سزا کیلئے ضروری ہے قاتل کا مسلماں ہونا

تسنیم کوثر

بی جے پی۔پی ڈی پی حکومت بنے ابھی چار دن بھی نہیں ہوئے کہ مسرت کی رہائی کو لے کر لوک سبھا میں جم کر ہنگامہ ہوا۔ اپوزیشن نے اس معاملے میں پی ایم سے جواب کا مطالبہ کیا۔ کانگریس رہنما ملکاارجن کھڑگے نے کہا کہ سینکڑوں لوگوں کی موت کے ذمہ دار مسرت کو چھوڑنا ملک کی سلامتی کے ساتھ کھلواڑ کرنا ہے۔ یہ سنگین مسئلہ ہے۔ ادھر، اس معاملے پر راجیہ سبھا میں بھی خوب ہنگامہ ہوا۔ اپوزیشن نے مسرت کی رہائی کو ملک کے لئے خطرناک قرار دیا۔کانگریس نے حکومت پر الزام لگایا کہ جموں و کشمیر میں بی جے پی اور پی ڈی پی کی حکومت ہے ایسے میں مسرت کی رہائی کے پیچھے بی جے پی بھی اتنی ہی ذمہ دار ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بی جے پی کے تعاون سے ہی پی ڈی پی نے مسرت کی رہائی کی ہو۔مفتی اکیلے مسرت کو چھوڑنے کا فیصلہ نہیں لے سکتے ہیں۔

حالانکہ بی جے پی رہنما اور جموں کشمیر کے نائب وزیر اعلی ڈاکٹر نرمل سنگھ نے کہا ہے کہ اس معاملے میں پی ڈی پی سے احتجاج درج کیا جائے گا۔ تاہم، اتحادپر ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں فیصلہ پارٹی کے قومی صدر امت شاہ کو لینا ہے۔ ادھر، پی ڈی پی اپنے موقف پر قائم ہے۔پارٹی کے ترجمان اور وزیر تعلیم نعیم اختر کا کہنا ہے کہ مسرت کو رہا کر کے پی ڈی پی نے کم از کم مشترکہ پروگرام کی خلاف ورزی نہیں کی۔ان کا کہنا ہے کہ مشترکہ پروگرام میں واضح کیا گیا ہے کہ کشمیر میں حالات معمول پربنانے کے لئے حریت اور علیحدگی پسند لیڈروں سے مذاکرات کیا جائے گا۔ نعیم اختر کا کہنا تھا کہ کسی کو جیل میں بند رکھ کر اسے مذاکرات میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔

ایسے وقت میں جب ایک مسرت عالم کی رہائی پر ہندوستانی سیاست میں ابال آیا ہوا ہے ہمیں ماضی پر بھی ایک نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کو بھی سمجھا جا سکے کہ اس معاملے پر پورا ہندوستان سرپر اٹھانے والے ہمارے سیاست داں نہ صرف یہ کہ کھیل کھیل رہے ہیں بلکہ اپنی متعصبانہ ذہنیت کا ثبوت بھی پیش کررہے ہیں۔ذرا یاد کیجئے 1984کے سکھ مخالف فسادات،بہار کے بھاگلپور کا منظم دنگا،میرٹھ ملیانہ کی منظم انسانی نسل کشی، 1992میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد ممبئی میں ہونے والے مسلم کش فسادات ، ہندوستان کی تاریخ کے بدترین اور دردناک گجرات فسادات جس میں ہزاروں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا،ہزاروں ماؤں کی کوکھ اجاڑ دی گئی،ہزاروں بچے یتیم ہوگئے،حالیہ برسوں میں اترپردیش کے مظفر نگر اور مختلف اضلاع میں ہوئے فسادات،آسام کا کوکراجھاڑ،ایسے ہی نہ جانے کتنے فسادات کی ہولی کھیلنے والے ہندوستانی سیاست داں آج ایک سر میں ایک مسرت عالم کی رہائی پر ہنگامہ بپاکررہے ہیں جبکہ آج کی تاریخ میں سکھ مخالف فسادات کے ملزم جگدیش ٹائٹلر ،سجن کمار،گجرات فسادات کے ملزم نریندر مودی،امت شاہ ،مایا کوڈنانی ،مظفر نگر فسادات کے ملز م سنگیت سوم نہ صرف یہ کہ آزاد گھوم رہے ہیں بلکہ ان میں سے زیادہ تر تو زیڈ پلس سیکورٹی کے سایے میں محفوظ ہیں۔اس ضمن میں کانگریس ہویا بی جے پی،سماجوادی پارٹی ہویا بی ایس پی،راشٹریہ جنتادل ہویا راشٹروادی کانگریس پارٹی سبھی نے ماضی میں اقتدارکا مزہ تو خوب لوٹا لیکن جب فسادات کی جانچ اور اس کے ملزمین کو سزادلانے کی بات آئی تو اپنی بغلیں جھانکتے نظر آئے ۔سابق وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤسے لے کر اٹل بہاری باجپئی،منموہن سنگھ سے لے کر اب نریندرمودی تک یہ سب اسی راہ پر عمل پیرا ہیں جو ان کی اصلیت ہے۔دراصل ان سب کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ اپنی سیاسی روٹی سینکی جائے اس کے لئے خواہ کوئی بھی حربہ اپنا نا پڑے۔

