رحمۃ للعالمین ﷺ کی سیرت رب العالمین کی زبانی

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلیٰ آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔

قرآن کریم اﷲ تعالیٰ کا وہ عظیم الشان کلام ہے جو انسانوں کی ہدایت کے لئے خالق کائنات نے اپنے آخری رسول حضور اکرمﷺ پر نازل فرمایا۔ قرآن کریم اﷲ تعالیٰ کی وہ عظیم کتاب ہے جس کی حفاظت اﷲ تعالیٰ نے خود اپنے ذمہ لی ہے جیساکہ اﷲ تعالیٰ کا فیصلہ قرآن کریم میں موجود ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ (سورۃ الحجر آیت ۹) یہ ذکر (یعنی قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

قرآن کریم کی سب سے پہلی جو آیتیں حضور اکرمﷺ پر غار حرا میں نازل ہوئیں وہ سورۂ علق کی ابتدائی آیات ہیں: اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمْ پڑھو اپنے اس پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو منجمد خون سے پیدا کیا۔ پڑھو، اور تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کریم ہے۔ اس پہلی وحی کے نزول کے بعد تقریباً تین سال تک وحی کے نزول کا سلسلہ بند رہا۔ تین سال کے بعد وہی فرشتہ جو غار حرا میں آیا تھا آپ ﷺ کے پاس آیا اور سورۃ المدثر کی ابتدائی چند آیات آپ ﷺ پر نازل فرمائیں: یَا اَیُّہَا الْمُدَثِّرْ۔ قُمْ فَاَنْذِرْ۔ وَرَبَّکَ فَکِبِّرْ۔ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ۔ والرُّجْزَ فَاہْجُرْ۔ اے کپڑے میں لپٹنے والے۔ اٹھو اور لوگوں کو خبردار کرو۔ اور اپنے پروردگار کی تکبیر کہو۔ اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو۔ اور گندگی سے کنارہ کرلو۔ اس کے بعد حضور اکرم ﷺ کی وفات تک وحی کے نزول کا تدریجی سلسلہ جاری رہا۔

خالق کائنات نے اپنے حبیب حضور اکرم ﷺ کو قرآن کریم میں عمومی طور پر یَا اَیہَا النَّبِیُّ، یَا اَیُّہَا الرَّسُوْلُ، یَا اَیُّہَا الْمُدِّثِر اور یَا اَیُّہَا الْمُزِّمِّلُ جیسی صفات سے خطاب فرمایا ہے، حالانکہ دیگر انبیاء کرام کو ان کے نام سے بھی خطاب فرمایا ہے۔ صرف چار جگہوں پر اسم مبارک محمد اور ایک جگہ اسم مبارک احمد قرآن کریم میں آیا ہے۔

قرآن کریم میں چار جگہ حضور اکرم ﷺ کے نام (محمد) کا ذکر:
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اور محمد ایک رسول ہی تو ہیں، ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ (سورۃ آل عمران: ۱۴۴)

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِینَ (مسلمانو!) محمد تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اﷲ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں۔ (سورۃ الاحزاب: ۴۰)

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ وَاٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّھُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّھِمْ کَفَّرَ عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْ وَاَصْلَحَ بَالَھُمْ اور جو لوگ ایمان لے آئے ہیں ، اور انہوں نے نیک عمل کئے ہیں، اور ہر اُس بات کو دل سے مانا ہے جو محمد پر نازل کی گئی ہے،اور وہی حق ہے جو ان کے پروردگار کی طرف سے آیا ہے، اﷲ نے ان کی برائیوں کو معاف کردیا ہے اور ان کی حالت سنوار دی ہے۔ (سورۃ محمد : ۲)

مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ محمد اﷲ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے مقابلہ میں سخت ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے لئے رحم دل ہیں۔ ( سورۃ الفتح: ۲۹)
قرآن کریم میں ایک جگہ حضور اکرم ﷺ کے نام (احمد) کا ذکر:
وَاِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ ٰیبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْراۃِ وَ مُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہٗٓ اَحْمَدُ اور وہ وقت یاد کروجب عیسیٰ بن مریم نے کہا تھا کہ: اے بنو اسرائیل! میں تمہارے پاس اﷲ کا ایسا پیغمبر بن کر آیا ہوں کہ مجھ سے پہلے جو تورات (نازل ہوئی) تھی ، میں اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اُس رسول کی خوشخبری دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا، جس کا نام احمد ہے۔ (سورۃ الصف: ۶) معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے زمانہ ہی میں حضور اکرم ﷺ کے نبی ہونے کی تصدیق فرمادی تھی۔

