تحریک آزادی کشمیر،تاریخ کی معتبر گواہی

گزشتہ دنوں ریاست جموں و کشمیر سے متعلق چند اہم تاریخی دستاویزات کے مطالعہ کا موقع ملا۔1943ء سے 1946ء کے درمیان عرصہ کی ان تاریخی دستاویزات سے اس عرصے کے کشمیر کی صورتحال واضح ہوتی ہے اور مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں کی جدوجہد کے عوامل اور محرکات بھی ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ان دستاویزات میں قائد اعظم ،مہاراجہ ہری سنگھ،لارڈ ویول،پنڈت پریم ناتھ بزاز،چودھری غلام عباس،میر واعظ مولوی محمد یوسف شاہ اور دیگر شخصیات کے خطوط ،ٹیلی گرام،مضامین وغیرہ شامل ہیں۔ان دستاویزات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نیشنل کانفرنس نے کس طرح ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ ،اس کے وزیر اعظم رام چندر کاک کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر کے واضح اکثریتی عوام کے خلاف گٹھ جوڑ کیا اور کس طرح شیخ عبداﷲ نے خود کو مضبوط بنانے کے لئے کانگریس کے لیڈروں کے ساتھ مستقل اتحاد قائم کرتے ہوئے کلانگریس کو یہ موقع دیا کہ وہ ریاست کشمیر کو تحریک پاکستان کے خلاف اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنائے۔لیکن کشمیریوں نے شیخ عبداﷲ کی قتل و غارت گری کی تقریروں اور نیشنل کانفرنس کے کارکنوں کی غنڈہ گردی ،تشدد اور ڈوگرہ حکومت کی مکمل حمایت کے باوجود اس کا بھر پور جواب دیتے ہوئے کانگریسی لیڈروں کے دریائی جلوس کے خلاف ایسا زبردست مظاہرہ کیا کہ جو تاریخ میں رقم ہو گیا۔معروف کشمیری صحافی،سیاسی رہنما پنڈت پریم ناتھ بزاز اس تاریخی واقعہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ،
’’یکم اگست نے دیکھا کہ نیشنل کانفرنس جماعت کے طوفانی دستے اپنے رہنما،شیخ عبداﷲ کے لئے سر کٹانے کو تیار تھے۔شہر کا شمالی حصہ جو مسلم کانفرنس کے پیرو کاروں کا گنجان آباد علاقہ ہے،ان کی کاروائیوں کا مرکزی علاقہ بن گیا۔رضاکاروں نے ہاتھوں میں لاٹھیاں اٹھائے بغیر کسی وجہ کے راہگیروں پر تشدد شروع کر دیا۔مسلم کانفرنس کے دو اولین رہنمامسٹر محمد یوسف قریشی اور چودھری عبداﷲ خان بھلی پتھر مسجد،نیشنل کانفرنس کے صدر دفتر سے کچھ ہی فاصلے پر ٹانگے میں جا رہے تھے۔رضاکاروں کے ایک گروہ نے،جس کا سرغنہ نیشنل کانفرنس کا ایک معروف رہنما تھا، انہیں کھینچ کر نیچے اتارا،شدید زخمی ہوئے،مسٹر قریشی قریبی پولیس سٹیشن کی طرف بھا گے۔رضاکاروں نے ان کا پیچھا کیا اورتھانے کی چار دیواری کے اندر ہی،امن و امان کے ضامنوں کی ناک کے نیچے انہیں دوبارہ سخت تشدد کا نشانہ بنایا۔بعد میں انہیں ریاستی ہسپتال بھیجا گیا جہاں وہ کئی دن زیر علاج رہے۔کچھ دکانیں جو مسلم کانفرنس کے حامیوں کی جانی جاتی تھیں،کو لوٹ لیا گیا،یہ کہا گیا کہ پولیس اہلکار کھڑے ہی رہے جبکہ مسلم کانفرنس کے صدر دفتر زینہ کدل اورشہر میں ذیلی دفاتر پر سخت پتھراؤ کیا گیا۔مسلم کانفرنس کا سبز جھنڈا اتارا گیا،پھاڑ کر پاؤں تلے روندا گیا۔جنونیت اور غنڈہ گردی کا راج رہا۔حکام نے کوئی کاروائی نہیں کی اور نیشنل کانفرنس کے ایک بھی رضاکارکو چھوا تک نہیں گیا۔اس طرح کی صورتحال میں نیشنل کانفرنس کے تمام مسلم مخالف روپوش ہو گئے۔اور طوفانی دستے فاتح رہے۔شیخ عبداﷲ اور اس کے ساتھی اپنی کامیابی پر فخر محسوس کر رہے تھے۔لمحے کے لئے انہوں نے اطمینان محسوس کیا کہ دریا کا جلوس ایک بڑی کامیابی ثابت ہو سکتا ہے اورکانگریس رہنما جارحانہ مظاہروں کا کوئی حصہ بھی نہیں دیکھ پائیں گے۔وہ غلطی پر تھے۔یہ طوفان سے پہلے کا سکوت تھا۔جب جلوس شروع ہواتو گھاٹ پر دسیوں ہزاروں مسلمان نمودار ہوئے جیسے وہ دریا کے پانی سے نکلے ہوں،انہوں نے ہاتھوں میں کالے رومال،کالے جھنڈے اور کالے پوسٹر پکڑے ہوئے تھے۔وہ مولانا آزاد مردہ باد،قائد اعظم زندہ باد،مسلم لیگ زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔یہ سچ ہے کہ بعض افراد کی طرف سے جلوس پر پرانے جوتے اور پتھر بھی پھینکے گئے۔یہ بھی درست ہے کہ چند مظاہرین بدتمیزی سے ننگے ہو گئے۔لیکن اوپر کہے گئے کے تناظر میں اس کی وضاحت کرنا بہت مشکل نہیں ہونا چاہئے۔اگر لوگوں کو شیخ عبداﷲ کے رضاکاروں کی طرف سے حکام کی سہولت سے بے رحمی سے دبایا نہ جاتا تو یہ یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی کہ انہوں نے اپنے آپ کو پرامن مظاہروں تک محدود کیوں نہیں رکھا،جو کہ اپنی ناراضگی ظاہر کرنے کا جائز اور مہذب طریقہ ہے۔بعد میں اخبارات کے لئے جاری ایک بیان میں پنڈت جواہر لال نہرو نے مظاہروں میں اشتعال نہ ہونے کے باوجود اسے بیہودہ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔لیکن اس نے نیشنل کانفرنس کے رضا کاروں کی طرف سے پرامن شہریوں پر ہونے والے ظالمانہ حملوں کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا ۔جواہر لال نہرو حقائق سے لاعلمی کا جواز پیش نہیں کر سکتا کہ وہ رضاکاروں کی غنڈہ گردی کے بارے میں اپنے تمام روزنامہ اخبارات کے ذیعے مکمل طور پر آگاہ تھا۔‘‘

