جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد متحدہ اور پیپلز پارٹی کی
قربتوں کی اطلاعات نے نئے سوالات اٹھادیئے۔
ایجنسیوں پر جس پارٹی کی تخلیق کا کل الزام تھا وہ آج ایک خطرناک
اب یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ کل تک جس سیاسی پارٹی کے بارے میں یہ کہا
جارہا تھا کہ اسے ایجنسیوں نے بنایا ہے وہ اب ایک خطرناک جماعت کا روپ دھار
چکی ہے ۔ جس کے ہاتھوں کراچی ، حیدرآباد ، میرپورخاص کے لوگ یرغمال ہیں ۔ملک
کی بڑی سیاسی جماعتیں، ملک کی حفاظت اور قانون پر عمل درآمد کرنے والی
قوتین بھی اس جماعت کے ہاتھوں مجبور اور بے کس نظر آتی ہیں ۔کراچی میں امن
و امان کی خراب صورتحال پر ازخود کارروائی کے مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے
سپریم کورٹ ، حکومتی جماعت پیپلز پارٹی ، اے این پی اور مذکورہ سیاسی جماعت
کو ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہونے اور امن و امان کی صورتحال کی خرابی کا ذمہ
دار قرار دے چکی ہے ۔لیکن ناجانے کیوں ملک کی عسکری قوت اور مفاد پرست
حکومتیں اسے ختم کرنے کے بجائے اس کے ہاتھوں مسلسل بلیک میل ہورہی ہیں یا
اسے پال رہی ہیں ۔
تیس بتیس سال کا عرصہ کم نہیں ہوتا ، مگر اسے ہنوز موقع دیا جارہا ہے ۔ اسے
قوم مسترد کرچکی ہے اور اس کا ثبوت انتخابات کے ذریعے دینا بھی چاہتی تھی
اور چاہتی ہے مگر وہ ادارے جن پر شفاف انتخابات کا بھروسہ کیاجاتا ، جنہیں
شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے ڈیوٹیوں پر لگایا جاتا ہے وہ عین وقت
پر محض ایک ’’ تماشائی ‘‘ بن جاتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں خوفناک افراد تیس،
تیس ہزاربوگس ووٹ ڈالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔چلو مان لیتے ہیں کہ اس کے
مسلح کارکن خطرناک ہیں ، جو کبھی بھی کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔اس لیے ان کے
خلاف انتخابات کے دوران کارروائی نہیں کی جاسکتی ۔مگر پھر انتخابات کے بعد
کیا ہوتا ہے ؟ ابھی تو عام انتخابات کا موقع نہیں ہے ۔ کیا ملک کے اداروں
کے پاس ایسی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ دہشت گردوں اور شرپسندوں کو لگام دے سکے
؟ کیا یہ طالبان سے بھی زیادہ خطرناک ہے کہ انہیں ختم نہیں کیا جاسکتا ۔
کیا ’’ضرب عضب ‘‘ بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ؟ یا ان پر ’’ عضب کی ضرب
لگائی ہی نہیں گئی ؟ اور اگر دوسری بات درست ہے تو پھر عسکری قوت کا یہ
آپریشن بلارعایت اوربلاتفریق تمام دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے نام
پرکارروائی کا کب کرے گا ؟ کیا یہ آپریشن بھی دھشت گردوں میں تفریق
پیداکرچکا ہے ؟
ملک میں دھشت گردی کے واقعات سے نمٹنے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کردیں گئیں
مگر کارروائی ان دہشت گردوں کے خلاف نہیں کی جارہی جن کے ہاتھوں ملک کے سب
سے بڑے شہر کراچی میں گزشتہ20 سالوں کے دوران کم و بیش 15ہزار سے زائد
سیاسی کارکن ، سرکاری افسران ، تعلیمی ماہرین ، سماجی شخصیات اور عام معصوم
افراد قتل ہوچکے ہیں ۔کیوں کیا یہ لوگ انسان نہیں تھے یا ان کو مارنے والے