حضور اکرم ﷺ کا عالی مقام ومرتبہ
اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ایسا عظیم الشان مقام عطا فرمایا ہے کہ کوئی بشر حتی کہ نبی یا رسول بھی اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا، چنانچہ اﷲ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے: اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ۔ وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ۔ الَّذِیْ ٓ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ۔ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ (اے پیغمبر! ) کیا ہم نے تمہاری خاطر تمہارا سینہ کھول نہیں دیا؟ اور ہم نے تم سے تمہارا وہ بوجھ اتاردیا ہے، جس نے تمہاری کمر توڑ رکھی تھی۔ اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارے تذکرے کو اونچا مقام عطا کردیا ہے۔ (سورۃ الشرح: ۱۔ ۴) دنیا میں کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جس میں ہزاروں مسجدوں کے مناروں سے اﷲ کی وحدانیت کی شہادت کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کے نبی ہونے کی شہادت ہر وقت نہ دی جاتی ہو اور لاکھوں مسلمان نبی اکرم ﷺ پر درود نہ بھیجتے ہوں۔ غرضیکہ اﷲ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ حضور اکرم ﷺ کا نام نامی اس دنیا میں لکھا، بولا، پڑھا اور سنا جاتا ہے۔

حضور اکرم ﷺ صاحب حوض کوثر
خالق کائنات نے صرف دنیا ہی میں نہیں بلکہ آپ ﷺ کو حوض کوثر عطا فرماکر قیامت کے روز بھی ایسے بلند واعلیٰ مقام سے سرفراز فرمایا ہے جو صرف اور صرف حضور اکرم ﷺ کو حاصل ہے، اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اِنَّا ٓاَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ (اے پیغمبر!) یقین جانو ہم نے تمہیں کوثر عطا کردی ہے۔ لہٰذا تم اپنے پروردگار (کی خوشنودی) کے لئے نمازپڑھو اور قربانی کرو۔ یقین جانو تمہارا دشمن ہی وہ ہے جس کی جڑ کٹی ہوئی ہے یعنی جس کی نسل آگے نہ چلے گی ۔ (سورۃ الکوثر: ۱۔۳) کوثر جنت کے اُس حوض کانام ہے جو حضور اکرمﷺ کے تصرف میں دی جائے گی اور آپ کی امت کے لوگ قیامت کے دن اس سے سیراب ہوں گے۔ حوض پر رکھے ہوئے برتن آسمان کے ستاروں کے مانند کثرت سے ہوں گے۔

حضور اکرم ﷺ پر درود وسلام
اﷲ تعالیٰ نے نہ صرف زمین میں بلکہ آسمانوں پر بھی اپنے نبی کو بلند مقام سے نوازا ہے چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا اﷲ تعالیٰ نبی پر رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ اور فرشتے نبی کے لئے دعائے رحمت کرتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی نبی پر درود وسلام بھیجا کرو۔ (سورۃ الاحزاب: ۵۶) اس آیت میں نبی اکرم ﷺ کے اس مقام کا بیان ہے جو آسمانوں میں آپ ﷺ کو حاصل ہے اور وہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرشتوں میں آپ ﷺ کا ذکرفرماتا ہے اور آپ ﷺ پر رحمتیں بھیجتا ہے۔ اور فرشتے بھی آپ ﷺ کی بلندی درجات کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ اﷲ تعالیٰ نے زمین والوں کو حکم دیا کہ وہ بھی آپ ﷺ پر درود وسلام بھیجا کریں۔ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا، اﷲ تعالیٰ اس پر ۱۰ مرتبہ رحمتیں نازل فرمائے گا۔ (مسلم)

حضور اکرم ﷺ کا فرمان اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے
کیسا عالی شان مقام حضور اکرمﷺ کو ملا کہ آپ کا کلام اﷲ تعالیٰ کے حکم سے ہی ہوتا تھا، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ خود ارشاد فرماتا ہے: وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی۔ اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی اور یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے، یہ تو خالص وحی ہے جو ان کے پاس بھیجی جاتی ہے۔ (سورۃ النجم: ۳۔۴)

