زوال ۔۔۔۔

افراد و اقوام کی تاریخ حیات عروج و زوال سے بھری پڑی ہے ۔ جہاں عروج کے پیچھے طویل جدوجہد اور تپاسیہ کارفرما ہوتی ہے بالکل اسی طرح زوال و پستی کے بھی ان گنت محرکات اور عوامل ہوتے ہیں ۔ ان عوامل میں سر فہرست تکبر و غرور ہے جو مہینوں میں عروج کو زوال میں بدل دیتا ہے اور بعض اوقات مالک ارض و سمآ جابرین و متکبرین کی رسی دراز کرکے مہلت در مہلت دیتا ہے اور کبھی لمحوں میں متکبرین کا تکبر خاک میں ملا دیتا ہے ۔ یہ سب بساط اس مالک کی بچھائی ہے اورنہ جانے کب پانسہ کسطرف پلٹ دے اسکے راز وہی جانے ، چاہے تو ذرے کو اٹھا کر اوج ثریا پر پہنچا دے اور گر چاہے تو عزت و دولت کے تخت سے اٹھا کر ذلت و رسوائی کی اندھیری غار میں دھکیل دے ۔

عید کے پرمسرت دن ایک سیٹھ دولت اور سٹیٹس کے خمار سے سرشار اپنی حسین و جمیل بیوی کے ساتھ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا تھا ۔ انواع و اقسام کے کھانے میز پر چن دیے گئے ، سیٹھ صاحب نے کھانے کے لئیے ہاتھ بڑھایا تو دروازے پر دستک کے ساتھ ایک آواز گونجی کہ اے اہل خانہ میں دو روز سے بھوکا ہوں خدا کے لئیے مجھے چند لقمے دے دو ۔ سیٹھ صاحب کو فقیر کی صدا ناگوار گذری تیوری چڑھا کر کہنے لگے یہ منگتے عید کے روز بھی سکون نہیں لینے دیتے ۔ بیوی نے کچھ کھانا فقیر کو دینا چاہا مگر شوہر نے منع کردیا - جب فقیر نے اپنی صداؤں کا جواب نہ پایا تو دروازے پر تھوڑا زور ڈالا تو اسے کھلا پاکر فقیر کوری ڈور میں آکر صدا لگانے لگا - سیٹھ کی نگاہ جب فقیر پر پڑی تو وہ آپے سے باہر ہوگیا ، کھانے کی میز سے اٹھا اور فقیر کو دھکے دینے لگا اور مغلظات بکنے لگا - آخری دھکے کے نتیجے میں فقیر دروازے سے باہر گلی میں گرا اور بالآخر اٹھ کر چلا گیا ۔

عید کے بعد سیٹھ کو کاروبار میں نقصان پر نقصان ہونے لگا چند ماہ میں بنگلہ فیکٹری کاریں اور زیورات نیلام ہوگئے جب نوبت فاقوں تک پہنچی تو سیٹھ اپنی بیوی سے کہنے لگا کہ اب تو میرا اپنا روح اور جسم کا ناطہ برقرار رکھنا محال ہوگیا ہے ، ایسے میں تمھارا بوجھ اٹھانا میرے لئیے ممکن نہیں لہذا میں باحوش و حواس تمھیں طلاق دیتا ہوں ۔ بیوی نے طلاق لی الوداع کہا اور عدت پوری کرنے کے بعد ایک اور امیر کبیر شخص کے ساتھ شادی کرلی اور زندگی گذارنے لگی ۔

دوبارہ عید کا دن آیا یہ خاتون اور اسکا نیا شوہر کھانے کی میز پر بیٹھے کھانا شروع کرنے لگے تو عین اسوقت دروازے پر دستک ہوئی اور آواز آئی کہ میں سخت بھوکا ہوں خدا کے لئیے مجھے کھانا دے دو ۔ اس نئے خاوند نے سارا کھانا چادر میں باندھا اور بیوی سے کہا ہم اور بنوا لیں گے چلو اس فقیر کو سارا کھانا دے دیتے ہیں ، دونوں میاں بیوی دروازے پر آئے جب بیوی نے فقیر کو دیکھا تو سکتے میں آگئی - نئے شوہر نے پوچھا کیا ہوا ؟ بیوی کہنے لگی جناب پچھلے سال میں اس فقیر کی بیوی تھی اور آج کی طرح عید کا دن تھا اور اسی طرح ایک فقیر آیا اور اسنے کھانے کا سوال کیا تھا مگر میرے اس سابقہ خاوند نے تکبر کے نشے میں اس فقیر کو دھکے دے کر گھر سے نکال دیا تھا ۔ شوہر کہنے لگا مجھے غور سے دیکھو پچھلے سال تمہاری دہلیز پر آنے والا فقیر میں ہی تھا ۔ الله رب العزت دنوں کو لوگوں پر پھیرتا ہے اس کبریاء کو انسانوں کا تکبر پسند نہیں ، اسکی نظر میں امیر فقیر ، اپر کلاس ، لوئر کلاس سب برابر ہیں ۔ یہ سٹیٹس کلاسز انسانوں کی بنائی ہوئی ہیں ورنہ الله نے تو صرف ایک کلاس بنائی تھی ہماری اور وہ ہے انسانیت ، ہم سب آدم کی اولاد ہیں اور سب برابر ہیں ہاں اسکی بارگاہ میں اگر کسی کی عزت ہے تو اسکی جو متقی ہے ۔

Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 186568 views System analyst, writer. .. View More