ایک شام جب میں دفتر سے گھر
پہنچا تو دماغ سے ٹیسیں نکلتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں ۔ خیال آیا شاید سر
میں درد کی وجہ سے ایسا ہور ہاہے لیکن جب درد برداشت سے بڑھنے لگا تو میں
بیگم کے ساتھ ڈاکٹر جمشید جساوالا کے کلینک پہنچا ۔ وہ ہے تو پاکستانی لیکن
سب اسے ایرانی ڈاکٹر سمجھتے ہیں ۔ جسا والا گاؤں کی مناسبت سے ان کے نام کے
ساتھ جسا والا منسوب ہوگیا ۔ لاہور کے پرانے ڈاکٹروں میں ان کے والد کا نام
ڈاکٹر دینشاہ آج بھی بہت احترام سے لیا جاتا ہے ۔جن کاانتقال چند سال پہلے
لاہورمیں ہوا تھا ۔ یہ قائداعظم کے رفقا ء میں ہوتا ہے ۔ میں جیسے ہی ڈاکٹر
جمشید کے پاس پہنچا انہوں نے سب سے پہلے میرا بلڈ پریشر چیک کیا ۔میں
خاموشی سے یہ عمل دیکھتا رہا ۔ جب غبارے نما آلے سے ہوا نکلنے لگی تو ڈاکٹر
جمشید نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا لودھی صاحب آپ کو دوسری شادی مبارک ہو ۔ڈاکٹر
کے دوسری شادی کے بارے میں الفاظ سن کر میں چونکا میں نے ارد گرد نظر
دوڑائی تو میری پہلی بیگم ہی بیٹھی دکھائی دی۔میں نے خیرمبارک کہتے ہوئے
پوچھا ڈاکٹر صاحب میری دوسری بیوی کہاں ہے از کرم اس سے ملوا ہی دیں ۔
ڈاکٹر جمشید نے پینترا بدلتے ہوئے کہا دوسری شادی کی عورت سے نہیں ہوئی
بلکہ یہ شادی بلڈ پریشر کی گولی سے ہوئی ہے ۔ مبارک ہو آپ کا بلڈپریشر خاصا
زیادہ ہے یہی وجہ ہے کہ آپ کے دماغ کی شیریانیں خون کا دباؤ برداشت نہیں کر
پا رہیں ۔وقتی طور پر تومیں دوائی دے دیتا ہوں لیکن بلڈ پریشر کو کنٹرول
میں رکھنے کے لیے روزانہ گولی کھانے پڑے گی ۔ پہلے تو میں خوش تھا کہ چلو
عمر کے آخری حصے میں کسی دوشیزہ سے شادی ہورہی ہے لیکن جب ڈاکٹر نے گولی
کانام لیا تو میرا چہرہ لٹک گیا ۔ میں نے پوچھا کہ اگر میں یہ گولی نہ
کھاؤں تو پھر کیا ہوگا ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے کہا وہی ہوگا جو منظور خدا
ہوگا ۔ بلڈپریشر کو خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے یہ انسان کو اتنی خاموشی سے
قتل کرتا ہے کہ انسان کو خود پتہ نہیں چلتا ۔اگر آپ وقت سے پہلے بستر مرگ
پر لیٹنا چاہتے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ ڈاکٹر یہ بات کہہ کر
خاموش ہوگیا اور ہم وہاں سے اٹھ کر گھر آگئے لیکن ذہن میں ایک انجانے خوف
نے اپنی جگہ بنالی تھی ۔ یہ بات میری عادتوں میں شامل ہے کہ مجھے اگر کوئی
مرض لاحق ہوتاہے تو میں اپنے حلقہ احباب کے ہر چھوٹے بڑے سے بات کرتا ہوں
ہر شخص مرض سے نجات کا کوئی نہ کوئی راستہ بھی بتاتا ہے ۔ ان میں سے مجھے
جو راستہ میرے دل کو بہاتا ہے وہ میں اختیارکرلیتا ہوں ۔ حیرت کی بات تو یہ