تاریخ شاہد ہے کہ 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے دوران پاکستان اور بھارت کی سرحد کے قریب فسادات میں پانچ لاکھ کے قریب افراد جاں بحق ہوئے۔ لیکن ایک سال بعد 1948 میں ہزاروں مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔تاہم حکومت کی جانب سے اس واقعے کی تحقیقات کی رپورٹ کبھی منظرعام پر نہیں لائی گئی ،یہ قتل عام بھارت کے وسط میں واقع ریاست حیدر آباد میں ہوا۔تقسیم ہند پر تمام ریاستیں بھارت کا حصہ بننے پر تیار تھیں لیکن حیدر آباد کے نظام کا کہنا تھا کہ وہ خودمختار ہی رہیں گے۔ بھارتی حکومت کو یہ بات پسند نہ آئی،ستمبر 1948 میں اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے فوج کو حیدر آباد میں داخل ہونے کے احکامات جاری کیے۔ فوج نے ظالمانہ کارروائی کرتے ہوئے مسلمانوں کی دکانیں،مکانوں کو لوٹنے اور تباہ کرنے میں ہندوؤں کی حوصلہ افزائی کی،کئی موقعوں پر فوج نے خود مسلمانوں کو قتل کیا،کئی دیہات اور قصبوں میں بھارتی سکیورٹی فورسز نے مسلمان مردوں کو گھروں سے نکالا اور اوران کو قتل کیا،اس قتل عام کی تحقیقات پر سندر لال کمیشن بنایا گیا جس کے مطابق 40 ہزار مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ہندوستان میں فسادات کا یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ چلتا رہا۔ آزادی کے بعد ہزاروں فسادات ہوئے جن میں لاکھوں افراد مارے گئے۔بھارت میں فسادات یا تو انتظامی نااہلی کے سبب ہوتے ہیں یا پھر حکومت کی پشت پناہی سے اس لیے فسادیوں کے خلاف عموماً کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ہزاروں انسانوں کے قاتل سیاسی تحفظ اور پشت پناہی کے ساتھ بے خوف و خطر گھوم رہے ہیں۔ فسادات میں بڑا نقصان ہمیشہ مذہبی اقلیتوں کا ہی ہوتا رہا ہے۔گجرات کے فسادات بھارت کی تاریخ میں پہلے ایسے فسادات تھے جن کی جیتی جاگتی خوفناک تصاویر لوگوں نے ٹیلی ویژن کے توسط سے پہلی بار براہِ راست دیکھیں۔اور جس وزیر اعلی کے زیراقتداریہ سب کچھ ہوا وہ آج بھارت کے منصب عظمیٰ پر براجمان ہیں۔

1984 کے سکھ مخالف فسادات اس سے کہیں بڑے پیمانے پر ہوئے تھے اورفسادیوں نے انسانیت کے خلاف جرائم کی نئی تاریخ لکھی تھی لیکن چار ہزار انسانوں کے قتل اور دس ہزار سے زیادہ انسانوں کو مجروح کرنے کے جرم کی پاداش میں شاید دس افراد کو بھی سزا نہیں ہوئی۔گجرات میں بھی یہی صورت حال تھی۔ متاثرین نے حقوقِ انسانی کی تنظیموں کی مدد سے رپورٹس درج کرائیں لیکن پولیس نے اس طرح ان معاملوں کی تفتیش کی کہ ایک کے بعد ایک سارے کیس ڈھہ گئے۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد ملک کے کئی شہروں میں فسادات ہوئے تھے۔ سب سے بڑا فساد ممبئی میں ہوا جس میں ایک ہزار سے زیادہ مسلمان مارے گئے تھے۔سری کرشنا کمیشن نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں اہم قصورواروں کی شناخت کی تھی لیکن ایک ہزار سے زیادہ انسانوں کے قتل کے لیے ایک بھی شخص کو سزا نہ دی جا سکی۔لالو یادو 1989 کے بھاگلپورکے فسادات کے بعد اقتدار میں آئے تھے لیکن انھوں نے 15 برس کے اپنے دورِ اقتدار میں متاثرین کے لیے کچھ نہ کیا۔ملائم سنگھ یادو نے میرٹھ کے ملیانہ اور ہاشم پورہ محلے کے درجنوں مسلمانوں کا قتل کرنے والے نیم فوجی فورس پی اے سی کے اہل کاروں کو نہ صرف یہ کہ بحال کیا بلکہ ان میں سے کئی کو ترقی بھی دی۔ ملائم کی حکومت قصور وار اہل کاروں کے خلاف مقدمے چلانے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لے رہی ہے ۔یہ مقدمہ کئی دہائی سے سماعت کے بغیر پڑا ہوا ہے۔ بھارت میں مقیم مسلمانوں کے خلاف بھارتی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے امتیازی اور متعصبانہ سلوک کے باعث ہونے والے فسادات اس اعتبار سے افسوس ناک ہی ہیں کہ ان میں ہمیشہ انسانی جانوں کازیاں ہوتا ہے۔مقتول انصاف کے لئے ترستا ہے اور قاتل اقتدار تک پہنچ جاتا ہے۔

