حضرت جابر بن عبداﷲ انصاری ؓ
(Muhammad Jehan Yaqoob, Karachi)
حضرت جابر بن عبداﷲ انصاری رضی
اﷲ عنہ معروف صحابی حضرت سیدناعبداﷲ بن عمرو بن حرام الانصاری ؓکے صاحب
زادے ہیں۔ آپ کے والد حضرت عبداﷲ انصاری ؓغزوہ احد میں شہید ہوئے۔حضرت جابر
بن عبداﷲ انصاری رضی اﷲ عنہ ہجرت مدینہ سے تقریباًپندرہ سال پہلے مدنیہ
منورہ ،جواس وقت یثرب کہلاتاتھا، میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق قبیلہ خزرج سے
تھا۔
آپ کم عمری میں اسلام لائے اور بے شمار غزوات میں حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و
آلہ وسلم کا ساتھ دیا۔چناں چہ غزوہ خندق کاواقعہ بیان فرماتے ہوئے خودحضرت
جابر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم غزوہِ خندق میں خندق کھود رہے تھے کہ ایک
سخت قسم کی چٹان سامنے آگئی۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم میں سے کسی سے یہ چٹان
نہیں ٹوٹی تو آں حضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکرصورت حال عرض کردی گئی ۔تمام
بات سماعت فرمانے کے بعدحضو اقدس ر ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں اترتا ہوں،
چناں چہ آپ ﷺ کھڑے ہوئے(توہم نے دیکھاکہ) اور آپ ﷺ کے شکمِ مبارک پر(بھوک
کی شدت کی وجہ سے)پتھر بندھا ہوا تھا۔حضرت جابر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ
خودہماری یہ کیفیت تھی کہ ہم نے بھی تین دن سے کوئی چیزنہیں چکھی تھی، حضور
ﷺ نے کدال کو ہاتھ میں لے کر اس چٹان پر مارا تو وہ چٹان ریت کا ڈھیر ہو
گئی۔
اس جاں نثارصحابی رسول ﷺ سے سرکاردوعالم ﷺ کی یہ بھوک نہ دیکھی
گئی،اپنافاقہ بھول گئے اوربے تاب وبے قرارہوکر رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں عرض
کیا :
یا رسول اﷲ ﷺ! مجھے گھر جانے کی اجازت دیجیے، چناں چہ گھر آکر اہلیہ سے کہا
کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو ایسی حالت میں دیکھا ہے کہ صبر نہ ہو سکا، تمھارے
پاس کھانے کو کچھ ہے؟ اہلیہ نے کہا :اورتوکچھ نہیں ،البتہ میرے پاس کچھ جو
ہیں اور بکری کا ایک بچہ ہے، چناں چہ انھوں نے بکری کا وہ بچہ ذبح کیا اور
ان کی اہلیہ محترمہ نے جو پیسے ، گوشت کوپکنے کیلئے ہانڈی میں رکھنے کے
بعدحضرت جابررضی اﷲ عنہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خدمت اقدس میں
عرض کیا:
اے اﷲ کے رسول ﷺ!مختصر سا کھانا ہے، آپ تشریف لے چلیں یا ایک دو آدمی آپ کے
ساتھ ہوں۔
آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: کتنا کھانا ہے؟
جب انھوں نے تفصیل بتلائی توآپ ﷺ نے فرمایا: اچھا خاصا ہے اور ساتھ ہی یہ
بھی فرمایا کہ جب تک میں نہ آجاؤں،اہلیہ سے کہہ دو کہ نہ ہانڈی چولہے سے
اتارے اور نہ ہی روٹیاں تنور میں لگائے۔
پھر آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم میں اعلان فرمادیا کہ جابر کی دعوت ہے،
سب چلیں۔حضرت جابرؓ بھاگے بھاگے گھر پہنچے اوراطلاع دی کہ حضور اکرم ﷺ ہی
نہیں تشریف لارہے ۔بل کہ تمام مہاجرین وانصارکو بھی اپنے ساتھ لا رہے
ہیں۔وہ بھی صحابیہ تھیں،بجائے پریشان ہونے کے انھوں نے حضرت جابر سے پوچھا:
حضور ﷺ نے تم سے کھانے کے متعلق پوچھ لیا تھا؟انہوں نے کہا کہ ہاں پوچھ تو
لیا تھا۔یہ سن کرکمال اطمینان سے کہنے لگیں ، پھر پریشانی کس بات کی ،آپ ﷺ
اپنے اور اﷲ تعالیٰ کے اعتماد پرتمام لوگوں لے کرتشریف لارہے ہیں۔اتنے میں
بیت جابرنبی اقدس ﷺ اورصحابہ ؓ کی تشریف آوری سے بقعہ نوربن چکاتھا۔صحابہ
کرام ؓ کوترتیب سے بیٹھنے کاحکم فرماکرحضورانورﷺ ہنڈیاکی جانب تشریف لے گئے
،چناں چہ آپ ﷺ اپنے دست اقدس سے روٹیاں توڑنے اور ان پر بوٹیاں رکھنے لگے،
اور ہانڈی سے گوشت اور تنور سے روٹی لے کر ان کو ڈھانک دیتے تھے، اِسی طرح
برابر آپ ﷺ روٹی کے ٹکڑے کرکر کے دیتے رہے اور ہانڈی میں سے چمچ بھر بھر کر