تھی کہ بیگم بھی ڈاکٹر کی ہمنوا بن گئی اس نے بھی اچھا خاصا لیکچر مجھے بن
مانگے پلا دیا ۔ شاید اس پر بھی میری محبت غالب آچکی تھی ۔ پھر بیگم تو
ویسے بھی مستقل طور پر بلڈ پریشر کی مریض تھی ۔ روزانہ گولی کھانا اس کے
معمولات میں شامل تھا اس کے باوجود کہ وہ بلڈپریشر کی سنگینی سے واقف تھی
لیکن سردیوں کی کوئی شام ایسی نہیں جاتی جب وہ نمک میں بھنی ہوئی پٹھانوں
کی مونگ پھلی نہ کھاتی ہو ۔جب میں نماز پڑھنے گھر سے نکلتا تو وہ اتنی محبت
سے مجھے پٹھانوں کی چھلی ہوئی مونگ لانے کی فرمائش کرتی کہ نہ چاہتے ہوئے
بھی مجھے یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑتا ۔
میں نے اپنے دوست حکیم رضوان ارشد سے بات کی تو اس نے بتایا کہ اگر سالن
میں اضافی نمک نہ ڈالا جائے اور نہار مونہہ لہسن کی چار پانچ تریاں پانی سے
چبا کر نگل لی جائیں تو بلڈپریشر کنٹرول میں رہتا ہے ۔حکیم صاحب کی بات
میرے دل کو بہا گئی اورمیں نے سالن پر مزید نمک ڈالے بغیر ہی کھانے کا
معمول بنا لیا ۔کچھ عرصہ تو میں ٹھیک رہا اور مجھے کبھی دماغ میں درد کا
احساس نہ ہوا ۔میں سمجھا کہ اب میں مکمل طورپر ٹھیک ہوگیا ہوں لہسن نے میرے
جسم میں خون کے بڑھتے ہوئے دباؤکو ممکن حد تک کم کردیاہے ۔ اس خوش فہمی کا
شکار ہوکر میں نے بھی شاہد آفریدی کی طرح وکٹ سے نکل کر آزادانہ کھیلنا
شروع کردیا ۔ چھلکے والی مونگ پھلی کھانے کا مجھے بھی مزا نہیں آتا تھا میں
جتنی نمازیں مسجد میں پڑھنے کے لیے جاتا اتنی بار پٹھان سے پانچ دس روپے کی
مونگ پھلی لے کر کھا لیتا ۔میں نے کئی بار پٹھان دوستوں سے کہا کہ بھائی
مونگ پھلی کی نکلی گریاں نمک کی بجائے تم ریت میں بھون کر اگر مجھے دو تو
میں 80 روپے کی پاؤ ہر دو سرے تیسرے دن خرید سکتا ہوں ۔ یہاں یہ بتاتا چلوں
کہ مونگ پھلی کھانے کا شوق صرف مجھے ہی نہیں تھابلکہ میرے بچے اور بہوئیں
بھی خوب مزے لے لے کر کھاتی تھیں ۔ جن کو پہلے میں ٹافیاں لاکر دیتا تھا
سردیاں شروع ہوتے ہی ٹافیوں کی جگہ مونگ پھلی نے لے لی ۔
ایک دن پھر اچانک میرے سر میں ویسی ہی ٹیسیں اٹھنے لگیں تو کیولری ہسپتال
میں ڈاکٹر ذیشان کے پاس چیک اپ کے لیے گیا ۔ چیک اپ کے بعد اس نے بھی وہی
خوشخبری سنائی جو اس سے پہلے ڈاکٹر جمشید جساوالا سنا چکے تھے ۔ بلکہ اضافہ
یہ بھی کیا کہ ابھی مونگ پھلی فروخت کرنے والے پٹھانوں کے قریب سے بھی نہیں
گزرنا ورنہ حالات کنٹرول سے باہر بھی ہوسکتے ہیں ۔میں نے نہایت معصومیت سے
کہا ڈاکٹر صاحب اتنا ظلم تو نہ کریں یہ سردیاں کونسی بار بار آتی ہیں ان
سردیوں میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر جتنا مزا مونگ پھلی کھانے کا آتا ہے
