ایک زمانے میں پی ٹی وی سے ایک ڈرامہ اندھیرا اجالا کے
نام سے آتا تھا اس ڈرامے کی خصوصیت یہ تھی جب یہ نشر ہوتا تھا تو گھرں میں
چوریاں ہو جاتی تھیں ۔اکثر دوسرے دن یہ خبر دیکھنے کو ملتی تھی گھر کے تمام
لوگ اندھیر اجالا دیکھنے میں اتنا منہمک تھے کہ ان کے گھر کی چیزیں چوری ہو
گئیں اور انھیں پتا بھی نہ چل سکا ۔اس ڈرامے میں حولدار ،ایس ایچ او اور
ایس پی کا کردار مستقل تھا۔اس ڈرامے کے مصنف یونس جاوید ہر ہفتے جرائم کی
داستان پرمشتمل ڈرامہ پیش کرتے تھے اور یہ کہانیاں ہمارے ارد گرد رونما
ہونے والے سچے واقعات کی عکاسی کرتی تھیں ۔ایک دفعہ اس میں جعلی پیر کا
واقعہ پیش کیاگیا جو لوگوں کو بے وقوف بناتا تھا ایس ایچ او جعفر حسین کا
کردار معروف اداکار مرحوم جمیل فخری ادا کرتے تھے وہ اس جعلی فقیر کو پکڑ
کر تھانے لائے اس کے تھانے لاتے ہی مختلف با اثر لوگوں کے فون آنا شروع ہو
گئے جب اس پر بھی اسے نہیں چھوڑا گیا تو دوران تفتیش اس جعلی پیر نے ایس
ایچ او کو دھمکی دیدے ہوئے کہا "فقیر آدمی ہوں مجھے نہ چھیڑو ورنہ جل کر
بھسم ہو جائے گے "بہر حال اس دھمکی کا بھی جب کوئی اثر نہیں ہوا تو پھر اس
نے پینترا تبدیل کیا معافی تلافی پر اتر آیا ۔یہ واقعہ مجھے ایک لیڈر کے اس
بیان پر یاد آیا جب اس نے یہ کہا کہ" فقیر آدمی مجھے نہ چھیڑو ورنہ برداشت
نہیں کر سکو گے "اور اس نے احتیاطَ یہ نہے کہا کہ جل کر بھسم ہو جاؤ گے ۔
پھر ایک دو روز کے بعد انھوں نے بھی تحریک انصاف سے معافی تلافی کرلی ۔
عمران خان نے کہا ہے کہ خیر یہ معافی تو ٹھیک ہے لیکن ہم بلدیہ ٹاوٗن کے
فیکٹری کے 259غریب مزدوروں کا خون معاف نہیں کر سکتے جنھیں انتہائی کسمپرسی
کی حالت میں بے دردی سے جلا دیا گیا اس میں کچھ ایسی خواتین بھی تھیں جو
اپنے چھوٹے بچوں کو ساتھ لے کر جاتی تھیں وہ خواتین بچوں سمیت جل گئیں ۔
ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا یہ سانحہ چند روز بعد بھلادیا جائے گا
اور پھر ہم کسی نئے حادثے کے انتظار میں رہیں گے ۔اس سانحے کے بارے میں یہ
بھی اطلاعات ہیں کہ یہ سب کچھ ان ہی دنوں میں آگیا تھا اور یہ جے آئی ٹی
رپورٹ دو سال قبل کی ہے اور اسے اب کیوں پیش کیاگیا ہمیں افسوس ہے ان ڈھائی
سو سے زیادہ سوختہ لاشوں پہ ہماری سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی دکانیں چمکانے
کی کوشش کررہی ہیں جس دن اس خبر نے پورے ملک میں تہلکہ مچایا اسی دن یہ بھی
خبر تھی پی پی پی اور متحدہ میں اتحاد بن رہا ہے اور بہت جلد متحدہ حکومت
میں شامل ہو رہی ہے اور یہ کہ سینٹ کے الیکشن میں بھی ایک دوسرے سے تعاون
کریں گے ۔جس وقت یہ سانحہ ہوا تھا اس وقت پورے ملک میں اور صوبہ سندھ میں
پی پی پی کی حکومت تھی اس لیے یہ اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس سانحے کے
مجرموں کو پکڑے اور انھیں عبرت ناک سزائیں دے۔متحدہ بھی چونکہ اقتدار میں
شریک تھی اور کراچی کی اسٹیک ہولڈروں میں سے ہے اس لیے اس کی بھی ذمہ داری
بنتی ہے کہ وہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے مجرموں کو گرفتار کروائے لیکن اس سے
زیادہ ذمہ داری پیپلز پارٹی کی ہے کہ وہ مرکز اور صوبے میں حکومت اس کے پاس
تھی ۔
اگر دونوں جماعتوں کا اتحاد اس بات پر ہوتا کہ ہم مل کر سانحہ بلدیہ کے ذمہ
داروں کو پکڑیں گے اور انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے تو یہ زیادہ اچھی بات
ہوتی اور اس سے پورے ملک میں یہ پیغام جاتا کہ یہ جماعتیں مجرموں کو پکڑنے
