انکشافات

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے امریکا، اسرائیل اور بھارت کی نظروں میں بری طرح کھٹک رہے ہیں۔ لہٰذا ان کی جانب سے ہمارے ایٹمی اثاثے کے غیر محفوظ ہونے اور انہیں طالبان اور دہشت گردوں کے ہاتھ لگ جانے کی بابت شبہات، تحفظات اور وسوسوں کے اظہار کا ایک لامتناعی سلسلہ جاری ہے۔ جسے امریکی صیہونی اور بھارتی پراپیگنڈے سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ ہمیں امریکی پالیسیوں پر لازمی طور پر تشویش ہونی چاہئے کہ آخر وہ ہمارے ایٹمی اثاثوں کو غیر فعال بنانے یا ان پر قبضہ جمانے کے کیوں درپے ہیں۔ ہمیں یہ ممکنات حقارت کے ساتھ رد نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس پر انتہائی سنجیدگی سے غور و خوض کرنا چاہئے۔ ہمیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہئے کہ ماضی قریب میں امریکا نے لیبیا کی ایٹمی تنصیب کو غیر فعال بنا دیا تھا۔ 1981ء میں اسرائیل نے عراق کی ایٹمی تنصیب اوریسک پر F-16 سے حملہ کر کے اسے ناکارہ بنا دیا تھا۔ امریکا کے رویے کی پیش گوئی کرنا انتہائی مشکل امر ہے اسلئے کہ اس قوم نے جاپان کے شہر ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرانے سے گریز نہیں کیا تھا۔ امریکیوں کو یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ 80 کی دہائی میں جب پاکستان سوویت یونین کے خلاف Proxy war میں ملوث تھا اور ساتھ ہی ساتھ وہ ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے مختلف مدارج طے کر رہا تھا اس وقت امریکا نے پاکستان کے راستے مسدود کیوں نہیں کئے۔ سی آئی اے وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون کو گاہے بگاہے یہ انٹلیجس فراہم کر رہا تھا کہ ڈاکٹر قدیر خان کہوٹہ میں کیا کر رہے ہیں۔ انہی دنوں ایک امریکی سفیر اتوار کے دن اپنا زوم کیمرہ لے کر کہوٹہ کے قریب پہنچا اور اسنے بہت دور سے کچھ دھندلی تصاویر بنائی اور جنرل ضیاءالحق سے ایک ملاقات میں اس نے وہ تصاویر ان کے سامنے رکھی اور جنرل ضیاء سے استفسار کیا کہ یہ تصویریں کہوٹہ نیو کلیئر پلانٹ کی نہیں ہیں۔ جنرل ضیاء ہنس دیئے اور انہوں نے امریکی سفیر کو بتایا کہ اس مقام پر دیہاتیوں نے مویشیوں کیلئے باڑے بنا رکھے ہیں۔ وہ تصویر Cow- shed کی ہیں۔ اس سے پہلے ایک فرانسیسی سفیر بھی کہوٹہ کے قریب پہنچنے کی کوشش کر چکا تھا۔ لیکن سیکورٹی پر تعینات اہلکاروں نے موصوف کی ایسی آؤ بھگت کی کہ اس نے ادھر جانے کا دوبارہ قصد نہیں کیا۔ جب ضیاءالحق سے اس نے ذاتی طور پر شکایت کی کہ سیکورٹی والوں نے اس کے دو تین دانت توڑ دیئے ہیں تو ضیاءالحق نے فون پر ہنستے ہوئے کہا You must be joking بہرحال آخر کار ہمارا ملک ایک ایٹمی طاقت بننے میں کامیاب ہو گیا۔ جب چاغی کے پہاڑ سفید ہو گئے تو بھارت اور اسرائیل کے رنگ بھی فرطِ غم اور جھنجھلاہٹ سے زرد اور پیلے ہو گئے۔ ماہ رواں میں امریکا کے ایک ممتاز صحافی سیمور ایم ہرش نے وہاں کے ایک کثیر الاشاعت جریدے دی نیو یارکر میں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں ایک مضمون بعنوان Defending the Arsenel لکھا ہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ پاکستان دو دہائیوں سے ایک ایٹمی طاقت بن چکا ہے اور اس کے پاس 80 سے لیکر 100 بم موجود ہیں جو کہ ملک کے طول و عرض میں بکھرے پڑے ہیں۔ سیمور ایم ہرش کا کہنا ہے کہ حال ہی میں دہشت گردوں نے 17 اکتوبر 2009ء کو سیکورٹی کے لحاظ سے ملک کے محفوظ ترین فوجی ہیڈ کوارٹر (GHQ) پر حملہ کر کے 2 سینئر فوجی افسروں کو ہلاک کر دیا جبکہ 22 فوجیوں کو یرغمال بنا لیا۔ دہشت گرد نے ایک بریگیڈیئر کو بھی اسلام آباد میں صبح کے وقت قتل کر دیا تھا اور دوسری بہت سے دہشت گردیوں کے واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔ سیمور ایم ہرش لکھتا ہے کہ اسلام آباد میں جو بریگیڈیئر قتل کئے گئے دہشت گردوں کو اس کی بابت پہلے سے پتہ تھا کہ وہ کس راستے سے آتے جاتے تھے اس کا مطلب یہ ہوا کہ فوج کے اندر سے کوئی شخص دہشت گردوں سے ملا ہوا تھا اور موصوف نے جو سب سے بھونڈی بات کہی ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں (امریکیوں) کو سب سے بڑا خوف اس بات کا ہے کہ پاکستانی فوج میں بغاوت ہو جائیگی اس لئے پاکستانی فوج کے اندر انتہا پسند عناصر ایک فوجی انقلاب بپا کر کے کچھ ایٹمی اثاثوں کو اپنے قبضے میں لیکر کچھ بم بھی اپنی مرضی کے مطابق ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر سکتے ہیں۔ یہاں میں امریکی صحافی کی اس سوچ کو نہ صرف غیر منطقی مفروضہ سمجھتا ہوں بلکہ یہ شوشہ اس کی ذہنی اختراع سے معمور کیا جاسکتا ہے جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ پاکستانی فوج کی ساخت اور ترکیب کو اتنا کھوکھلا اور مذہبی جنونیوں کی آماجگاہ تصور کرنا نہ صرف سیمور ایم ہرش کی ذہنی ناپختگی کی غمازی کرتا ہے بلکہ یہ منفی سوچ ان کے لئے خفت اور شرمندگی کا باعث بنے گی۔ میں سیمور ایم ہرش کی اطلاع کیلئے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی فوج ایک منضبط اور ڈسپلنڈ اور موٹیویٹیڈ فورس ہے۔ یہ قومی فوج ہے جس کی بنیاد ایک آئیڈیا ایک سوچ ایک نظریہ اور روحانی قوت پر مبنی ہے۔ ہمارے فوجی وطن کی ناموس کیلئے قربان ہونے کیلئے ہر وقت تیار ہیں۔ سوات آپریشن کے دوران 38 افسروں اور 300 جوانوں نے مادر وطن کیلئے خون کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ جنوبی وزیرستان میں شہادت کا رتبہ پانے کیلئے ان میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا جذبہ قابل دید ہے یہاں بغاوت کا لفظ کسی نے ابھی تک سنا نہیں ہے۔ یہ 1857 نہیں ہے جب انگریزوں نے مسلمانوں کے کارتوس میں خنزیر کی چربی اور ہندوؤں کے کارتوس میں گائے کی چربی ڈال دی تھی۔ اس کارتوس کو فعال بنانے کیلئے اس کے ڈھکن کو دانتوں سے کھولنا پڑتا تھا۔ پھر تو بغاوت ہونی ہی تھی۔ ہماری فوج نہ جبری بھرتی پر مشتمل ہے اور نہ ہی پیسے کیلئے لڑتی ہے۔ لہٰذا ایسی کوئی بھی لغزش کے سرزد ہونے کا امکان سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ یہ قائد کے قول اتحاد ، یقین ، تنظیم کی امین ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ ہیلری کلنٹن کا ہمارے ایٹمی اثاثے کے متعلق کیا خیال ہے۔