اتنا مزا تو روٹی کھانے کا بھی نہیں آتا ۔میرے اصرار کے باوجود ڈاکٹر کے
ماتھے پر شکن کم نہیں ہوئیں وہ مسلسل تشویش میں مبتلا مجھے گھور رہے تھے
اور پٹھانوں کے حوالے سے میرے ہمدردانہ رویے پر شاکی تھے ۔میری حس مزاح
پھڑکی تو میں نے کہا ڈاکٹر سب کچھ بند کرلیں لیکن مونگ پھلی بند نہ کریں ۔
میں گولی سے شادی کرنے کو تیار ہوں لیکن مونگ پھلی چھوڑنا واقعی میرے لیے
بہت مشکل ہے ۔
اس کے باوجودکہ بیگم مجھ سے بے پناہ محبت کرتی ہے اور اس محبت کااظہار اس
کے چہرے پر ہر لمحے عیاں رہتا ہے وہ غصے میں آتی بھی ہے تو کچھ وقت بعد اس
کا غصہ ایک بار پھر محبت میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔اس نے ڈاکٹر کی ہاں میں ہاں
ملائی اور بازو پکڑکر ہسپتال سے باہر لے آئی ۔ بڑے رازدارانہ انداز میں
کہنے لگی چلو آج ہم ایک معاہدہ کرتے ہیں میں نے پوچھا کیسا معاہدہ ۔اس نے
کہا آج کے بعد نہ آپ نمک میں بھنی ہوئی مونگ پھلی کھائیں گے اور نہ ہی میں
کھاؤں گی ۔ میں نے معاہدہ تو کیا جاسکتا ہے لیکن معاہدے کی خلاف ورزی پر
کوئی سزا بھی ہوگی اس نے کہا یہ معاہدہ سزاؤں کا نہیں بلکہ وفاؤں کا ہے میں
نے کہا چلو یہ بھی مان لیتے ہیں کیونکہ ہم دونو ں ایک دوسرے کو دل و جان سے
چاہتے ہیں ایک کی بیماری اور پریشانی دوسرے کو پریشان کردیتی ہے ۔ لڑنا
جھگڑنا اپنی جگہ لیکن تکلیف نہیں دیکھی جاتی ۔پھرایک مرتبہ اسے غیر شناسا
بیماری نے آگھیرا ۔ رات کو تین چار مرتبہ وہ گہری نیند سے اٹھ بیٹھتی کہ
کوئی میرا گلا دبا رہا ہے میرا سانس رک رہا ہے ۔ پہلے پہلے تو ہم مذاق ہی
تصور کرتے رہے لیکن جب حالت حد سے زیادہ بگڑنے لگی تو تشویش کا ہونالازمی
امر تھا ۔ اسے نیشنل ہسپتال ڈیفنس میں داخل کروا دیا ۔ ماہر ڈاکٹر نے یہ
کہتے ہوئے ہسپتال میں داخل کرلیا کہ خون گاڑھا ہوگیا ہے جس کی وجہ سے رات
میں کئی بار یہ کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔ہسپتال میں رکھ کر خون کو کچھ پتلا
کریں گے ۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ گھر کاایک فرد جب ہسپتال میں ہوتا ہے تو پورا
گھر گردش میں آجاتا ہے نہ دونوں بیٹوں کو سکون تھا اور نہ ہی مجھے قرار تھا
۔ رات کو بھی اس لیے نیندنہ آتی کہ ایک فرد گھر میں موجود نہیں ہے نہ جانے
وہ کس حال میں ہوگا ۔صبح ہوتے ہی ناشتہ لے جانا پھر رات کے برتن واپس لانے
کا کام دونوں میں سے ایک بیٹے نے سنبھال رکھا تھا جبکہ یہی مصروفیات شام سے
رات گئے تک جاری رہتی ۔ اب پتہ نہیں کہ یہ پٹھانوں کی نمک میں بھنی ہوئی
مونگ پھلی کا کمال تھا یا اس کی وجہ کوئی اور تھی چار دن ہسپتال میں رہنے
کے باوجود سانس رکنے کا سلسلہ رک نہ سکا چنانچہ صحت مند حالت میں بیگم کو