حضور اکرم ﷺ کی لوگوں کی ہدایت کی فکر
حضور اکرمﷺ لوگوں کی ہدایت کی اس قدر فکر فرماتے کہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ (اے پیغمبر!) شاید تم اس غم میں اپنی جان ہلاک کئے جارہے ہو کہ یہ لوگ ایمان (کیوں) نہیں لاتے! (سورۃ الشعراء: ۳) ۔ ہمارے نبی کافروں اور مشرکوں کو ایمان میں داخل کرنے کی دن رات فکر فرماتے اور اس کے لئے ہر ممکن کوشش فرماتے، لیکن آج بعض مسلمان اپنے ہی بھائیوں کو ان کی بعض غلطیوں کی وجہ سے ان کو کافر اور مشرک قرار دینے میں بڑی عجلت سے کام لیتے ہیں۔

حضور اکرم ﷺ نبی رحمت بناکر بھیجے گئے
رب العالمین نے اپنے نبی کو رحمۃ للمسلمین یا رحمۃ للعرب نہیں بنایا بلکہ رحمۃ للعالمین بنایا ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے: وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَاور (اے پیغمبر!) ہم نے تمہیں سارے جہانوں کے لئے رحمت ہی رحمت بناکر بھیجا ہے۔ (سورۃ الانبیاء: ۱۰۷) جس نبی کو سارے جہاں کے لئے رحمت ہی رحمت بناکر بھیجا گیا ہو، اس نبی کی تعلیمات میں دہشت گردی کیسے مل سکتی ہے؟ آپ ﷺ نے ہمیشہ امن وامان کو قائم کرنے کی ہی تعلیمات دی ہیں۔

حضور اکرم ﷺ خاتم النبیین ہیں
آپﷺ نبی ہونے کے ساتھ خاتم النبین بھی ہیں، حضرت آدم علیہ السلام سے جاری نبوت کا سلسلہ آپﷺ پر ختم ہوگیا، یعنی اب کوئی نئی شریعت نہیں آئے گی، اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِینَ (مسلمانو!) محمد تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اﷲ کے رسول ہیں، اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں۔ (سورۃ الاحزاب: ۴۰) حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں آخری نبی ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)

حضور اکرم ﷺ کو عالمی رسالت سے نوازا گیا
جیساکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان کیا گیا کہ حضور اکرمﷺ آخری نبی ہیں، یعنی آپ کو قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے نبی بنایا گیا، غرضیکہ آپﷺ کو عالمی رسالت سے نوازا گیا، متعدد آیا ت میں اﷲ تعالیٰ نے آپ کی عالمی رسالت کو بیان کیا ہے، یہاں صرف دو آیات پیش ہیں: قُلْ ٰٓیاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ(اے رسول! ان سے) کہو کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اُس اﷲ کا بھیجا ہوا رسول ہوں جس کے قبضے میں تمام آسمانوں اور زمین کی سلطنت ہے۔ (سورۃ الاعراف: ۱۵۸) اسی طرح اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّاکَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا اور (اے پیغمبر!) ہم نے تمہیں سارے ہی انسانوں کے لئے ایسا رسول بناکر بھیجا ہے جو خوشخبری بھی سنائے اور خبردار بھی کرے۔ (سورۃ سبا: ۲۸)

