برداشت ،تحمل ، مروت ،بردباری
اوردرگذرکرنا شاید پرانے زمانے کی باتیں ہیں اب تو زیادہ تر لوگوں میں قوت
ِ برداشت کم ہوتی جارہی ہے جس کے باعث بات بے بات پر لڑائی جھگڑے معمول بن
گئے ہیں معمولی’’ تو تو میں میں‘‘پر اسلحہ نکل آتاہے پھر سیاستدان
متاثرہوئے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں اسی لئے اخبارات ان کی ’’ تو تو میں میں‘
سے بھرے رہتے ہیں اور عوام بھی سمجھتے ہیں
ہوتاہے شب وروز تماشا میرے آگے
آپ نے اکثردیکھاہوگارمضان شریف یا عیدین کے قریب فقیروں کے غول کے غول گروہ
درگروہ شہروں میں واردہوتے ہیں۔۔ ان کا حلیہ ، دل سوز صدائیں اور مکالمے
اتنے زوداثرہوتے ہیں کہ لوگوں کو ان پر خواہ مخواہ ترس آنے لگتاہے کئی
بھکاری اتنے ڈھیٹ ہوتے ہیں کہ بھیک لئے بغیر جان چھوڑنے کو تیارہی نہیں
ہوتے ۔۔۔ مذہبی نقطہ نظر سے بھی بھیک مانگنا انتہائی مکروہ کام ہے نبی ٔ
اکرم ﷺ کا فرمان ہے قیامت کے روز بھکاری کے چہرا سیاہ ہو گا۔۔۔اگر غور کریں
تو محسوس ہوگا کہ حقیقتاً زیادہ تر بھیک مانگنے والے قابل ِ رحم نہیں یہ
معاشرے کے ناسور ہیں جنہوں نے محنت مزدوری کرنے کی بجائے اسے پیشہ
بنالیاہےOOOآج ہمارے معاشرے میں لوگ پیسے کمانے کے چکر میں اپنے گھر اور
گھر والوں سے لاپرواہ ہوگئے ہیں بے ہنگم آزادی، موبائل فون،انٹرنیٹ اور
کیبل سسٹم میں سارا دن گھرگھر ٹی وی پر چلنے والی لچرفلموں نے خواتین و
مردکو انتہائی آزادخیال بنا دیاہے ۔زیادہ تر نوجوان نسل نے بے حیائی کو
محبت سمجھ لیاہے اب تو گھر والوں کو علم بھی نہیں ہوتا لڑکیاں اپنے بوائے
فرینڈ بنا لیتی ہیں اور’’تعلقات‘‘ بھی استوارکرلیتی ہیں اہل ِخانہ کو اس
وقت ہوش آتی ہے جب لڑکیاں حاملہ ہوجاتی ہیں اور لڑکے رفو چکر۔۔خدارا !سب
ہوش کے ناخن لیں OOO صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جا تاہے جس نے
معاشرے میں توازن قائم کررکھاہے یہ توازن نہ ہوتو جنگل کا قانون بھی شرما
جائے،یہ میڈیا کا خوف ہے کہ حکمران طبقہ ، بااختیار لوگ، بڑے سے بڑا
افسر،اداروں کے کرتا دھرتا، متکبر افرادیاپھرظالم اپنی من مانی کرنے سے
گریزکرتے ہیں ورنہ ظلم کی حاکمیت میں کوئی پوچھنے والا بھی نہ ہو ۔صحافت کا
شعبہ عوام کی داد رسی،انصاف کی فراہمی،مسائل اجاگر کرنے اورلوگوں کو باخبر
رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔وہ لوگ کتنے قابل ِ تحسین ہیں جوعام
آدمی کو ظلم سے بچانے کیلئے ظالموں سے ٹکرا جاتے ہیں پاکستان میں درجنوں
صحافی اپنے پیشہ وارانہ فرائض کے دوران اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں
یقینا ان شہداء پر انسانوں کو ناز ہے اورانسانیت ان پر فخرکرتی ہے لیکن ان
تمام باتوں کے باوجود لوگوں کوآگہی سے روشناس کروانا،قلم سے جہاد شایددنیا
کا سب سے مشکل کام ہے OOO سچ تو یہ ہے کہ جمہوریت ہو یا آمریت عام آدمی کو