ہسپتال داخل کروایا تھا جب واپسی ہوئی تو بیگم چلنے پھرنے سے بھی قاصر
ہوگئی ۔ ڈاکٹروں نے علاج نہ کیا الٹا خون پتلا کرنے کے چکر میں بیگم کو ہی
لاغر کرکے واپس کردیا ۔ پھر حجاز ہسپتال چیک کروایا انہوں نے بھی انمول سے
ٹیسٹ لکھ دیئے یہ انمول کینسر کے ٹیسٹ کرتا ہے جب ڈاکٹر ایڈوائز کررہاتھا
تو میری جان پہلے ہی نکل گئی توبہ توبہ اب ہمیں انمول جانا پڑے گا ۔ میری
حالت کو دیکھ کر بیگم مسکرائی اور کہا پھر کیا ہوا ٹیسٹ کروانے میں کوئی
حرج نہیں وہ بہادروں کی طرح میرے ساتھ انمول گئی ۔ٹیسٹ ہوئے اﷲ نے کرم کیا
کوئی موزی بیماری نہ نکلی ۔ ہمیں بلڈپریشر بھول گیا اور نئی بیماری نے سانس
پھولا دیا ۔ اب نفسیات کے ڈاکٹر سے چیک کروانے کامشورہ ملا ۔ شیخ زید
ہسپتال میں نفسیات کے ڈاکٹر سے چیک کروایا تو اس نے رائے دیتے کہا کہ مریض
کے لاشعور میں کوئی خوف بیٹھا ہوا ہے وہ خوف جب بھی ذہن کی سکرین پر حاوی
ہوتا ہے تو سانس کو روک لیتا ہے ۔ ہر ڈاکٹر اپنی اپنی الگ رائے رکھتا تھا
ہمیں سمجھ نہیں آرہا تھاکہ یہ سب کچھ پٹھان کی مونگ پھلی کا کیا دھرا ہے یا
اس کی وجہ کچھ اور ہے ۔ پھر ایک بہت ہی پرانے معالج ڈاکٹر محمدسلیم فاروقی
کو چیک کروا یا انہوں نے تمام علامتیں پوچھ کر حتمی رائے دی کہ معدے سے گیس
اٹھتی ہے جو گلے میں پہنچ کر سانس کے عمل کو متاثر کرتی ہے ۔ میڈیکل فیلڈ
میں تو اس کاعلاج ممکن نہیں تھا چنانچہ ایک دوست کے کہنے پر ہم نیلا گنبد
مصطفائی دواخانہ حکیم محمد اشفاق کے پاس پہنچ گئے ۔ یہ حکیم اس اعتبار سے
منفرد ہے کہ یہ معدے کا سب سے اچھا معالج ہے ڈاکٹروں کے بگڑے ہوئے امراض
بھی یہاں ٹھیک ہوجاتے ہیں ۔ دو تین مرتبہ دوائی لاکر کھانے سے سانس روکنے
کا وہ مرض جاتا رہا ۔ جس پر اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا ۔
وقت گزرتا رہا حالات بدلتے رہے اگلی سردیاں پھر سر پر پہنچ گئیں پٹھان نمک
میں بھنی ہوئی مونگی پھلی لے کر ایک بار برساتی مینڈکوں کی طرح گلی کوچوں
اور بازاروں میں نکل آئے ۔ پتہ نہیں مونگ پھلی کو نمک میں بھوننے کا یہ
طریقہ انہوں نے خودایجاد کیا ہے یا کسی اور کی یہ ایجاد ہے ۔ عام مونگ پھلی
کھانے کا مزا ہی نہیں آتا جو مزا نمک میں بھنی مونگ پھلی کھانے کا آتا ہے ۔
ابھی ہم دونوں اپنی اپنی جگہ معاہدے پر قائم تھے ایک دن میں یونہی کیولری
ہسپتال اپنے چیک اپ کے لیے پہنچا ابھی موٹرسائیکل کھڑی کی ہی تھی کہ بیگم
مخالف سمت پیدل ہی جاتی دکھائی دی ۔اسے اس طرح جاتے ہوئے دیکھ کر حیرت ہوئی
پھر سوچا شاید اس کا کوئی عزیز رشتہ دار دکھائی دیا ہوگا کہ وہ اسے ملنے کے
لیے چلی گئی ہے جب میں تعاقب کرتاہوا پیچھے پہنچاتو دیکھا کہ وہ ایک پٹھان
