خواتین ہی زیر عتاب کیوں؟
(عابد محمود عزام, karachi)
گینگ ریپ کیس سے متعلق ”بھارت کی
بیٹی“ کے نام سے بنائی جانے والی دستاویزی فلم کو بھارت میں نشر کرنے پر
پابندی کے بعد بھارتی حکومت کو دنیا بھر اور خود بھارت کی معروف شخصیات کی
جانب سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔ بالی وڈ کی متعدد شخصیات نے بھارتی حکومت
پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے: ”بھارت کی بیٹی نامی دستاویزی فلم معاشرے کو
اپنے اندر جھانکنے پر مجبور کرتی ہے، یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ بھارت
میں اس فلم پر پابندی لگائی ہی کیوں گئی ہے؟ بھارت میں دیویوں کی عبادت کی
جاتی ہے، لیکن حقیقت میں ہر بچی، ہر بیٹی، ہر بہو ذلیل اور پریشان کی جاتی
ہے۔ ہمارا معاشرہ کہتا ہے کہ ہماری ثقافت 4000 سال پرانی ہے۔ ایسی ثقافت کو
چولہے میں ڈال دینا چاہیے جو عورت کو ذلیل کرتی ہے۔“ گینگ ریپ کیس کے متعلق
بنائی جانے والی دستاویزی فلم ”بھارت کی بیٹی“ برطانوی نشریاتی ادارے اور
انڈیا کے این ڈی ٹی وی چینل سمیت کئی ممالک میں 8 مارچ کو یوم خواتین کے
موقع پر دکھائی جانی تھی، لیکن بھارتی عدالت اور حکومت نے اس کی نمائش پر
پابندی عاید کردی اور بھارتی حکومت نے فلم کو ےوٹےوب سے بھی ڈیلےٹ کروا دےا۔
لہٰذا بھارت کی جانب سے تمام تر دباﺅ کو پس پشت ڈالتے ہوئے برطانوی نشریاتی
ادارے نے یہ دستاویزی فلم5 مارچ کو برطانیہ میں ہی نشر کی، جس پر بھارتی
حکام سےخ پا ہوئے اور ادارے کے خلاف کارروائی کی دھمکی بھی دی۔
اس دستاویزی فلم کا محرک ایک 23 سالہ بھارتی لڑکی کے ساتھ بربریت کی مثال
سمجھا جانے والا ریپ کا وہ واقعہ ہے، جو 16 دسمبر 2012ءکو بھارت میں پیش
آیا تھا، جس کے13 روز بعد متاثرہ لڑکی مرگئی تھی۔ اس گینگ ریپ میں ایک مجرم
کا نام مکیش سنگھ تھا، جس کا انٹرویو اس دستاویزی فلم میں شامل کیا گیا ہے۔
انٹرویو میں مجرم نے مقتولہ کو اس واقعے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے جو بیان
دیا وہ پوری دنیا کے لیے ایک صدمے سے کم نہیں۔ مجرم مکیش سنگھ کا کہنا تھا:
”جسمانی زیادتی یا ریپ کے کیس میں لڑکے سے زیادہ لڑکی ذمہ دار ہوتی ہے۔ جس
وقت اس کے ساتھ زیادتی کی جا رہی تھی اس وقت اسے مزاحمت نہیں کرنا چاہیے
تھی۔ انٹرویو میں مجرم نے کہا: ”اس کی پھانسی مستقبل میں عصمت دری کی شکار
خواتین کی زندگی کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہوگی۔ اب اگر کوئی ریپ کرے گا
تولڑکی کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔ لوگوں کو حق حاصل ہے کہ وہ ایسی لڑکیوں کو
سبق سکھائیں اور خواتین کو ان لوگوں کے خلاف نہیں بولنا چاہیے۔“ ریپ کے
بھارتی مجرم کا انتہائی جہالت اور خواتین دشمنی پر مبنی یہ بیان نہ صرف
بھارت کے معاشرے کی گھناﺅنی تصویر پیش کرتا ہے، بلکہ پوری دنیا کے لیے باعث
تشویش بھی ہے اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کی دعویدار ریاست میں
خواتین کے غیر محفوظ ہونے کی حقیقت کو بھی واضح کرتا ہے اور یہ بتلاتا ہے
کہ اصلی بھارت اسکرین پر نظر آنے والے بھارت سے کتنا مختلف ہے۔ 1.2 بلین کی
آبادی والے ملک بھارت میں لاکھوں مردوں کو یہی سکھایا جاتا ہے کہ معاشرے
میں عورت کے لیے لباس کا چناؤ اور اس کی سرگرمیوں کی حدود واضح ہیں۔ اگر وہ
ان حدود پر عمل نہیں کرتیں تو ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی ذمہ دار وہ
خود ہیں۔ بھارت میں بہت سے ہندو سیاستدانوں کی بھی یہی سوچ ہے۔ آل انڈیا
ڈیمو کریٹک ویمن ایسوسی ایشن کی سربراہ جگمتی سنگون کا کہنا ہے کہ مجرم
سنگھ نے اپنے بیان میں وہ کچھ کہا ہے جو اس نے اپنے معاشرے کے لیڈروں سے