حضور اکرم ﷺ کا اسوۂ حسنہ بنی نوع انسان کے لئے
چونکہ آپﷺ کو عالمی رسالت سے نوازا گیا ہے، اس لئے آپ کی زندگی قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے نمونہ بنائی گئی، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ بیان فرماتا ہے: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لئے رسول اﷲ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے ہر اُس شخص کے لئے جو اﷲ سے اور یوم آخرت سے امید رکھتا ہو۔ اور کثرت سے اﷲ کا ذکر کرتا ہو۔ (سورۃ الاحزاب ۲۱) حضور اکرم ﷺ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے نمونہ ہے، لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم حضور اکرم ﷺ کی سنتوں پر عمل کریں۔ آج ہم سنتوں پر یہ کہہ کر عمل نہیں کرتے کہ وہ فرض نہیں ہیں۔ سنت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم اس پر عمل نہ کریں بلکہ ہمیں اپنے نبی کی سنتوں پر قربان ہوجانا چاہئے۔ مگر افسوس وفکر کی بات ہے کہ آج ہمارے بعض بھائی سنت پر عمل کرنا تو درکنار بعض مرتبہ سنت کا مذاق اڑاجاتے ہیں۔یاد رکھیں کہ حضور اکرم ﷺ کی سنت کے متعلق مذاق کرنا انسان کی ہلاکت وبربادی کا سبب ہے۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے اپنے حبیب محمد مصطفی ﷺ کی تمام سنتوں کو آج بھی زندہ کررکھا ہے، اگر اجتماعی طور پر نہیں تو انفرادی طور پر ضرور عمل ہورہا ہے۔ داڑھی رکھنا نہ صرف ہمارے نبی کی سنت ہے بلکہ نبی کے اقوال وافعال کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ داڑھی رکھنا ضروری ہے مگر آج بعض ہمارے بھائی داڑھی رکھنا تو درکنار بعض مرتبہ داڑھی کا مذاق اڑاکر اپنی ہلاکت وبربادی کا سامان مہیا کرتے ہیں۔

حضور اکرم ﷺ کی اتباع
اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیبﷺ کے اسوہ میں دونوں جہاں کی کامیابی وکامرانی مضمر رکھی ہے، لہٰذا اﷲ تعالیٰ نے آپﷺ کی اتباع کو لازم قرار دیا، فرمان الہٰی ہے: قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دوکہ اگر تم اﷲ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اﷲ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ (سورۃ آل عمران: ۳۱) اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سینکڑوں آیات میں اپنی اطاعت کے ساتھ رسول کی اطاعت کا بھی حکم دیا ہے۔ کہیں فرمایا: ﴿اَطِےْعُوا اللّٰہَ وَاَطِےْعُوا الرَّسُوْلَ﴾، کہیں فرمایا: ﴿اَطِےْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ﴾، کسی جگہ ارشاد ہے: ﴿اَطِےْعُوا اللّٰہَ والرَّسُوْلَ﴾ اور کسی آیت میں ارشاد ہے: ﴿اَطِےْعُوا الرَّسُوْلَ﴾۔ ان سب جگہوں پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بندوں سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ فرمانِ الٰہی کی تعمیل کرو اور ارشاد نبوی ﷺکی اطاعت کرو۔ غرضیکہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر یہ بات واضح طور پر بیان کردی کہ اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ رسول اﷲ ﷺ کی اطاعت بھی ضروری ہے اور اﷲ تعالیٰ کی اطاعت رسول اکرمﷺ کی اطاعت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔

قرآن کے مفسر اول: حضور اکرم ﷺ
اﷲ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے: وَاَنْزَلْنَا اِلَےْکَ الذِّکْرَ لِتُبَےِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَےْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ ےَتَفَکَّرُوْنَ یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ لوگوں کی جانب جو حکم نازل فرمایا گیا ہے، آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں، شاید کہ وہ غوروفکر کریں۔ (سورۃ النحل: ۴۴) اسی طرح فرمان الٰہی ہے: وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَےْکَ الْکِتَابَ اِلَّا لِتُبَےِّنَ لَہُمُ الَّذِیْ اخْتَلَفُوا فِےْہِ (سورۃ النحل ۶۴) یہ کتاب ہم نے آپ ﷺ پر اس لئے اتاری ہے تاکہ آپ ﷺ ان کے لئے ہر اس چیز کو واضح کردیں جس میں وہ اختلاف کررہے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے ان دونوں آیات میں واضح طور پر بیان فرمادیا کہ قرآن کریم کے مفسر اول حضور اکرم ﷺ ہیں اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نبی اکرم ﷺ پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی کہ آپ ﷺامت مسلمہ کے سامنے قرآن کریم کے احکام ومسائل کھول کھول کر بیان کریں۔ اور ہمارا یہ ایمان ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے اپنے اقوال وافعال کے ذریعہ قرآن کریم کے احکام ومسائل بیان کرنے کی ذمہ داری بحسن خوبی انجام دی۔ صحابۂ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے ذریعہ حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال یعنی حدیث نبوی کے ذخیرہ سے قرآن کریم کی پہلی اہم اور بنیادی تفسیر انتہائی قابل اعتماد ذرائع سے امت مسلمہ کوپہونچی ہے، لہذا قرآن فہمی حدیث کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔

