زراعت کسی ملک کی معیشت میں ریڑھ
کی ہڈی کی حیثیت کی حامل ہے۔ پاکستان دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جہاں
زراعت کے لئے نہ صرف مناسب اور زرخیز زمین موجود ہے بلکہ معتدل آب وہوا
والے علاقوں سمیت چار موسم بھی قدرتی وسائل ، معدنیات ، قیمتی طبی نباتات ،
جنگلی حیات و قیمتی درختوں سے مالامال جنگلات بھی موجود ہیں۔ لیکن ابھی تک
ان وسائل سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اُٹھایاجاسکا ہے جس کی وجہ سے یا تو ہمارے
یہ قدرتی وسائل ضائع ہورہے ہیں یا غیر قانونی طریقوں سے ان کو ملکی و بین
لاقوامی مارکیٹوں میں فروخت کی جاتا ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف ان قیمتی
نباتات و جنگلات کی بقاء کو خطرات لاحق ہیں بلکہ ملک کا کثیر زرمبادلہ بھی
ضائع ہو رہا ہے۔ ان تمام عوامل کے تدارک ، قیمتی جنگلی حیات، طبی نباتات
وجنگلات کے تحفظ،تنوع و بقاء کیلئے \" پاکستان فارسٹ انسٹیٹیوٹ پشاور\"
کوشاں ہے۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد 1947میں فیصل آباد میں \"پاکستان فارسٹ
انسٹیٹیوٹ\" کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اگلے سال اس ادارے کو لوئر ٹوپی مری
اور 1951میں اس کو ایبٹ آباد منتقل کیا گیاجبکہ 1966میں اس ادارے کو مستقل
طور پر پشاور منتقل کیا گیا۔ پشاور یونیورسٹی سے ملحقہ 240ایکڑز اراضی پر
اس انسٹیٹیوٹ کو بنایا گیا جس میں تدریسی عمارات، لیکچر ہالز،لیبارٹریز،
ریسرچ سنٹرز،دفاتر،رہائشی وغیر رہائشی علاقوں سمیت ، فارمز، نرسریز، باغات،
رینج لینڈ،فارسٹ پلانٹس ریسرچ نرسریز،روزگارڈن اور طبی نباتات کا ریسر چ و
نرسری فارم شامل ہے۔اس ادارہ کے قیام سے لیکر اب تک اس مادر علمی سے ہزاروں
دی ایف اوز اور رینج آفیسرز سمیت تحقیق و ریسرچ کے میدان میں بھی گریجویٹس
فارغ التحصیل ہوچکے ہیں۔ ریسرچ آفیسر امتیاز حسین بنگش صاحب کے مطابق
پاکستان فارسٹ انسٹیٹیوٹ فارسرٹری سمیت کئی دیگر علوم میں بی ایس سی اور
ایم ایس سی تک تعلیم دے رہا ہے۔ عموماً اس ادارے میں طلباء و طالبات ایف
ایس سی کے بعد چاروں صوبائی پبلک سروس کمیشنز سے منتخب ہوکر آتے ہیں اور
یہاں پر بی ایس سی اور ایم ایس سی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف ٹریننگز
حاصل کرکے اپنے استعداد کار کو بڑھاتے ہیں ۔ اس ادارے میں چاروں صوبوں سمیت
گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے طلباء و طالبات بھی علم حاصل کرتے ہیں۔
پاکستان فارسٹ انسٹیٹیوٹ فارسٹ ایجوکیشن میں ایک جامع نصاب کے تحت تعلیم
فراہم کررہا ہے جس میں فارسٹ ریسرچ، فارسٹ پرا ڈکٹس ریسرچ، بائیولوجیکل
سائنس ریسرچ، سیریکلچر ریسرچ اور فارسٹ ایجوکیشن شامل ہے ۔ اس انسٹیٹیوٹ کے
فارغ التحصیل طلباء بی ایس لیول پر رینج آفیسرز اور ایم ایس سی لیول پر ڈی
ایف او کے عہدوں پر تعینات ہوتے ہیں جو کہ بالترتیب گریڈ سولہ اور گریڈ
سترہ کے ملازمین ہوتے ہیں۔ 1993میں اس ادارے میں سیلف فنانس کے تحت عام
طلباء کو بھی داخلے کی پیشکش کی گئی اور دس سال تک یہ پروگرام چلتا رہا مگر
پھر ادارے کی نظم و ضبط کے قواعد کی وجہ سے اس پروگرام کو منسوخ کردیا گیا،
نظم و ضبط اس ادارے کے نمایاں خصوصیات میں شامل ہے ۔ اب صرف چاروں صوبائی