We have confidence in pakistani government and the military's control over nuclear weapons. ہیلری کلنٹن نے یہ بھی کہا ہے کہ اس سے قطع نظر کے طالبان پاکستانی تنصیبات، یونیورسٹی، اسکولوں،کالجوں اور گنجان آبادی، محلوں، گلیوں اور کوچوں میں پے درپے حملے کر رہے ہیں لیکن انہیں ایسے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں کہ وہ ملک پر قبضہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ صدر اوباما نے بھی این بی سی کے ایک صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کے ایٹمی اثاثے سے متعلق اسکے خدشات کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ” مجھے پورا یقین ہے کہ پاکستان کا ایٹمی اسلحہ خانہ، عسکریت پسند اور دہشت گردوں کے ہاتھ کبھی نہیں لگے گا"۔

سیمور ایم ہرش نے اپنے مضمون میں پوچھا ہے کہ Are the Bombs Safe ہرش نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ امریکی حکام پاکستان کے ساتھ انتہائی حساس نوعیت کی مفاہمتی عرض داشت کو حتمی شکل دینے کیلئے گفت و شنید کر رہے ہیں۔ جس کی رو سے تربیت یافتہ امریکی فوجی یونٹس پاکستانی فوج کی مدد کیلئے امریکا سے بلائی جائیں گی تاکہ کسی بھی ناگہانی صورتحال سے نمٹا جا سکے۔ امریکی کانگریس نے اس سلسلے میں 400 ملین ڈالر کی منظوری دی ہے جسے "Pakistan Counter insurgency Capability Fund" کا نام دیا گیا ہے تاکہ پاکستانی افواج کو فوری امداد بہم پہنچائی جائے جس سے وہ نئے ہتھیار خرید سکیں اور بھرپور طریقے سے ٹریننگ کی طرف توجہ مرکوز کر سکیں۔ سیمور ایم ہرش نے اس مرحلے کو پاک فوج کے ”تشکیل نو“ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ سیمور ایم ہرش کے مطابق پاکستانی فوج اور امریکا کے درمیان اس نوعیت کی مفاہمتی یادداشت کو حتمی شکل دینے کیلئے انتہائی راز داری سے کام لیا گیا تھا اس لئے کہ پاکستان میں امریکی مخالف جذبات بھڑکنے کا احتمال تھا۔ کیوں کہ پاکستانیوں کی اکثریت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ امریکا کا اصل مقصد ہمارے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت زیادہ مؤثر بنانا نہیں ہے بلکہ اس کا اول اور واحد مقصد پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو نہ صرف غیر فعال بنانا ہے بلکہ لیبیا کے طرز پر پاکستان کے نیوکلیئر کمپلیکس کو مکمل طور پر تباہ کر دینا ہے۔ سیمور ایم ہرش نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ ایٹمی اثاثے پاکستانیوں کیلئے عزت وقار اور غیرت کی علامت ہے اور یہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف ایک تریاق کی حیثیت رکھتا ہے۔ بھارت نے 1974ء میں ایٹمی دھماکا کیا تھا جبکہ پاکستان نے اس کا جواب 1998 میں دیا تھا۔ یہاں میں سیمور ایم ہرش سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے کے متعلق اداریہ کیوں لکھ رہے ہیں اس نے بھارت کی ایٹمی صلاحیت کے بارے میں تحقیق کیوں نہیں کی ہے اور کون کہتا ہے کہ بھارت میں دہشت گردی نہیں ہو رہی ہے اور یہ کہ وہاں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی عروج پر نہیں ہے پھر ان کا یعنی بھارت کا ایٹمی اثاثہ دہشت گردوں کے ہاتھ میں کیوں نہیں پڑ سکتا ہے۔ میں کشمیر سے شروع کرتا ہوں جہاں کشمیر کی آزادی کیلئے عسکریت پسند بڑی بے جگری اور بہادری سے انڈین آرمی سے نبرد آزما ہیں۔ بھارت میں خود مختاری کی تحریک ارونچل پردیش، آسام ، بوڈالینڈ ، کھپلنگ میگھالیا ، میزورام ، ناگالینڈ ، تیرہ پورہ ، بندیل کھنڈ ، گورکھالینڈ، جھارکھنڈ وغیرہ میں برسوں سے چل رہی ہے۔ کیا ان تحریکوں کے بانی اور کارکنان بھارت کے ایٹمی اثاثوں کیلئے کسی خطرے کا مؤجب نہیں بن سکتے ہیں کیا یہ بھارت کے طالبان نہیں ہیں پھر بھارت کے ایٹمی اثاثوں کو بربادی اور تہس نہس ہونے سے بچانے کیلئے امریکی خفیہ پلاننگ کیوں نہیں کر رہے ہیں۔ لیکن امریکا تو ان کے ایٹمی پروگرام میں تعاون کر رہا ہے کیا امریکا کا یہ تعاون ایٹمی پھیلاؤ کے زمرے میں نہیں آتا۔ حال ہی میں امریکا نے ایٹمی ہتھیار کو تقویت بخشنے کیلئے بھارت کو سپر کمپیوٹرز اور نیوکلیئر ری ایکٹر فراہم کئے ہیں۔ سیمور ایم ہرش کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان ایٹمی تعاون میں اس وقت مزید تیزی آئی جب گزشتہ مارچ اوباما نے اپنی نام نہاد افغان پالیسی کا اعلان کیا اور پاکستان پر زور دیا کہ وہ پاکستان میں طالبان کے خلاف ملٹری ایکشن مزید جارحانہ انداز میں کرے اور اسے اور فیصلہ کن بنائے۔ سیمور ایم ہرش نے مزید انکشاف کیا کہ امریکا اور پاکستان کے درمیان ایٹمی اشتراک اس وجہ سے بھی پروان چڑھا اس لئے کہ ایڈمرل مائیکل مولن اور جنرل کیانی کے آپس میں بہت اچھے تعلقات تھے۔ سیمور ایم ہرش نے مزید کہا ہے کہ امریکا پاکستان کے ایٹمی اثاثے پر جزوی کنٹرول اور اہم معلومات حاصل کرنا چاہتا تھا تاکہ وہ بھارت کو اس بات پر قائل کرسکے کہ چونکہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم میں امریکا کا بھی کچھ کردار ہے اس لئے وہ پاکستان کی مشرقی سرحد پر فوجوں کی تعداد میں تخفیف کرے تاکہ پاکستان اپنی فوجوں کا بیشتر حصہ مغربی سرحد پر منتقل کر سکے اور افغان سرحد پر دہشت گردوں کی سرکوبی مؤثر انداز میں کی جاسکے۔ جنرل طارق مجید چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی نے سمیور ایم ہرش کے دعوں کو بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کیلئے کسی غیر ملکی کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس کی حفاظت کا بہت مربوط انتظام پہلے ہی سے موجود ہے۔ جنرل مجید نے مزید کہا کہ ” میں انتہائی غیر مبہم الفاظ میں اس بات کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں کہ ایٹمی صلاحیت سے متعلق کسی قسم کی بھی معلومات کسی بھی غیر ملکی فرد یا ادارے سے شیئر کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔ ایسی حسّاس نوعیت کی معلومات کسی غیر ملکی کو بہم پہنچانے کا خیال ہی ایک جرم تصور کیا جاتا ہے“۔ جنرل مجید سے جب یہ پوچھا گیا کہ امریکی ہمارے ایٹمی اثاثوں کے متعلق کتنا کچھ جانتے ہیں؟ جنرل صاحب نے اس سوال کا جواب بہت خوبصورت پیرائے میں دیا ہے۔ ان کا جواب یہ تھا۔

"Only as much as they can guess and nothing more" جنرل مجید نے بات کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ یہ پروپیگنڈا ہمارے دشمنوں کی سازش ہے تاکہ پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جائے اور پاکستانی عوام میں بد دلی، بے چینی اور خوف و ہراس پھیلایا جائے۔
Abid Hussain burewala
About the Author: Abid Hussain burewala Read More Articles by Abid Hussain burewala: 64 Articles with 90701 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.