’’ فرشتے ‘‘ تھے ؟ پہلے سندھی ، پھر پنجابی ، پٹھان اور پھر مہاجر اور اسے
بعد لیاری کے بلوچوں کی زندگی اجیرن ہوئی تو اسی قوت کے ہاتھوں ۔مگر وہ
دھشت گرد نہیں ہے ۔ کراچی جو روشنیوں کا شہر تھا ، پی ایم ٹی اڑا کر بجلی
کا نظام تباہ کرکے اسے تاریک کسی اور نے نہیں سب سے پہلے اسی گروپ نے کیا
تھا ۔یہ شہر جو عروس البلاد کہلا تا تھا ،اب یہاں بیوا کالونی اور شہداء
قبرستان آباد ہورہے ہیں ۔ شہداء قبرستان کو قائم کرنے کا اعزاز اسی سیاسی
جماعت کو جاتاہے ۔اس جماعت میں دو گروپ نہیں بلکہ کئی گروپ بن چکے ہیں مگر
ایک کے سوا باقی تمام گروپ ایک ہی بیمارکے ہاتھوں اپنی بقا کی جنگ لڑرہے
ہیں ۔ یہ گرو ہ کمزور ہوچکا ہے اسے ہمیشہ حکومتی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے
مگر اسے ختم کرنے کے بجائے اسے سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے لیے استعمال
کرتی ہیں ۔سابق صدر پرویز مشرف نے بھی اپنے دور میں12 مئی 2007 کو اپنی
حکومت کی طاقت بتانے اور حکومت مخالف ریلی کو روکنے کے لیے اسی گروہ کو
استعمال کیا تھا ۔ یہ گروپ دراصل ملک کی مفاد پرست اور منافق سیاسی جماعتوں
کے لیے ایسی ہی قوت کا کام دیتا ہے جو انہیں اقتدار میں رہنے کا موقع فراہم
کرتا ہے ۔دلچسپ امر یہ کہ جو گروپ پرویز مشرف کے دور میں اس کے ساتھ کھڑے
ہوکر پیپلز پارٹی اور ای این پی کے لوگوں سفائرنگ کررہا تھا وہ ہی گروپ
مکمل جمہوریت آئی تو ان ساتھ بغلگیر تھا ۔ یہ گروپ ان ہی سیاسی پارٹیوں کی
آشیردباد کے باعث مضبوط ہوتا گیا ۔ تاہم آج یہ گروہ یا جماعت ایک ناسور بن
چکا ہے ۔ اور اس کے ذمہ دار وہ تمام لوگ ہیں سیاسی جماعتیں اور عسکری قوت
ہے جس نے اسے استعمال کیا اور فوائد حاصل کیے ۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔
جس مافیا ، جس قوت کا ذکر یہاں کیا جارہا ہے اس کا نام اب لینے کی ضرورت
نہیں ہے ، میں بھی اس کا نام لیکر اپنے آپ کو طرم خان ظاہر نہیں کرنا چاہتا
لیکن میں اتنا تو الحمدﷲ بتا سکتا ہوں کہ اب اسے ’’ ایک سیاسی جماعت ‘‘
لکھا اور پکارا جاتا ہے ۔اس گروپ کے لوگ کراچی اور حیدرآباد میں ’’ نامعلوم
افراد ‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ان اشاروں کے بعد اس جماعت کا نام لینا
’’ سورج کو چراغ دکھانے‘‘ کے مترادف ہوگا۔
نام لینے کی ویسے بھی کیا ضرورت سندھ حکومت کے سربراہ وزیراعلٰی قائم علی
شاہ بھی اس کا نام لینے سے ڈرتے ہیں ، جماعت اسلامی کے سوا بیشتر سیاسی
جماعتیں بھی اس کا نام نہیں لیتی، اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا تو سب سے
زیادہ خوفزدہ لگتا ہے اور اب تو حساس ادارے بھی اس بلا کا نام لیتے ہوئے
گھبراتے ہیں ۔خوف پھیلانے کا کام یہ گروپ بلاتفریق کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ
اس سے سب سے زیادہ اس کے اپنے کارکن خوف میں مبتلا رہتے ہیں اور اسی خوف کی
وجہ سے اس کے متعدد لیڈر مختلف بیماریوں کا شکار ہوچکے ہیں ۔اس گروپ کے خوف
کا عالم یہ ہے کہ اس کا بانی خود بھی اپنی جان جانے کے خطرے کی وجہ سے 92
میں ملک چھوڑ چکا ہے اوراب عام خیال ہے کہ موصوف کبھی بھی واپس نہیں آئیں
گے ۔۔
کراچی کی سینٹرل جیل میں قید سب سے زیادہ افراد کا تعلق اسی گروہ سے ہے مگر