سے نمک میں بھنی ہوئی مونگ پھلی خرید رہی ہے ۔ میں نے ڈانٹنے کے انداز میں
کہا کہ اتنا خوش تو تم مجھے دیکھ کر نہیں ہوتی جتنی خوش تم اس مونگ پھلی
والے پٹھان کو دیکھ کرہوئی ہو ۔ وہ معاہدہ کہاں گیا جو ہم نے پچھلے سال کیا
تھا ۔بیگم نے میری بات کو مسکرا کے ٹال دیا کہ رات گئی بات گئی ۔ اب میں
ٹھیک ہوں کبھی کبھی مونگ پھلی کھانے سے تو نہ روکو ۔میں چیک اپ میں مصروف
تھا تو وہ مزے مزے سے مونگ پھلی کھا رہی تھی ابھی گھر بھی نہیں پہنچے تھے
کہ اس کادماغ پھر چکرانے لگا ۔چہرے پر افسردگی کی آثار دکھائی دیے۔ اب کیا
ہوا ہے میں نے پوچھا لگتا ہے مجھے پھر بلڈپریشر ہوگیا ہے ۔ میں نے غصے سے
کہااور کھاؤ مونگ پھلی ۔ تم خود بیماری کو دعوت دے کر بلاتی ہو۔ اس نے کہا
اچھااب نہیں کھاؤ ں گی پلیز ڈاکٹر ذکا اﷲ گھمن کے پاس لے چلو جس کی دوائی
سے بلڈپریشر جلدی ٹھیک ہوجاتا ہے ۔ میں احسان جتاتے ہوئے موٹرسائیکل نکالی
اور ڈاکٹر کے پاس پہنچ گئے ۔ ڈاکٹر نے چیک کر بتایا کہ 180تک پہنچ چکاہے ۔
زبان کے نیچے ایک گولی رکھی اور پندرہ بیس منٹ کلینک پر ہی رکنے کے لیے کہا
جب بلڈپریشر کچھ کم ہوا تو اس ہدایت کے ساتھ گھر جانے کی اجازت دی کہ سکون
کی گولی کھاکر سو جانا مزید سالن والی کوئی چیز نہ کھانا ۔
ہم دونوں گھر پہنچے تو کرفیو لگا کر بیگم کو ایک کمرے میں سلا دیا ہر شخص
کو ہدایت کردی گئی کہ کوئی بھی بلند آواز میں بات نہ کرے اورنہ ہی ٹی وی کو
آن کیا جائے ۔ سب اپنی اپنی جگہ خاموشی سے سو جائیں ایسانہ ہوکہ پھر بیگم
کی آنکھ کھل جائے اور سب کو ڈانٹ پڑ جائے ۔ رات گزری تو بلڈ پریشر کچھ کم
ہوا صبح کاناشتہ سالن سے کرنے کی بجائے سپیشل رس منگوائے گئے جو چائے کے
ساتھ پیٹ میں اتارے گئے ۔
ایک شام میں اپنی آنکھیں چیک کروانے کے لیے نیشنل ہسپتال ڈیفنس پہنچا ڈاکٹر
پہلے آنے والے مریضوں کو چیک کررہا تھا میں کن آکھیوں سے دیکھا تو بیگم
اپنی بکل میں سے ہاتھ نکال کر منہ تک لے جاتی ہے پھر واپس چادر میں چھپا
لیتی ہے ۔مجھے شک گزرا یقینا کوئی خاص چیز کھا رہی ہے ۔ مٹھی کھول کے دیکھا
تو پٹھانوں کی نمک میں بھنی ہوئی مونگ پھلی تھی ۔ میں نے کہا اب بھی تم
مونگ پھلی کھانے سے باز نہیں آئی ۔ خداکا خوف کرو ۔ تمہاری بلڈپریشر کی
بیماری نے پورے گھر کو بے سکون کررکھا ہے اور تم پھر بھی مونگ پھلی کھانا
نہیں چھوڑرہی ۔وہ ایک لمحے کے مسکرائی اور مٹھی میں مونگ پھلی کے چند دانے
لے کر میرے ہاتھ پر رکھ دیئے کہ زیادہ باتیں نہ بنائیں آپ بھی کھائیں زندگی
کے مزے اتنی جلد ی ختم نہیں ہوتے ۔میں نے کہا ڈاکٹروں نے تو تمہیں اس کام
سے منع کررکھاہے اس نے کہا ڈاکٹر وں کا بس چلے تو کھانا پینا بھی چھڑا دیں
ظالم کہیں کے ۔ خود تو کھاتے ہیں لیکن ہمیں کھانے سے منع کرتے ہیں ۔جب میری
