فکر مقبول سے تحتہ دار تک

30 سال قبل ۱۱ فروری کونام نہاد جمہوریت کے دعوئیدار بھارت نے ایک بے گناہ معصوم اور مظلوم کشمیری کو اپنی دھرتی سے محبت کے جرم میں بدنامِِ زمانہ تہاڑ جیل میں دار پر لٹکا دیا۔دوہرا ظلم تا حال شہید کے جسدِ خاکی کو بھی جیل کے اندر ہی قید رکھا گیا ہے۔آزادی کے اس دیوانے نے جدوجہدِ آزادی کے سفر میں جہاں ظاہری دشمنوں کے ظلم کو بردشت کیا وہاں دوست نما دشمنوں نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ پہلی گرفتاری اور سزائے موت کا حکم سنائے جانے پر جب مقبول بٹ انڈیا کی تہاڑ جیل توڑ کر فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تو 16دن پر مشتعمل برف پوش پہاڑوں کا پیدل سفرطے کر کے تھکے ہارے اور جلے سڑے پاوٗں کے ساتھ پاکستانی مقبوصہ کشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد کی حدود میں پہنچے تو یہاں پاکستان کی قابض فورسز نے انہیں گرفتار کر لیا۔بجائے اس کے کہ د ھرتی کے اس عظیم سپوت کا استقبال کیا جاتااور تحفظ فراہم کیا جاتا ہر طرح کے تشدد کا نشان بنایاگیا۔مقبول بٹ کو جب اغیار کے ساتھ اپنوں کے اس ظلم کا سامنا کرنا پڑا تو پھر بے ساختہ بول پڑے کہ کاش جو پھندا ہم نے بھارت کے لیے تیار کیا تھا وہ پاکستان نے اپنے گلے میں ڈال لیا۔ کشمیریوں کے طویل احتجاج پرپاکستانی فورسز بالآخر انہیں رہا کرنے پر مجبور ہوئی۔رہائی کے بعد مقبول بٹ نے دوبارہ اپنی اُدھوری جدوجہد کو منظم کرنے کے لیے بھارتی مقبوصہ کشمیر کا رخ کیا۔اس کی بار شہادت ان کا مقدر ٹھہری۔دشمن نے مقبول کو پھانسی دے دی تو کیا ہوا یہی تو وہ خون تھا جس نے تحریکِ آزادی کی آبیاری کرنی تھی۔مقبول بٹ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے آزادی اپنی قیمت پوری اور پیشگی مانگتی ہے۔ خلوص کی پختگی ،ہمت،جذبے ،خوداعتمادی اور کامل یقین کے ساتھ مقبول بٹ نے دنیا کی تیں بڑی طاقتوں کی غلام84471 مربع میل پر پھیلی ہوئی تقریبا2کروڑکشمیری قوم کی آزادی کے لیے جس راستے کا کھوج لگایا وقت کے خداوٗں ،نمرودو ں،حاکموں اور ظالموں کے گمان میں بھی نہیں تھا یہ کتنی عظمتوں اور شہادتوں والاراستہ ہے۔قوم کی کتنی نسلوں کا بچہ بچہ بلا تفریق و بلا تخصیص اس رہ پر گامزن ہو گا۔اشفاق مجید وانی شبیر صدیقی بشارت رضا ،افضل گرو ،جمیل چوھدری ، فہیم اکرم اور ان جیسے ہزاروں، قلم ایک وقت میں ایک ساتھ سب کا ذکر کر سکے یہ ممکن نہیں اس کارواں کا حصہ بنیں گے۔انسانی روپ میں انسانیت کے دشمنوں نے مقبول بٹ کے جس نام اور للکارکو جیل میں دبانا چاہا آج اس نام سے دنیا بھر کے اخبار اور کتابیں اپنا پیٹ بھرتی ہیں اور للکارسے سوشل و الیکٹریکل میڈیا رونق حاصل کرتا ہے۔موت نے بھی مقبول کا استقبال کیا۔مقبول آزادی کا نصاب بنے اورتاریخ انہیں یاد رکھنے پر مجبور ہوئی ۔قوم نے خوابِ مقبول کو اپنی سوچوں کا محور بنایا ۔مقبول بٹ نے اس قدر مستقل مزاجی سے دشمن کے ہر وار کا مقابلہ کیا کہ ظلم کا ہر وار بٹ کی انقلابی دشت کے ساتھ ٹکرا کر پاش پاش ہوا۔۔اس عظیم کشمیری نے انسانی حقوق، مساوات اور جمہوریت کے برائے نام عالمی ٹھیکداروں پر باور کر دیا کہُ امڈتے جذبوں اور بے تاب دلوں کو کوئی سامراج یا ظالم عظیم مقاصد کی جدوجہد سے نہیں روک سکتا۔ یہی وجہ ہے کشمیر ی66سال سے بے سروسامانی کے عالم میں اپنے بنیادی حقِ آزادی کے لیے تین ایٹمی قوتوں سے برسرپیکار ہیں لیکن شکست قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی ان کا جذبہِ آزادی سرد ہواالبتہ دشمن آئے روز اپنی شکست کے قریب ہوتا جا رہا ہے۔سب سے اہم بات کشمیریوں نے ہر دور میں اپنی جدوجہد کو عالمی قوانین کے عین مطابق جاری رکھا ہے۔جب اقوامِ متحدہ نے غلام قوموں کواپنی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کا حق دے رکھا تھا ۔تب کشمیروں نے اس کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔اور اب جبکہ دشت گردی کے پیشِ نظر پرامن جدوجہد کو ترجیی دی جا رہی ہے۔تواس عمل میں بھی کشمیریوں نے سب سے پہلے بڑے پیمانے پر پرامن احتجاج کر کے دنیا کو امن کا پیغام دیا۔کشمیریوں کو ایک دن آزادی ضرور ملنی ہے۔ہندوستان و پاکستان کی اندونی ریاستیں تقسیم کی بڑھ رہی ہیں۔دونوں ممالک اپنی عوام پر توجہ دیں۔کشمیریوں نے کل کسی کی غلامی کو مانا ہے نہ کل مانے گے۔ہند وپاک کے حکمران کشمیر کو فتح کرنے کے نام پر اپنی عوام کو بیوقوف بنانے کے بجائے ان کی خوش حالی کے لیے اپنے وسائل استعمال کریں۔کیونکہ کشمیری ایک پرامن اور خوشحال برصغیر کے خواہشمند ہیں۔ جو قوتیں ایک مقبول بٹ کو فتح نہیں کر سکی وہ اس عظیم شہید کی قوم کو فتح کرنے میں کیسے کامیاب ہوسکتی ہیں۔ تب سے اب تک اس قافلہ کے عظیم شہداء کے صدقے کشمیری اپنی منزل ضرور حاصل کر لیں گے ۔مقصد اور منزل جتنے عظیم او ربڑے ہوں جدوجہد بھی اتنی ہی کرنی پڑتی ہے اور وقت بھی اتنا ہی زیادہ لگتا ہے۔اور نہ ہی کشمیری کامیابی تک اپنی مقصد اورمنزل سے آئیں گے۔

Munir Sabir
About the Author: Munir Sabir Read More Articles by Munir Sabir: 2 Articles with 1611 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.