سنا ہے۔ مکیش سنگھ ہمارے لیڈروں کی طرف سے نوجوان مردوں کے لیے قائم کی
جانے والی مثالوں کی پیروی کر رہا ہے۔“
دنیا بھر کی مانند بھارت میں بھی خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور اس
ضمن میں خواتین کے احترام کی بابت بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں، مگر بھارت
میں خواتین کی حالتِ زار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ عوامی مقامات پرنامناسب
فقرے بازی، دست درازی اور ہراساں کرنے کے واقعات بھارتی خواتین کے لیے ایک
بھیانک خواب کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ خواتین کی بے حرمتی اگرچہ دنیا کے
دیگر ملکوں میں بھی ہوتی ہے، مگر بھارت میں یہ گھناﺅنی اور قابلِ مذمت روش
معاشرے کا جزلاینفک بن چکی ہے۔ ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات صرف قانون میں
خامی کے ہی نہیں، بلکہ بھارتی معاشرے کی بے حسی کے بھی عکاس ہیں۔ ہر برس
جنسی زیادتی کے ہزاروں واقعات کے باوجود بھارتی معاشرے میں انسانیت کے خلاف
اس بھیانک جرم کی جڑ پر قابو پانے کے طریقوں پر کبھی کوئی منظم اور موثر
بحث نہ ہوسکی۔ بھارتی معاشرے کے اس غیر پسندیدہ حصے کی حالت بھارت میں اب
یہاں تک آن پہنچی ہے کہ سیر و سیاحت یا دیگر امور کی خاطر آنے والی غیر
ملکی خواتین کو بھی جنسی تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا رجحان فروغ پذیر ہے۔
بھارت میں اب تک غیر ملکی سیاح خواتین کے ساتھ بداخلاقی کے کئی واقعات
سامنے آ چکے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے کچھ عرصہ قبل برطانیہ اور سوئس حکومتوں
نے اپنی خواتین کو بھارت کی سیر و سیاحت سے گریز کرنے کی ہدایت جاری کی
تھی۔
یہاں یہ تلخ حقیقت بھی سامنے رہنی چاہیے کہ اگرچہ بھارت میں خواتین مظلوم
مخلوق کے طور پر زندگی گزار رہی ہیں، لیکن باقی دنیا میں بھی ان کے ساتھ
امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ دنیا کی ہر تیسری عورت تشدد کاشکار ہے۔
ہرسال دنیا بھر میں عورتوں سے جنسی زیادتی کے ڈھائی لاکھ واقعات ہوتے ہیں۔
دنیا بھر میں ہر سال 40 لاکھ خواتین کو عصمت فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے
اور ہر سال لاکھوں خواتین کو فروخت کیا جاتا ہے۔ معاشرے میں عورت کے ساتھ
ہونے والے برتاؤ کا موضوع قدیم ایام سے ہی مختلف معاشروں اور تہذیبوں میں
زیر بحث رہا ہے۔ دنیا میں انسانی زندگی کا دار و مدار جتنا مردوں پر ہے،
اتنا ہے عورتوں پر بھی ہے۔ جس طرح زندگی گزارنے کے لیے والد، بھائی، بیٹا
اور شوہر ایک عورت کی ضرورت ہے، بالکل اسی طرح ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے
بغیر ایک مرد کی زندگی بھی ادھوری ہے۔ فطری طور پر عورتیں خلقت کے انتہائی
اہم امور سنبھال رہی ہےں۔ افسوس! انسان اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود صنف
نازک کے بارے میں کوئی صحیح راستہ منتخب کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ مختلف
معاشروں میں عورتوں پر ظلم ہوتا ہے، جو انسان کی جہالت کا نتیجہ ہے۔ پوری
تاریخ میں ہمیشہ عورت ظلم کی چکی میں پسی ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ رہی
کہ عورت کی قدر و منزلت اور مقام و اہمیت کو نہیں سمجھا گیا۔ عورت کو ایک
بلند مرتبہ انسان اور خاندان کے بنیادی عنصر وجودی کی حیثیت سے دیکھا جانا
چاہیے۔ اگر کوئی ملک حقیقی معنی میں تعمیر نو کا خواہاں ہے تو اس کی سب سے
زیادہ توجہ ملک کی خواتین پر ہونی چاہیے، کیونکہ دنیا کا ہر انسان عورت کی
کھوکھ سے جنم لیتا ہے اور عورت کی ہی گود میں آنکھ کھولتا ہے۔ |
|