اپنے مضمون میں پنڈت پریم ناتھ بزاز مزید لکھتے ہیں کہ، ’’11ستمبر کو جناب ایم اے جناح ،صدر آل انڈیا مسلم لیگ نے پریس کو جاری ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے وائسرائے کو کشمیر میں حالیہ تنازعہ کے بارے میں 22اگست1945ء کو ایک بہت مضبوط یاداشت دی تھی،کشمیر میں ہونے والی بدامنی کے بارے میں جس کے نتیجے میں خوں ریزی ہوئی اورکشمیر حکومت کی طرف سے عوام اور پریس کے خلاف بے رحمانہ ظلم اور دباؤ کے طریقے استعمال کئے گئے۔جناب جناح نے تاج کے نمائندے پرز ور دیا ہے کہ فوری مداخلت کی جائے کہ صدر مسلم لیگ نے کشمیر کی بہت سنگین صورتحال کے بارے میں بتایا ہے،جوکہ سر بی این راؤ ،سابق وزیر اعظم کی طرف سے ریاستی سروس(ملازمت)چھوڑنے کے وقت سے انہیں مختلف قابل اعتماد ذرائع سے رابطوں سے حاصل ہوئی ہے۔ غیر متوقع نہیں ہے کہ جناب جناح کے اس بیان نے ریاستی حکام کو حواس باختہ کر دیا ہے خاص طور پر وزیر اعظم رائے بہادر پنڈت رام چندرا کاک اور اس کے کارندے‘‘۔

ان تمام دستاویزات کو بغور پڑہنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے ریاست کشمیر میں ہونے والی زیادتیوں اور ظلم کے خلاف اپنی بھرپور آواز بلند کی اور وائسرائے لارڈ ویول پر کشمیر کی صورتحال کی بہتری کے لئے برطانوی حکومت کی مداخلت سے کے مطالبات پر زور دیتے رہے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام اور لیڈروں کے لئے اپنی رہنمائی بھی فراہم کرتے رہے۔آج یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بھارت کے ساتھ ساتھ برطانوی حکومت بھی مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں پر عذاب مسلسل کی ایک بڑی بلکہ مرکزی ذمہ دار ہے۔جنگ پنجاب میں مدد کے عوض جموں و کشمیر کو اس کے لوگوں سمیت فروخت کرنے کے غیر انسانی اقدام سے لیکر تحریک پاکستان کے عرصے میں کانگریس کے ساتھ ملکر پاکستان کے قیام اور مسلمانوں کے حقوق کے خلاف سرگرمیوں میں بھی برطانوی حکومت اور اس کا وائسرائے ہند برابر کے قصور وار قرار پاتے ہیں اور یہی گٹھ جوڑ ریڈ کلف باؤنڈری کمیشن سے لیکر جنگ کشمیر اور جنگ بندی تک بھارت کی حمایت میں بنیادی محرک کے طور نظر آتا ہے ۔ان دستاویزات سے یہ حقیقت بھی بے نقاب ہوتی ہے کہ وائسرائے لارڈ ویول نے کشمیر کے بارے میں قائد اعظم کے مطالبات کے خط کانگریس کے حوالے کئے جو پنجاب کے ہندو اخبارات نے کانگریس اور کشمیر کے وزیر اعظم پنڈت کاک کی ایماء پر مسلم لیگ اور کشمیری مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کئے۔یعنی لارڈ ویول قائد اعظم کے خطوط،ٹیلی گرام اور ملاقاتوں سے کانگریس کو باقاعدہ باخبر رکھتا تھا۔یوں لارڈ ویول یہاں ہمیں انصاف کا خون کرنے والے کے علاوہ اخلاقی بد دیانتی میں بھی مبتلا نظر آتا ہے۔ان دستاویزات کے مطالعہ سے کئی حقائق کا انکشافات بھی ہوتا ہے۔یہ دستاویزات اب تک شائع نہیں ہوئیں اور نہ ہی منظر عام پر آئی ہیں ۔تاہم اب یہ ایک کتاب کی شکل میں شائع ہو رہی ہے ۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 700376 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More