لیتے رہے ،یہاں تک کہ سب نے خوب پیٹ بھرکے کھاناکھایا اور کھانا کچھ بچ بھی
گیا، پھر آپ ﷺ نے حضرت جابر کی اہلیہ سے فرمایا:یہ تم خود بھی کھا اور محلے
پڑوس میں بھی ہدیہ بھیجو۔( صحیح بخاری)
یہ حضرت جابررضی اﷲ عنہ کے عشق رسالت اوران کی اہلیہ محترمہ کے ذات نبی
وبات نبی پرغیرمتزلزل اعتمادہی کاکرشمہ تھاکہ وہ کھاناتمام اہل محلہ نے بھی
کھایااورپھربھی کھاناویسے کاویساموجودتھا۔نبی اکرم ﷺ کی برکت سے معجزانہ
طورپرحضرت جابررضی اﷲ عنہ ،جوبہ ظاہرمالی تنگ دستی کاشکارتھے،مگردلی
طورپررب وہاب نے انھیں فیاضی سے خوب خوب نوازرکھاتھا،کے ذریعے اﷲ تعالیٰ نے
تمام لوگوں کوپیٹ بھرکرکھاناکھلادیا۔سچ ہے رحمت پروردگار’’بہا‘‘یعنی معاوضہ
نہیں ’’بہانہ‘‘ڈھونڈتی ہے۔
حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ سات بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے اورغزوہ
احدمیں والدگرامی کی شہادت کے بعدان کی کفالت کی تمام ترذمے داری
اوروالدمحترم کے ذمے واجب الاداقرضوں کی ادائی کابوجھ ان کے ناتوں کندھوں
پرآگیاتھا۔بہنوں کی کفالت کی غرض سے انھوں نے اپنے سے عمرمیں کافی بڑی ایک
خاتون سے شادی کرلی ،تاکہ وہ ان کی بہنوں کاخیال رکھ کروالدین کی کمی
کااحساس نہ ہونے دے۔ان کے والدکے ذمے واجب الاداقرضوں کی ادائی میں
سرکاردوعالم ﷺ نے معاونت فرمائی اوریہ بھی سرکارﷺ کامعجزہ تھاکہ کھجوروں کے
ایک ہی ڈھیرمیں اﷲ تعالیٰ نے وہ برکت عطافرمائی کی تمام قرض خواہوں کاقرضہ
اداہوگیا۔
حضرت جابربن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ سے 1500 کے قریب احادیث روایت کی گئی ہیں،یوں
ان کاشماران صحابہ میں ہوتاہے جن سے کثیرتعدادمیں احادیث مروی ہیں۔
حضرت جابربن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی طویل العمری
کی بشارت کے بہ موجب تقریباٍچورانوے سال کی عمر پائی اور 78ھ میں وفات
پائی۔کہاجاتاہے کہ ان کی وفات کسی بدخواہ کے زہردینے سے ہوئی،مستندتاریخ سے
اس کی تاییدنہیں ہوتی۔واﷲ اعلم !!
انھیں ابتدامیں بغداد کے قریب مدائن شہر میں دریائے دجلہ کے قریب دفن کیا
گیاتھا،بعدازاں شاہ فیصل شاہ عراق کے حک م پران کے جسدخاکی کوسلمان پارک
منتقل کیاگیا،اس کی وجہ کیاہوئی؟بھی ایک ایمان افروزواقعہ ہے ،ملاحظہ
فرمائیے!
یہ 1932ء کی بات ہے کہ عراق کے اس وقت کے بادشاہ شاہ فیصل کو خواب میں
صحابیِ رسول ﷺ حضرت حذیفہ ابن الیمان رضی اﷲ عنہ کی زیارت ہوئی، جورازدان
رسول ﷺ کہلاتے تھے ۔ انھوں نے بادشاہ سے کہا :
اے بادشاہ !میری اورجابر بن عبداﷲ کی قبر میں دجلہ کا پانی داخل ہوگیا ہے،
لہٰذاہماری قبر کشائی کر کے ہمیں کسی اور جگہ منتقل کر دو۔
خواب سے بیدارہوکرصبح ہی بادشاہ نے اس حکم پرعمل کیااور ان دونوں اصحابِ
رسول ﷺ کی قبریں سیکڑوں لوگوں کی موجودگی میں کھولی گئیں ،حاضرین میں مفتیِ
اعظم فلسطین، مصر کے بادشاہ شاہ فاروق اور دیگر اہم افراد بھی شامل تھے۔یہ
دیکھ کرتمام عوام وخواص حیرت سے بت بنے رہ گئے کہ اتناطویل ترین عرصہ بیت
جانے کے باوجود ان دونوں اصحاب ؓ رسول ﷺکے اجسام حیرت انگیز طور پر تروتازہ
تھے اوریوں لگ رہاتھاکہ جیسے ابھی ابھی دفنائے گئے ہوں۔ ان کے کفن تک سلامت
تھے اور یوں لگتا تھا جیسے وہ خودبھی زندہ اورگہری نیندمیں ہوں۔ ان دونوں
اصحاب ؓ رسول ﷺ کی مبارک آنکھیں بھی کھلی ہوئی تھیں اوران سے ایک عجیب سی
روشنی خارج ہو رہی تھی ،جسے دیکھنے والوں کی آنکھیں چکا چوند ہو گئیں۔
ہزاروں لوگوں نے ان بزرگوں کی زیارت کی اوردنیاپرایک بارپھریہ بات واضح
ہوگئی کہ اﷲ والوں کی نرالی شان ہوتی ہے۔بادشاہ نے ان اصحاب ؓ رسول ﷺکے
مبارک اجسام کو حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ کی قبر مبارک کے بالکل قریب
سلمان پاک نامی جگہ پر دوبارہ دفنا دیا۔رضی اﷲ تعالیٰ عنہم۔ |
|