گورنر پنجاب کے بیٹے کی شادی کے
موقع پر وزیر داخلہ رحمن ملک نے لیاقت بلوچ سے گلہ کیا ہے کہ ان سے بغیر
کسی تحقیق کے وزارت داخلہ سے استعفیٰ طلب کیا جارہا ہے۔ لیاقت بلوچ نے ان
سے کہا کہ امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے پاکستان میں بلیک واٹر کی
موجودگی کی خود تصدیق کر دی ہے تو مزید کس تحقیق کی ضرورت ہے جبکہ وزیر
اطلاعات قمر الزمان کائرہ نے بھی بیان دیا ہے کہ حکومت کا یہ مؤقف کبھی
نہیں رہا کہ بلیک واٹر پاکستان میں موجود نہیں ہے تو حقیقت بالکل عیاں ہو
گئی ہے۔ اس موقع پر وزیر داخلہ رحمن ملک نے وہاں موجود سینئر ایڈیٹرز اور
سیاستدانوں کی موجودگی میں کہا کہ میں اپنے مؤقف پر قائم ہوں پاکستان میں
بلیک واٹر تنظیم کا کوئی آپریشن یا سرگرمی نہیں ہے۔ میڈیا کے ایک خاص حصہ
نے امریکہ کے وزیر دفاع سے مہارت اور چالاکی سے سوال کیا اور اپنے مطلب کا
جواب نشر کر دیا۔ وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے اصرار کر کے کہا کہ میرا واضح
اور دو ٹوک مؤقف ہے کہ پاکستان میں بلیک واٹر تنظیم کی کوئی سرگرمی نہیں ہے
اگر یہ ثابت ہو جائے تو وہ اپنے اعلان کے مطابق وزارت سے استعفیٰ دے دیں گے
۔
امریکی وزیر دفاع اور ہمارے وزیر داخلہ دونوں بڑے بھولے ہیں۔ جو اخبار
والوں کے جھانسے میں آجاتے ہیں۔ حالانکہ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز تو چیخ
چیخ کر کہہ رہا ہے کہ امریکہ کے سابق فوجیوں پر مشتمل نجی کمپنی کو، جس کا
پہلا نام ’بلیک واٹر‘ تھا سی آئی اے دہشت گردی کے خلاف مہم میں القاعدہ کے
خلاف ڈرون حملوں میں استعمال کرتی رہی ہے۔ نیویارک ٹائمز نے سرکاری حکام
اور سکیورٹی کمپنی کے موجودہ اور سابق ملازموں کے حوالے سے کہا ہے کہ اس
کمپنی کے اہلکار پاکستان اور افغانستان میں موجودہ خفیہ اڈوں پر ڈرون
طیاروں پر ’ہیل فائر‘ میزائل اور پانچ سو پونڈ وزنی لیز گائیڈڈ میزائل
لگانے کا کام کرتے رہے ہیں۔ یہ کام ماضی میں سی آئی اے کے اپنے ماہر انجام
دیتے تھے۔ اخبار کے مطابق کمپنی سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں کو ان خفیہ
اڈوں کی نگرانی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ برطانوی اخبار گارڈین
نے بھی نیو یارک ٹائمز کی اس خبر کو شائع کیا ہے اور اس پر تبصرہ کرتے ہوئے
اخبار نے لکھا کہ بلیک واٹر کی خفیہ کاروائیوں میں شمولیت کی خبروں نے صدر
بش کے دور میں سی آئی اے کی کاروائیوں پر نئے قانونی سوالات کو جنم دیا ہے۔
اخبار مزید کہتا ہے کہ ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ القاعدہ کے سرکردہ
اہلکاروں کو ہلاک کرنے کا پروگرام کیا دانستہ طور پر کانگریس سے مخفی رکھا
گیا۔ کانگریس نے انیس سو چھہتر میں ویتنام اور لاطینی امریکہ میں سی آئی اے
کی ’ٹارگٹ کلنگ ‘ کی کاروائیوں پر سماعت کے بعد اس طرح کی کاروائیوں پر
پابندی لگا دی تھی۔ لاطینی امریکہ میں مخالفین کو ہلاک کرنے کی کاروائیوں
میں فیدل کاسترو پر چھبیس ناکام قاتلانہ حملے بھی شامل تھے۔ بلیک واٹر
کمپنی جس کا نیا ’ایکس ای‘ ہے اور جسے ’زی‘ پکارا جاتا ہے کس قدر مہارت اور
استعداد کی حامل ہے۔ کمپنی کی کاروائیوں اور خاص طور پر عراق میں اس کے
اہلکاروں کے رویئے کی بنا پر اس کو شدید تنقید کا سامنا رہا ہے لیکن اس کے
باوجود اسے مستقل طور پر سی آئی اے کی طرف سے کروڑوں ڈالر کے ٹھیکے دیئے
جاتے رہے اور یہ پھلتی پھولتی رہی۔ اخبار کے مطابق بلیک واٹر کے موجودہ اور
سابق اہلکاروں سے کیئے جانے والے انٹرویوز سے سی آئی اے کے القاعدہ کے
کارکنوں کو ہلاک کرنے کی کاروائیوں میں بلیک واٹر کی شمولیت کے بارے میں
مزید تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ بلیک واٹر کو ان کاروائیوں میں سن دو ہزار چار