تاریخ کا سب سے لمبا سفر حضور اکرم ﷺ کے نام
تاریخ کے سب سے لمبے سفر ( اسراء ومعراج) کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں بیان فرمایا ہے جس میں آپﷺ کو آسمانوں کی سیر کرائی گئی۔ مسجد حرام (مکہ مکرمہ) سے مسجد اقصیٰ کے سفر ﴿سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَےْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصیٰ﴾ کو اسراء کہتے ہیں۔ اور یہاں سے جو سفر آسمانوں کی طرف ہوا اس کا نام معراج ہے۔اس واقعہ کا ذکر سورۂ نجم کی آیات میں بھی ہے: ﴿ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی، فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی، فَاَوْحٰی اِلَی عَبْدِہٖ مَآ اَوْحٰی﴾۔ سورۃ النجم کی آیات ۱۳۔۱۸ میں وضاحت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے (اس موقع پر) بڑی بڑی نشانیاں ملاحظہ فرمائیں: ﴿وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرَی، عِنْدَ سِدْرَۃَ الْمُنْتَہٰی، عِنْدَہَا جَنَّۃُ الْماْوٰی، اِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشیٰ، مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی، لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْریٰ﴾ ۔

حضور اکرم ﷺ کی نماز
اﷲ تعالیٰ کا پیار بھرا خطاب حضور اکرم ﷺسے ہے کہ آپ رات کے بڑے حصہ میں نماز تہجد پڑھا کریں: ٰٓیاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ۔ قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلاً۔ نِّصْفَہٗٓ اَوِانْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلاً۔ اَوْزِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلاً اے چادر میں لپٹنے والے! رات کا تھوڑا حصہ چھوڑکر باقی رات میں (عبادت کے لئے) کھڑے ہوجایا کرو۔ رات کا آدھا حصہ یا آدھے سے کچھ کم ،یا اُس سے کچھ زیادہ۔ اور قرآن کی تلاوت اطمینان سے صاف صاف کیا کرو۔ ( سورۃ المزمل: ۱۔۴) اسی طرح سورۃ المزمل کی کی آخری آیت میں اﷲ رب العزت فرماتا ہے: اِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْمُ اَدْنٰی مِنْ ثُلُثَیِ الَّیْلِ وَنِصْفَہٗ وَثُلُثَہٗ وَطَآئِفَۃ مِّنَ الَّذِیْنَ مَعَکَ (اے پیغمبر!) تمہارا پروردگار جانتا ہے کہ تم دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات (تہجد کی نماز کے لئے) کھڑے ہوتے ہو اور تمہارے ساتھیوں (صحابۂ کرام) میں سے بھی ایک جماعت (ایسا ہی کرتی ہے)۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺرات کو قیام فرماتے یعنی نماز تہجد ادا کرتے یہاں تک کہ آپ کے پاؤں مبارک میں ورم آجاتا۔(بخاری) صرف ایک دو گھنٹے نماز پڑھنے سے پیروں میں ورم نہیں آتا ہے بلکہ رات کے ایک بڑے حصہ میں اﷲ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونے، طویل رکوع اور سجدہ کرنے کی وجہ سے ورم آتا ہے، چنانچہ سورۃ البقرہ اور سورۃ آل عمران جیسی لمبی لمبی سورتیں آپ ﷺایک رکعت میں پڑھا کرتے تھے اور وہ بھی بہت اطمینان وسکون کے ساتھ۔

نماز تہجد کے علاوہ آپﷺ پانچ فرض نمازیں بھی خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرتے تھے۔آپ ﷺ سنن ونوافل، نماز اشراق، نماز چاشت، تحیۃ الوضوء اور تحیۃ المسجد کا بھی اہتمام فرماتے اور پھر خاص خاص مواقع پر نماز ہی کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ سے رجوع فرماتے۔ سورج گرہن یا چاند گرہن ہوتا تو مسجد تشریف لے جاکر نماز میں مشغول ہوجاتے۔ کوئی پریشانی یا تکلیف پہنچتی تو مسجد کا رخ کرتے۔ سفر سے واپسی ہوتی تو پہلے مسجد تشریف لے جاکر نماز ادا کرتے۔ اور آپ ﷺاطمینان وسکون کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے۔