کبھی بھی ریلیف نہیں ملا۔محرومیاں ہی محرومیاں غربیوں کا مقدر بنی ہوئی
ہیں۔سرکاری نوکریاں اور کاروبار کے وسائل پر عام آدمی کا کوئی استحقاق نہیں
، پڑھے لکھے نوجوان بیروزگارپھرتے ہیں اور نااہل لوگ آگے ۔۔۔ بتائیں جناب
یہ کون سی جمہوریت ہے ؟ کیسے جمہوری تقاضے؟دل نہیں مانتا ،ذہن تسلیم نہیں
کرتا OOO حقیقت یہی ہے اس جمہوریت میں عام آدمی کیلئے کچھ بھی نہیں۔۔
لگتاہے بیشتر موجودہ قومی رہنماؤں میں سے کوئی بھی دل سے موجودہ سسٹم کو
تبدیل کرنا نہیں چاہتا سب کی خواہش ہے یہ موج میلہ ایسے ہی ہوتا رہے جب تک
جمہوریت کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچیں گے ایسی جمہوریت کا کیا فائدہ ؟۔۔
پھر ملک میں جمہوریت ہو یا آمریت ۔۔عام آدمی کو کیا فرق پڑتاہے۔ اس میں
کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں جب تک موجود ہ استحصالی نظام موجود ہے بہتری
کی کوئی امید نہیں OOO دور ِحاضر میں پاکستان کو جن چیلنجزکا سامناہے حالات
جس نہج پر پہنچ گئے ہیں عوام جن مسائل سے دوچارہیں اس کا تقاضاہے کہ
پاکستان جمہوریت کی بدولت وجودمیں آیا اور جمہوریت ہی سے ترقی ممکن ہے ملک
میں جو بھی تبدیلی آئے وہ جمہوری اور امن طریقہ سے آنی چاہیے
محاذآرائی،جلاؤ گھیراؤ سے حالات خراب ہو سکتے ہیں جس کا ملک ہرگز متحمل
نہیں ہو سکتا اس سے خانہ جنگی جیسی کیفیت پیداہونے کااحتمال ہے سب سے بڑھ
کر یہ بات کہ اس وقت ملک میں اشرافیہ کا پاور سٹریکچر اتنا سٹرونگ ہے کہ اس
نے آکٹوپس کی طرح ہرچیزکو جکڑرکھاہے انہیں ڈرہے کہ کسی قسم کی کوئی تبدیلی
آئی تو ان کی سیاست، اقتدار اور مراعات کو خطرات لاحق ہو جائیں گے اس لئے
بھی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے OOOیہ بھی کتنی عجیب بات ہے کہ1973ء کے متفقہ
دستورمیں فوجی ڈکٹیٹروں اورجمہوری حکمرانوں نے21ترامیم کرکے اس کا حلیہ
بگاڑکررکھ دیا یہ بات طے ہے کہ آخری 5 آئینی ترامیم عوامی مفادمیں ہرگزنہیں
کی گئیں بلکہ اس کا مقصد شاہانہ اختیارات حاصل کرنا اور ا نتخابی عمل پر
اثراندازہونا تھا تاکہ حسب ِ منشاء حکومتوں کی تشکیل کی جا سکے سوچنے کی
بات ہے تیسری باروزیر ِ اعظم بننا،حکومت اور اپوزیشن کی مشاورت سے نئے چیف
الیکشن کمشنرکا تقرر،الیکشن کمیشن کی تشکیل، چیف جسٹس، آرمی چیف،نگران
حکومتوں کا قیام یاچیئرمین نیب کی تقرری سے عام آدمی کیا مفادوابستہ ہے ان
کو اس سارے معاملات سے کیا سروکار؟ یہ اشرافیہ کے اپنے مفادات ہیں حقیقت
ہمیشہ تلخ ہوتی ہے حکمرانوں نے 1973ء کے متفقہ دستورمیں تمام ترامیم اپنے
مخصوص سیاسی مفادات کیلئے کیں یہ گیم اب تلک جاری ہے کسی کا مطمع ٔ
نظرعوامی بھلائی نہیں اس کے نتیجہ میں حکمرانوں نے دولت کے انبار اکٹھے
کرلئے اور عوام روٹی کے لقمے لقمے کو ترس رہے ہیں یہی اس ملک کا سب سے
بڑاالمیہ ہے۔ |