میں پورٹر جے گاس کے سی آئی اے کے سربراہ بننے کے بعد شامل کیا گیا۔ حکام
کا کہنا ہے کہ سی آئی اے نے بلیک واٹر کے ایگزیکٹیویز کو ’لائسنس ٹو کل‘ یا
قتل کرنے کی کھلی چھٹی نہیں دی تھی۔ تاہم ان کرائے کے فوجیوں کو القاعدہ کے
سرکردہ ارکان اور سرگرم کارکنوں کو پتا لگانے اور ان کی نقل و حرکت پر نظر
رکھنے کے لیے کہا گیا تھا۔
سی آئی اے کے اس پرگروام سے آگاہی رکھنے والے سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ
لبلبی دبا کر کسی کو ہلاک کرنا سب سے آسان کام ہوتا ہے اور اس میں زیادہ
مہارت کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا اصل میں لبلبی دبانے تک کا جو
کام ہوتا ہے وہ اصل اہمیت رکھتا ہے۔ سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ کسی دہشت
گردی کو پکڑنے اور پھر اس کو ہلاک کرنے کی سی آئی اے کے ڈائریکٹر سے پیشگی
اجازت ضروری ہوتی ہے اور اسے وائٹ ہاؤس کے سامنے بھی پیش کیا جاتا ہے۔ بلیک
واٹر کے سی آئی اے کے ساتھ بزنس معاملات زیادہ تر خفیہ رہے لیکن اس کے
امریکی وزارت خارجہ کے ساتھ معالات منظر عام پر آ گئے۔ امریکہ وزارت خارجہ
اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ عراق میں اپنے سفارت کاروں کی سکیورٹی کے لیے بلیک واٹر کی
خدمات حاصل کرتا رہا ہے جس سے کئی تنازعات بھی کھڑے ہو گئے تھے۔ عراق میں
سترہ شہریوں کی ہلاکتوں پر بلیک واٹرز کے پانچ ارکان پر امریکہ میں فرد جرم
عائد ہو چکی ہے۔ کمپنی کے خفیہ آپریشن کے لیے امریکی ریاست نارتھ کیرولائنہ
میں ’بلیک واٹر سلیکٹ‘ سے ایک بہت بڑا دفتر موجود ہے۔ اس کمپنی کا سی آئی
اے کی طرف سے پہلا ٹھیکہ سن دوہزار دو میں کابل میں نئے اڈے کے لیے سکیورٹی
فراہم کرنے کا تھا۔ نیویارک ٹائمز کمپنی کے موجودہ اور سابق ملازمین کے
حوالے سے لکھتا ہے کہ کمپنی کے ملازمین کو ڈرون طیاروں پر ہیلر فائر اور
لیزر گائڈڈ میزائل نصب کرنے کی تربیت نویڈا میں قائم نیلس ایئر بیس پر دی
جاتی ہے۔ اخبار نے کئی اور سرکاری اور کمپنی کے ملازمین کے حوالے سے لکھا
ہے کہ سی آئی اے ایک عرصے تک پاکستان کے صوبے بلوچستان میں قائم فضائی اڈے
شمسی سے ڈرون طیاروں کی پروازیں کرتی رہی ہے لیکن حال ہی میں جلال آباد میں
ایک نیا اڈہ بنا لیا گیا ہے۔ سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ اب جلال آباد سے
زیادہ تر ڈرون طیاروں کی پروازیں ہوتی ہیں جہاں ہر گھنٹے میں ڈرون طیارہ
اڑتے یا اترتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں شمسی بیس اب بھی استعمال ہو رہا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ نے جلال آباد میں اڈہ قائم کرنے کا فیصلہ اس بنا
پر کیا کہ کہیں پاکستانی حکومت عوام میں پائے جانے والے امریکہ مخالف دباؤ
کا شکار ہو کر ملک میں موجود اڈے بند کرنے کا مطالبہ نہ کر دیں۔ بلیک واٹر
کے ملازمین ڈرون حملوں کے اہداف کی نشاندھی میں شامل نہیں ہوتے اور ان پر
نصب میزائیلوں کو چلانے کا بٹن لینگے ورجینیا میں بیٹھے سی آئی اے کے
اہلکاروں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ ایجنسی کے بہت کم ملازمین افغانستان اور
پاکستان میں موجود ہوتے ہیں۔ بلیک واٹر کے کرائے کے لوگوں کا ڈرون حملوں
میں شامل ہونا بعض اوقات تنازعات کا بھی باعث بنتا ہے۔ جب کبھی بھی ڈرون سے
داغے میزائل اپنے ہدف سے چوک جاتے ہیں سی آئی اے والے بلیک واٹر کے ملازمین
کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ بلیک واٹر ایک حقیقت ہے۔ ہم نے شترمرغ کی
طرح اپنی گردن ریت میں چھپا لی ہے، ڈالرزکی چمک نے ہماری آنکھوں کو خیرہ
کردیا ہے۔ ہم امریکیوں کے جدید غلام ہیں جو ان کی سچائی پر بھی پردہ ڈالتے
رہتے ہیں۔ کاش ہم میں تھوڑی سی بھی قومی غیرت ہوتی۔ |