ہتھیلی پر مونگ پھلی دانے رکھے تومیں بھی خاموش ہوگیا اور اس کا ساتھ دینے
لگا ۔ نہ جانے یہ پٹھان کہاں سے ہمیں مونگ پھلی کھلا کر بلڈپریشر کا مرض
لگانے کے لیے لاہور میں آدھمکے ہیں ۔
میری والدہ کو بھی اکثر 160 بلڈپریشر رہتا تھا میں نے بارہا مرتبہ روکا امی
جان نمک زہر ہے پکے ہوئے سالن میں اضافی نمک نہ ڈالاکریں لیکن ماں مجھے تو
ہاں کہہ دیتی لیکن اس کے گھٹنے کے نیچے نمک دانی چھپی ہوتی جب میری توجہ
کسی اور طرف ہوتی تو ماں چٹکی بھر نمک نکال کر سالن ڈالتی اور مزے مزے سے
کھانے لگتی ۔ ایک مرتبہ بلڈپریشر اتنا زیادہ ہوگیا کہ ان کی آنکھ کاایک
پٹھا سکڑ گیا جس سے آنکھ کھل بھی نہیں رہی تھی شام ڈھلے جب گھر پہنچا تو
ماں کی حالت دیکھ کر میں پریشان ہوگیا انہیں لے کر ہسپتال پہنچا تو ڈاکٹروں
نے بتایا کہ زیادہ بلڈپریشر کی وجہ سے آنکھ کا پٹھا سکڑ گیا ہے اﷲ کا کرم
ہوا کہ چند دن ادویات استعمال کرنے سے آنکھ دوبارہ کھلنے لگی ۔لیکن پکے
ہوئے سالن میں اضافی نمک ڈالنے سے ماں نہ رک سکی ۔
پھر ہمارے خاندان کا گھبرو نوجوان سلیمان کو اچانک گردوں کے مرض نے گھیر
لیا تحقیق سے پتہ چلا کہ مسلسل زیادہ بلڈ پریشر رہنے کی وجہ سے گردے متاثر
ہوئے ہیں اب ہر ہفتے دو مرتبہ ان کو ڈیلسسز کروانا پڑتا ہے جس پر ہزارو ں
روپے خرچ ہوتے ہیں ۔جبکہ ایک گردہ تبدیل کروانے پر دس سے پندرہ لاکھ روپے
خرچ آتا ہے ۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے میں نے بلڈپریشر کی گولی سے واقعی
شادی کرلی ہے ۔ اب میں باقاعدگی سے گولی کھاتا ہوں اور جہاں نمک میں بھنی
ہوئی مونگ پھلی فروخت کرنے والا پٹھا ن دکھائی دیتا ہے اس کو دیکھنابھی
گناہ کبیر ہ سمجھتا ہوں اور کنارہ کشی کرتے ہوئے وہاں سے گزر جاتا ہوں
۔پہلے تو میں سمجھتا تھا کہ ڈاکٹر ٗ لیبارٹریوں والوں سے ملے ہوتے ہیں
کیونکہ وہ ہر مریض کو ٹیسٹوں کی لمبی فہرست بنا کر ٹیسٹ کروانے پر مجبور کر
دیتے ہیں اب مجھے یقین ہوگیا ہے کہ یہ پٹھان بھی ڈاکٹروں کے ساتھ مل گئے
ہیں نمک والی مونگ پھلی لوگوں کو کھلا کر وہ ڈاکٹروں کی آمدنی میں اضافے کا
باعث بن رہے ہیں ۔جوانی میں ایک شخص نے میرا ہاتھ دیکھ کر بتایا تھا کہ میں
دو شادیاں کروں گا جب یہ خبر میری اکلوتی بیوی تک پہنچی تو وہ کئی دن تک
روتی رہی اور بار بار مجھے پوچھتی رہی کہ وہ کونسی لڑکی ہے جو آپ خواب و
خیالوں پر چھائی ہوئی ہے ۔میں اسے نہیں چھوڑوں گی میں نے لاکھ سمجھایا کہ
لڑکیاں تو بہت سی ہیں لیکن ابھی میں نے شادی کے لیے کسی سے بات نہیں کی ۔
لیکن اب پتہ چلا ہے کہ ہاتھ کی لکیریں جھوٹ نہیں بولتیں اس نے بلڈپریشر کی
گولی کے ساتھ میری دوسری شادی کروا ہی دی ہے ۔ |