پھر بھی کسی نہ کسی وجہ سے اس پارٹی کے گرد ہجوم رہتاہے ۔ لیکن اس گروپ کی
حقیقت صرف وہ ہی لوگ بیان کرسکتے ہیں جو اسی کی وجہ سے اب جیلوں میں اپنے
والدین اور بہن بھائیوں سے دور ہیں ۔
چلیں اب بات کرتے ہیں اس سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی جس نے دنیا بھر کے مسلمانوں
ہی کو نہیں عام انسانوں کو بھی جھنجھوڑ ڈالا تھا۔ یہ سانحہ 11 ستمبر 2012
کو پیش آیا ۔ بلدیہ ٹاؤن کی گارمنٹ فیکٹری میں آگ لگی دیکھتے ہی دیکھتے آگ
نے پوری فیکٹری (علی انٹرپرائزز ) کو اپنی لپٹ میں لے لیا اور کم از کم 257
افراد جھلس کر جاں بحق ہوگئے ۔ اس واقعہ کو آتشزدگی اور مرنے والوں کی
تعدادکے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا حادثہ قرار دیا گیا ۔اس واقعہ کی
تحقیقاتی رپورٹ چند روز قبل جب ہائی کورٹ میں پیش کی گئی تو ملک کی سیاسی
سمیت ہر حلقے میں بھونچال آگیا ۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ’’ فیکٹری
میں آگ لگی نہیں بلکہ لگائی گئی تھی اور اس گھناؤنے اور انسانی سوز واقعہ
کے پیچھے ایک سیاسی جماعت کا ہاتھ تھا ، رپورٹ میں ملزم رضوان قریشی کے
بیان کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ فیکٹری مالکان سے 20کروڑ روپے بھتہ وصول
کیا گیا تھا، بھتہ نہ دینے پرسیاسی جماعت کی قیادت کے حکم پر فیکٹری کو آگ
لگادی گئی اور پھر سینکڑوں افراد کی ایک ہی مقام پر ہلاکتوں کا یہ سانحہ
پیش آیا ۔کورٹ میں رینجرز کی جانب سے پیش کی گئی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے
کہ ملزم رضوان کو ٹارگٹ کلنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا ۔دوران تفتیش
ملزم نے اس سانحہ کے حوالے سے انکشافات کیے جس نے تحقیقاتی ٹیم کے اراکین
کے بھی رونگٹے کھڑے کردیے تھے ۔
ملزم کے انکشافات کے بعد سیاسی اور دیگر حلقوں میں تشویش پھیل گئی ۔ تحریک
انصاف کے چیرمین عمران خان سمیت دیگر ان اس پر ردعمل کا اظہار کیا ۔ مگر
سوائے جماعت اسلامی کے سراج الحق کے کسی نے بھی ایک سیاسی جماعت کا نام
نہیں لیا ۔ جس کی وجہ خوف تھا۔ کسی چینل اورعام اخبار میں بھی اس جماعت کے
نام کے ساتھ ذکر لوگوں کو نظر نہیں آیا ۔ یہ اور بات ہے کہ لوگ سمجھ گئے
ہونگے کہ یہ کس جماعت کی بات ہورہی ہے ۔ لیکن معاملہ اس وقت واضح ہوا جب
متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نے خود پریس کانفرنس کی ۔ اس پریس
کانفرنس میں متحدہ کے دوسری سطح کے رہنماؤں نے رضوان قریشی کو ان کا کارکن
ماننے سے ہی انکار کردیا ۔اور کہا کہ اس کا متحدہ سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے
۔
ہوسکتا ہے کہ متحدہ کا مؤقف درست ہو ، لیکن سوال یہ ہے کہ اس قدر سنگین
نوعیت کے انکشافات کے بعد جوائینٹ انویسٹی گیشن ٹیم مزید کیا کارروائی
کررہی ہے ؟ رضوان نے جن سیاسی رہنماؤں کو اس سانحہ کا ذمہ دار قرار دیا گیا
کہ حساس ادارے اور جی آئی ٹی ان کے خلاف بھی کارروائی کررہی ہے یا کرے گی ؟
پھر ان انکشافات پر ماضی کی طرح پردہ ڈال کر مزید کارروائی روک دی جائے گی
۔ ؟
دیکھنے میں آرہا ہے کہ رضوان قریشی کے انکشافات کے بعد متحدہ اور پیپلز