ماضی میں احمد آباد ، بڑودہ اور گزشتہ برسوں میں گجرات اور سمجھوتہ ایکسپریس کے اندوہ ناک سانحے ہندو مسلم فسادات کی تاریخ کا درد انگیز باب ہیں جن کا اعادہ ہونا چاہیے۔بھارت میں گزشتہ دس سالوں کے دوران فرقہ وارانہ فسادات میں 2500 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کے 8473 واقعات ہوئے جن میں 26 ہزار سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔ ہلاکتوں کی سب سے زیادہ تعداد 2002 میں تھی جب گودھرا سانحہ کے نتیجے میں گجرات میں 722 واقعات میں 1130 افراد ہلاک اور 4375 زخمی ہوئے تھے۔مسرت عالم کی رہائی کی سیاست کے درمیان کو ئی یہ نہیں مطالبہ کر رہا کہ فسادات کے مجرموں کو گرفتار کیا جائے اور انھیں سخت ترین سزائیں دی جائیں کیونکہ یہ نہ کسی کا ایجنڈہ ہے اور نہ ہی کسی کو اس میں دلچسپی ہے۔اس کی جگہ سیاسی جماعتیں عوامی تقریبات میں اپنے ان رہنماؤں کی عزت افزائی کر رہی ہیں جن پر فسادات برپا کرنے کا الزام ہے۔ دو چار دن کی حراست کے بعد سبھی آزاد ہیں۔

جموں کشمیر اگر سونے کی چڑیا نہیں تو کم از کم سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ضرور ہے جس پر آر ایس ایس کی عقابی نظریں عرصہ دراز سے لگی ہیں۔پوری نہیں تو آدھی ہی سہی بی جے پی کو اس کے دیرینہ خواب کی تعبیر کی شکل میں حالیہ اسمبلی انتخابات میں جموں کی 25اسمبلی سیٹیں مل چکی ہیں۔

آرایس ایس نے بی جے پی کو جموں کی بلا شرکت غیرے نمائندہ جماعت بنا دیا ہے۔ادھر مفتی محمد سعید نے غلام نبی آزاد اور عمر عبداﷲ کو صفر کرکے وادی کی 28سیٹیں لینے کے ساتھ ہی اقتدار سنبھالتے ہی پاکستان کاشکریہ اداکیا اور افضل گرو کے باقیات مانگے اور اب مسرت عالم کو رہا کردیا۔اس طرح انہوں نے وادی کے ان عوام کے جذبات کی تسکین کی ہے جو آزادی کا نعرہ لگاتے آئے ہیں۔اور اس طرح انہوں نے حریت کی جگہ بھی لے لی۔گویا جموں کی سیاست الگ اور سری نگر کی سیاست الگ۔یوں بھی نتائج نے بالکل واضح طور پر دو الگ ریاستوں کے نتائج دیئے ہیں۔کیا یہ سب کچھ آرایس ایس کے پلا ن کا حصہ ہے؟جموں ،لداخ اور سری نگر یعنی ٹرائی فرکیشن۔آرایس ایس کے دیرینہ خواب کو مفتی سعید کی زبانی عوامی آواز بنانے کی سازش؟کیا رام مادھو پچھلے ایک سال سے جموں و کشمیر میں اسی فصل کے بیج بورہے تھے؟یعنی جموں و کشمیر کا مثلثی بٹوارہ۔تین حصے؟تاکہ جموں میں ان کی حکمرانی ہو۔بنگلہ دیشی ہندؤں کو شہریت دی جاسکے۔کشمیر ی پنڈتوں کی باز آبادکاری ہوجائے۔ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔

جمہوریت کا مندر کہی جانے والی پارلیمنٹ میں نورہ کشتی کرنے والے سیاستدان بھول گئے کہ 31 دسمبر 1999 کو قندھار میں آئی سی814 ہائی جیک واقعہ میں مسافروں کی رہائی کی بدلے خود ہمارے اس وقت کے وزیر خارجہ جناب جسونت سنگھ’’ تین دہشت گردوں ‘‘مولانا مسعود اظہر، مشتاق احمد زرگر اور احمد عمر سعید شیخ کو با حفاظت قندھا ر پہنچا آئے تھے اور یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ آج کے ہمارے چیف سیکیورٹی صلاح کار بھارت کے نمبرون اسپائی کہے جانے والے جناب اجیت کمار دووال نے لگاتار ایک سودس گھنٹوں کی مان منول کے بعد یہ تاریخی ڈیل کی تھی ۔ یہ کہنے میں مجھے کوئی عار نہیں کہ تم کر وتو ڈسکو ہم کریں تو مجرا۔
Safi Rahman
About the Author: Safi Rahman Read More Articles by Safi Rahman: 15 Articles with 8702 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.