحول کا تحفظ ،معیاری خوراک کی فراہمی ونگرانی،قیمتوں کا کنٹرول ،گلیوں
اور سڑکوں کی تعمیر وترقی، نئی رہائشی بستیوں و سکیموں کی منصوبہ بندی ،
مکانات وعمارات کی تعمیر وکنٹرول ،ابتدائی تعلیم وشہری ٹرانسپورٹ کی فراہمی
جیسے لا تعداد شہری و میونسپل فریضوں کی ادائیگی بلدیاتی ادارے (مقامی
حکومتیں) ہی مرکزی حیثیت رکھتی ہیں ۔مقامی حکومتوں کا نظام بر صغیر میں
پہلی بار انگریز نے متعارف کرایا اور بڑے شہروں میں بلدیاتی ادارے قائم
کیئے بلوچستان میں سب سے پہلے کوئیٹہ میں بلدیاتی اداروں کا قیام عمل میں
آیا۔ قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلے مقامی حکومتوں کا نظام ایوب خان نے
متعارف کرایا جسے بنیادی جمہوریتوں کے نظام کا نام دیا گیا۔ 1972میں
ذوالفقارعلی بھٹو نے دوسرا ایکٹ پیپلز ایکٹ کے نام سے منظور کرایاگیا لیکن
1979تک اس نظام کے تحت الیکشن کی نوبت نہیں آئی۔ 1979میں ضیاءالحق نے دوسرا
نظام متعارف کرایا جس کے تحت چار بار الیکشن ہوئے اور مقامی حکومتوں کی
تشکیل ہوئی۔ پاکستان میں مقامی حکومتوں کی تاریخ شروع سے ہی تاریک ہے ہر
آنے والے حکمران نے اپنا ایک نیا تجربہ کیا اور مقامی حکومتوں کے کسی بھی
نظام کو جڑیں پکڑنے نہیں دیا گیا ۔ 1998میں حکمرانوں نے محصول چنگی اور ضلع
ٹیکس ختم کرکے سیلز ٹیکس لا کر دیا اورمقامی حکومتوں کو یہ یقین دہانی
کرائی کہ انھیں چنگی اور ضلع ٹیکس کے برابر گرانٹ ملے گی یوں مقامی حکومتوں
سے انکے مالیاتی ذرائع بھی چھین لیئے گئے۔ 2001 میں جنرل پرویز مشرف نے
ڈولیشن پلان کے نام سے نیا نظام متعارف کرایا جس میں سول سوسائٹی اور
معائرین کی آراء سے محروم اورپسے ہوئے طبقات (کسان ، خواتین ،اقلیتوں کی
نمائندگی کو ممکن بنایا گیا، اختیارات کو نچلی سطح پر منتقلی کی گئی اور
افسر شاہی کو منتخب نمائندوں کا جواب دہ بنایا گیا ، پرائیوٹ پبلک پارٹنر
شپ کے سٹیزن کمیونٹی بورڈ کا نظام متعارف کرایا گیا ۔ہر کونسل کو 25 فیصد
بجٹ انکے لیئے مختص کرنے کا پابند کرایا گیا ۔ یہ نظام ایک فوجی آمر کے دور
میں متعارف ہوا لیکن ایک ایسا نظام تھا جو کئی خامیوں اور ابہامات کے
باوجود ایک نظام تھا جس میں اختیارات عوام کے منتخب نمائندوں کے پاس تھے اس
نظام کو حقیقی صورت میں جڑیں پکڑنے میں بیروکریسی جیسے طاقت ور طبقے کی
رکاوٹ تھی اور کئی ابہامات اور خامیوں کو دور کرنے کی ضرورت تھی لیکن
2009میں منتخب عوامی حکومت نے اس نظام کو ختم کردیا اور 5سال سے ملک کے تین
صوبوں اور گلگت بلتستان میں مقامی حکومتوں کا قیام عمل میں نہیں آسکا یہاں
یہ بھی وضاحت ضروری ہے عدالت عظمیٰ کے حکم کے باوجود تین صوبے ابھی تک ٹال
مٹول سے کام لے رہے ہیں اور مقامی حکومتوں کے قیام سے کترا رہے ہیں ۔ صوبہ
بلوچستان کی حکومت نے عدالت عظمیٰ کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے بلوچستان میں
سابقہ حکومت میں متعارف کرائے گئے1979جیسے نظام میں کچھ ترامیم کرکے جیسے
تیسے بلدیاتی الیکشن ایک سال قبل دسمبر 2013میں کرا دیئے اور جیسے تیسے ہی
2014دسمبر میں چیئرمین کا نتخاب بھی عمل میں لا یا گیا اور اب مقامی
نمائندے اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کی تیاریاں کررہے ہیں ۔ اب عوام کی
نظریں اس وقت بلدیاتی اداروں اور منتخب مقامی نمائندوں پر ہے اور سوبائی
اور وفاقی حکومت کے اقدامات سے عوام نالاں ہے ۔ مقامی منتخب نمائندوں پر ہے
کہ وہ کس طرح اپنے اعتماد کو قائم رکھتے ہیں جو بلوچستان کی اس وقت صورتحال
ہے مایوسی ، امن وامان کی مخدوش صورتحال اور بے شمار مسائل کے سبب انکے
لیئے اس چیلنج سے نکلنا کافی مشکل ہوگا اور صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت
کو بھی چائیے ہوگا کہ وہ بلدیاتی اداروں کو گرانٹ فراہم کرے تاکہ وہ بنیادی
شہری مسائل پر توجہ دیں اور عوام کو ریلیف ملے ۔اب دیکھتے ہیں کہ نتائج کیا
سامنے آتے ہیں اور کیا پاکستان کے دوسرے صوبوں میں الیکشن ہو پاتے ہیں یا
نہیں۔ |
|