حضور اکرم ﷺ کے اخلاق
اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں اپنے نبی کے اخلاق کے متعلق فرماتا ہے: وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ اور یقینا تم اخلاق کے اعلیٰ درجہ پر ہو۔ (سورۃ القلم: ۴) حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے جب آپ ﷺ کے اخلاق کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنُ یعنی آپ ﷺ کا اخلاق قرآنی تعلیمات کے عین مطابق تھا۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم) حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الاَخْلَاقِمجھے بہترین اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا کیا گیا ہے۔ (مسند احمد) حضرت انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دس برس حضور اکرم ﷺ کی خدمت کی، مجھے کبھی کسی بات پر اف تک بھی نہیں فرمایا، نہ کسی کام کے کرنے پر یہ فرمایا کہ کیوں کیا؟ اور اسی طرح نہ کبھی کسی کام کے نہ کرنے پر یہ فرمایا کہ کیوں نہیں کیا؟ حضور اکرم ﷺ اخلاق میں تمام دنیا سے بہتر تھے، نیز خلقت کے اعتبار سے بھی آپ بہت خوبصورت تھے۔ میں نے کبھی کوئی ریشمی کپڑا یا خالص ریشم اور نرم چیز ایسی نہیں چھوئی جو حضور ا کرم ﷺ کی بابرکت ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو۔ او رمیں نے کبھی کسی قسم کا مشک یا کوئی عطر حضور اکرم ﷺ کے پسینہ کی خوشبو سے زیادہ خوشبودار نہیں سونگھا۔ (ترمذی) حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اﷲ کے راستہ میں جہاد کے علاوہ کبھی کسی کو نہیں مارا، نہ کبھی کسی خادم کو نہ کسی عورت (بیوی باندی وغیرہ) کو۔ (ترمذی) حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نہ تو طبعاً فحش گو تھے نہ بتکلف فحش بات فرماتے تھے، نہ بازاروں میں خلافِ وقار باتیں کرتے تھے۔ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے بلکہ معاف فرمادیتے تھے اور اس کا تذکرہ بھی نہیں فرماتے تھے۔ (ترمذی) حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے تین باتوں سے اپنے آپ کو بالکل علیحدہ فرما رکھا تھا: جھگڑے سے، تکبر سے اور بیکار باتوں سے۔ اور تین باتوں سے لوگوں کو بچا رکھا تھا۔ نہ کسی کی مذمت کرتے، نہ کسی کو عیب لگاتے اور نہ ہی کسی کے عیوب تلاش کرتے تھے۔ (ترمذی) ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے نبی اکرم ﷺ کے اخلاق حمیدہ کو پڑھیں اور ان کو اپنی زندگی میں لانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔

حضور اکرم ﷺ کی گھریلو زندگی
قرآن کریم روز قیامت تک کے لئے لوگوں سے مخاطب ہے: ﴿وَلَآ اَنْ تَنْکِحُوآ اَزْوَاجَہُ مِنْ بَعْدِہِ اَبَداً﴾ (سورۃالاحزاب: ۵۳) اے ایمان والو! تمہارے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے بعد ان کی ازواج مطہرات میں سے کسی سے نکاح کرو۔ یعنی ازواج مطہرات (نبی اکرم ﷺ کی بیویاں) تمام ایمان والوں کے لئے ماں (ام المؤمنین) کا درجہ رکھتی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے چند نکاح فرمائے۔ ان میں سے صرف حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کنواری تھیں، باقی سب بیوہ یا مطلقہ تھیں۔ نبی اکرم ﷺ نے سب سے پہلا نکاح ۲۵ سال کی عمرمیں حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا سے کیا۔ حضرت خدیجہ کی عمر نکاح کے وقت ۴۰ سال تھی، یعنی حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا آپ ﷺ سے عمر میں ۱۵ سال بڑی تھیں۔ نیز وہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نکاح کرنے سے پہلے دو شادیاں کرچکی تھیں اور ان کے پہلے شوہروں سے بچے بھی تھے۔

جب نبی اکرم ﷺ کی عمر ۵۰ سال کی ہوئی تو حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کا انتقال ہوگیا۔ اس طرح نبی اکرم ﷺ نے اپنی پوری جوانی (۲۵ سے ۵۰ سال کی عمر) صرف ایک بیوہ عورت حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے ساتھ گزاردی۔