پارٹی کے درمیان ایک بار پھر قربتیں بڑھنے لگی ۔ اطلاعات کے مطابق جلد ہی
سندھ میں دونوں پارٹیوں کے درمیان دوبارہ اتحاد قائم ہوجائے گا اور ایم کیو
ایم ایک بار پھر صوبائی حکومت میں شامل ہوجائے گی ۔
اگر ایم کیو ایم کے حوالے سے رضوان قریشی کے الزامات درست ہے تو یا جے آئی
ٹی کی تحقیقات سے یہ معلوم چلتا ہے کہ متحدہ اس واقعہ یا دیگر سنگین واقعات
میں ملوث ہے تو کیا پیپلز پارٹی پھر بھی صرف اپنی حکومت مستحکم کرنے اور
سینیٹ میں اپنی عددی قوت میں اضافے کے لیے متحدہ سے اتحاد کرلے گی ؟ اگر
متحدہ اور پیپلز پارٹی کا دوبارہ اتحاد ہوگیا تو کیا کیا قوم یہ سوچنے میں
حق بجانب نہیں ہوگی کہ ان جماعتوں کو عام افراد اور صوبے کے مفادات اور
ضرورتوں سے کوئی غرض نہیں ہے ؟
متحدہ کو چاہنے والے (اگر حقیقی طور پر کوئی ہے ) تو کیا وہ یہ نہیں سوچ
سکتے کہ متحدہ نے حال ہی مین اپنے سینئر کارکن کے قتل پر احتجاج کیا اور
سوگ منایا اس کے لیے کراچی ، حیدرآباد اور سندھ کے دیگر شہروں میں ہڑتال کی
گئی جس سے اربوں روپے کا نقصان ہوا اس کا مقصد کیا صرف حکومت میں شامل ہونا
تھا ؟ جو نقصان صوبے کو اس روز پہنچا اس کی تلافی کیا پیپلز پارٹی کرے گی
یا متحدہ قومی موومنٹ ؟
سوال یہ ہے کہ یہ جماعتیں آخر کب قوم کی توقعات اور اپنے انتخابی منشور کے
مطابق کراچی اور صوبے کو ترقی دے گی ، سب سے بڑھ کر یہ کہ کب کراچی میں
ٹارگٹ کلنگ ختم ہوگی اور شہریوں کو سکون کی زندگی ملے گی ؟
چلیں پیپلز پارٹی اور متحدہ کی بات کو بھی فی الحال چھوڑ دیتے ہیں اور بات
کرتے ہیں مسلم لیگ کے رہنما اور وزیراعظم نواز شریف کی ۔
گزشتہ کئی سالوں سے کراچی میں جو کچھ ہورہا ہے اس حوالے سے میاں نواز شریف
نے 2013میں انتخابات سے قبل ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا کہا تھا۔
رپورٹر کا سوال تھا کہ میاں صاحب اگر آپ کی حکومت وفاق میں آگئی اور آپ کو
سندھ میں حکومت بنانے کی ضرورت پڑی تو کیا آپ ایم کیو ایم کو ساتھ ملانے پر
تیار ہوجائیں گے ؟
میاں نواز شریف نے جواب دیا ’’ میرا خیال ہے کہ پہلے ایم کیو ایم کو اپنے
حوالے سے کلیئر کرانا ہوگا کہ وہ پاکستان کے اندر ایک مثبت سیاست کو آگے
بڑھانا چاہتی ہے یا اپنے ملٹینٹ ونگ ، عسکری بازو کے ذریعے ہی دہشت گردی
میں ہی رہنا چاہتے ہیں ، میں نے ہمیشہ صاف بات کی ہے ، پاکستان میں دہشت
گردی کا وجود اس وقت ہوا جب ایم کیو ایم سیاست میں آئی اس سے قبل کبھی بھی
دہشت گردی ہوئی اور کراچی کا امن اس وقت خراب ہوا جب کراچی میں ایم کیو ایم
کا وجود ہوا ۔پھر جب میں وزیراعظم بنا تو حکیم سعید جو پاکستان کہ انتہائی
وفادار انسان تھے کو قتل کردیا گیا ، ہم نیفیصلہ کرلیا کہ ہم ایم کیو ایم
کے ساتھ نہیں چل سکتے ، ہم نے ان سے کہا کہ قاتل ہمارے حوالے کردو ، نہیں
کروگے تو ہمارے راستے جدا ہوجائیں گے انہوں نے قاتل ہمارے حوالے نہیں کیے
اور ہم نے سندھ میں اپنی حکومت ختم کردی جب ہم اپنی حکومت ختم کرسکتے ہیں
تو پھر کیوں مضبوط فیصلے نہیں کرسکتے ۔ ‘‘
اب دیکھنا ہے کہ میاں صاحب دوسری مرتبہ وزیراعظم رہتے ہوئے کب’’ مضبوط
فیصلے ‘‘ کرتے ہیں ۔پیپلز پارٹی کی حکومت تو مسلسل ایسے فیصلے کررہی ہے جس
سے صوبے کو فائدہ ہونے کے بجائے نقصان ہی ہورہا ہے ۔ |