میں سنجیدا نظر آتی ہیں جب کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کی طرف سے آنکھیں بند کر
کے اپنے سیاسی مفادات کے تحت ملنا اور اتحاد کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ انھیں
اس اندوہناک سانحے کی کوئی فکر تو دور کی بات احساس بھی نہیں ہے کہ اس
سانحے کے مجرموں کو پکڑوانا ہماری ذمہ داری ہے ۔اس فیکٹری میں جو لوگ جل کر
مرے ہیں ان میں اردو بولنے والے مہاجر بھی تھے پٹھان بلوچی پنجابی اور
سندھی بھی تھے ان میں تین قدر مشترک تھیں پہلے سب مسلمان تھے دوسرے وہ سب
پاکستانی تھے اور تیسرے یہ وہ سب غریب تھے ۔ اس فیکٹری میں لوگ ہی نہیں
بلکہ پورا پاکستان جل گیا ۔شہر کراچی کا یہ المیہ ہے کہ کے یہاں جب کسی
سانحے کے ذمہ داروں کا تعین ہونے لگتا ہے تو ان کے سرپرست حضرات خلط مبحث
کی خاطر نئے موضوعات پر بات کرنے لگتے ہیں یعنی یہ مطالبات کیے جاتے ہیں کہ
علی گڑھ کے سانحے کے مجرموں کو بھی پکڑا جائے جب کے یہ سانحہ 1986میں ہوا
تھا ۔ 1988 کے حیدرآباد میں قتل عام کرنے والوں کو بھی پکڑا جائے وہ پتا
نہیں کیوں یہ مطالبات نہیں کرتے کہ 12مئی 2004اور 2007کے مجرموں کو بھی
پکڑا جائے ، پہلے والے حادثے میں ضمنی انتخابات کے موقع پر جماعت اسلامی کے
14کارکنان کو شہید کردیا گیا تھا جبکہ 2007میں چیف جسٹس کی کراچی آمد کے
موقع پر پچاس سے زائد افراد کو ہلاک کردیا گیا تھا بارہ ربیع الاول کے دن
نشتر پارک میں پچاس سے زائد علماء کو ایک دھماکے میں شہید کردیا گیا درمیان
کے چند برسوں کو چھوڑکر جب سے وہی لوگ برسر اقتدار رہیں ہیں جو یہ مطالبہ
کررہے ہیں انھوں نے اپنے دور اقتدار میں ان تمام سانحات کے مجرموں کو کیوں
نہیں پکڑا ۔
جب کسی فرد کے حوالے سے JITرپورٹ منظر عام پر آتی ہے تو اس فرد کے سرپرست و
لواحقین اس کا مطلب لیتے ہیں Jmaat e Islami Talking یعنی یہ کہ یہ جماعت
اسلامی بول رہی ہے اور وہ پھر جماعت کے اوپر وہی پرانے گھسے پٹے اور لغو
الزامات لگا کر جماعت پر پابندی کا مطالبہ کرنا شروع کر دیتے ہیں ،حالانکہ
ان میں جو پڑھے لکھے لوگ ہیں وہ جانتے ہیں کہ JITکا مطلب Joint
Investigation Team ہوتا ہے جس میں ملک کی اہم ایجنسیوں کے نمائندے موجود
ہوتے ہیں جو مل کر تفتیش و تحقیق کرتے ہیں ،دلچسپ بات یہ ہے کسی ایک ایجنسی
کی سرسری سی رپورٹ پر چاہے وہ جھوٹی ہی کیوں نہ ہو بڑا شور مچاتے ہیں کہ ان
کے گھروں سے القاعدہ کے لوگ نکلے تھے ان پر پابندی عائد کی جائے ۔اور اب جب
تمام ایجنسیوں کی مشترکہ انوسٹی گیشن سے جو رپورٹ سامنے آئی ہے اسے غلط
قرار دینے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔
اتنے ہائی پروفائل کیس پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوتی مجرموں کو تحفظ فراہم
کردیاجاتا ہے تو پھر کراچی کا خدا ہی حافظ ہے ۔ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں
آتی کہ جن مجرموں کو باقاعدہ عدالت سے پھانسی کی سزا ہو چکی ہے وفاقی حکومت
نے اس پر عمل درآمد روک دیا گیا اور دوسری طرف صوبائی حکومت انھیں اپنے
ساتھ حکومت میں شریک کررہی ہے ۔دوسرے لفظوں میں یہی کہا جاسکتا ہے ن لیگ
اور پی پی پی دونوں حسب توفیق تعاون کررہی ہیں ۔
ہمارے ملک میں دہشت گردی کے فروغ میں ن لیگ کے نواز شریف اور پی پی پی کے
آصف علی زرداری ذمہ دار ہیں جو ان لوگوں کو تحفظ فراہم کررہے ہیں جنھوں نے
فیکٹری کے دوسو ساٹھ مزدوروں کو زندہ جلایا ہے ۔ |