حضرت سودہ رضی اﷲ عنہا جو اپنے شوہر کے سا تھ مسلمان ہوئی تھیں، ان کی ماں بھی مسلمان ہوگئی تھیں، ماں اور شوہر کے ساتھ ہجرت کرکے حبشہ چلی گئیں تھیں۔ وہاں ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ جب اُن کا کوئی بظاہر دنیاوی سہارا نہ رہا تو نبی اکرم ﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی وفات کے بعد نبوت کے دسویں سال ان سے نکاح کرلیا ۔ اُس وقت آپ ﷺ کی عمر ۵۰ سال اور حضرت سودہ رضی اﷲ عنہا کی عمر ۵۵ سال تھی۔ اور یہ اسلام میں سب سے پہلی بیوہ عورت تھیں۔ حضرت خدیجہ کے انتقال کے بعد تقریباً تین چار سال تک صرف حضرت سودہ رضی اﷲ عنہا ہی آپ ﷺ کے ساتھ رہیں کیونکہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی رخصتی نکاح کے تین یا چار سال بعد مدینہ منورہ میں ہوئی۔ غرض تقریباً ۵۵ سال کی عمر تک آپ ﷺکے ساتھ صرف ایک ہی عورت رہی اور وہ بھی بیوہ ۔

اس کے بعد آپ ﷺ نے چندنکاح کئے۔ یہ نکاح کسی شہوت کو پوری کرنے کے لئے نہیں کئے کہ شہوت ۵۰ ۔۵۵سال کی عمر کے بعد اچانک ظاہر ہوگئی ہو۔ بلکہ چند سیاسی ودینی واجتماعی اسباب کو سامنے رکھ کر آپ ﷺ نے یہ نکاح کئے۔اگر شہوت پوری کرنے کے لئے آپ ﷺ نکاح فرماتے تو کنواری لڑکیوں سے شادی کرتے۔ نیز حدیث میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے کسی عورت سے شادی نہیں کی اور نہ کسی بیٹی کا نکاح کرایا مگر اﷲ کی طرف سے حضرت جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر آئے۔

خلاصۂ کلام:
اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ اپنے حبیب محمد مصطفیﷺ کے اوصاف حمیدہ بیان فرمائے ہیں۔ آپ ﷺ نہ صرف اپنے زمانہ کے لوگوں کے لئے بلکہ قیامت تک آنے والے تما م انسانوں کے لئے نبی ورسول بناکر بھیجے گئے ہیں، اور نبوت کا سلسلہ آپﷺ پر ختم کردیا گیاہے، یعنی اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا، یہی شریعت محمدیہ (یعنی علوم قرآن وحدیث) کل قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے مشعل راہ ہے ۔ غرضیکہ آپﷺ کو عالمی رسالت سے نوازا گیا ہے۔ اتنے عظیم وبلند مقام پر فائز ہونے کے باوجود آپ کو مختلف طریقوں سے ستایا گیا، آپﷺ کی زندگی کا بیشتر حصہ تکلیفوں میں گزرا، مگر آپ ﷺ نے کبھی صبر کا دامن نہیں چھوڑا، آپ ﷺ رسالت کی اہم ذمہ داری کو استقامت کے ساتھ بحسن خوبی انجام دیتے رہے۔ آپﷺ کی عبادات، معاملات، اخلاق اور معاشرت سارے انسانوں کے لئے نمونہ ہے۔ ہمیں حضور اکرمﷺ کے اسوہ سے یہ سبق لینا چاہئے کہ گھریلو یا ملکی یا عالمی سطح پر جیسے بھی حالات ہمارے اوپر آئیں، ہم ان پر صبر کریں اور اپنے نبی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اﷲ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کریں۔ ہم اپنے نبی کے طریقہ پر اسی وقت زندگی گزار سکتے ہیں جب ہمیں اپنے نبی کی سیرت معلوم ہو، لہٰذا ہم خود بھی سیرت کی کتابوں کو پڑھیں اور اپنے بچوں کو بھی سیرت نبوی پڑھانے کا اہتمام کریں۔

اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنے حبیب محمد مصطفی ﷺ کے نقش قدم پر زندگی گزارنے والا بنائے، آمین۔
Muhammad Najeeb Qasmi
About the Author: Muhammad Najeeb Qasmi Read More Articles by Muhammad Najeeb Qasmi: 25 Articles with 30929 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.