پبلک سروس کمیشن کے منتخب کردہ اُمیدواروں کو ہی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے،
جن کے اشتہارات باقاعدہ اخبارات میں شائع کیئے جاتے ہیں۔ اس ادارے میں غیر
ملکی طلباء بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں جو کہ یونائٹڈ نیشن کے فوڈ اینڈ
ایگریکلچر آرگنائزیشن ، یو ایس ایڈ اور دیگر ایجنسیوں کی سکالرشپس پر آتے
ہیں۔
طبی نباتات کے شعبہ ریسرچ و میڈیسنل پلانٹس فارمز کے سربراہ میڈیسنل پلانٹس
باٹنیسٹ چوہدری محمد مسلم صاحب نے بتایا کہ پاکستان فارسٹ انسٹیٹیوٹ روز
اول سے ہی پاکستان میں پائی جانے والی قیمتی طبی نباتات پر ریسرچ کررہی ہے
اور اس تحقیق میں ان کی پیداوار میں اضافہ، تنوع، بقاء و تحفظ کیلئے کام
کررہے ہیں ۔ عوام میں ان نباتات کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کیلئے 1985سے
مستقل بنیادوں پر تربیتی پروگرامز کا انعقاد کررہا ہے۔ جس میں نہ صرف
طلباء، فارسٹ آفیسرز،رینج آفیسرز، طبیب حضرات، طبی نباتات کو جنگلوں سے
اکٹھا کرنے والے، اس کاروبار سے منسلک افراد، کسان؍کاشتکاروں ، زمینداروں،
باغبانوں اور عام عوام کو سائنسی بنیادوں پرنہ صرف تربیت دی جاتی ہے بلکہ
ان کی اہمیت اور بقاء و تحفظ کے بارے میں بھی آگاہی پیدا کی جاتی ہے۔
اُنہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان میں اس وقت تقریباً6000کے قریب قیمتی جڑی
بوٹیوں اور طبی نباتات کو دریافت کیا گیا ہے۔ جن میں سے تقریباً 2500صوبہ
خیبر پختونخوہ میں پائے جاتے ہیں۔ ہمارے صوبے کے زرخیز ترین علاقوں میں
ہزارہ ڈویژن اور مالاکنڈ ڈویژن شامل ہے جبکہ دیگر علاقوں میں بھی کافی
تعداد میں یہ قیمتی جڑی بوٹیاں دستیاب ہیں۔ ان علاقوں میں پائی جانے والی
قدرتی طبی نباتات کی مانگ پوری دنیا میں ہے اور یہاں کی مقامی آبادی ان کو
بغیر کسی احتیاط کے نکال کر فروخت کررہی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ان قیمتی
پودوں کی بقاء کا مسئلہ بن گیا ہے بلکہ کئی ایک پودے نایاب ہوگئے ہیں یا
بالکل ہی ختم ہوگئے ہیں۔ ان پودوں کا ہر حصہ قیمتی اور قابل استعمال ہوتا
ہے جس سے نہ صرف ملک میں بلکہ بیرون ملک بہت ساری قیمتی ادویات بنائی جاتی
ہیں ۔ یہاں کے لوگ ان پودوں کو جڑوں سمیت نکال لیتے ہیں جس کی وجہ سے
معدومیت کا شکار ہورہے ہیں۔ بہت سارے پودو ں کو حکومت نے قانون کے تحت تحفظ
فراہم کیا ہے جن کا غیر قانونی کاروبار اور اُن کو نکالنا سخت ممنوع ہے،
جبکہ حکومت ان کی کاشت اور حفاظت کی کرنے والے کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی
کرتی ہے۔پاکستان فارسٹ انسٹیٹیوٹ کے طبی نباتات کے ریسرچ سنٹر نے ایسے بہت
سارے معدومیت کے شکار پودوں کو اپنے ریسرچ سنٹر میں اُگایا اور اُن کو
دوبارہ اُن کے متعلقہ علاقوں میں لگاکر اُن کودوبارہ کاشت کیا ہے، جس میں
اُن کو خاطر خواہ کامیابی ملی ہے ۔ اس میں مقامی کمیونٹی کو شامل کرکے اُن
کی اراضی پر ان قیمتی پودوں کی کاشت کی گئی ہے، جس سے صرف ان کی پیداوار
بڑھی ہے ۔
انہی ٹریننگز اور تربیت کے پروگرامز کے سلسلے میں میڈیسنل پلانٹس ریسرچ کے
سربراہ جناب چوہدری محمد مسلم صاحب نے اس ادارے میں زیر تربیت ڈی ایف اوز
اور رینج آفیسرز جو کہ بی ایس سی اور ایم ایس سی کے طلباء ہیں ، کیلئے
پاکستان میں پائے جانے والے قیمتی طبی نباتات کے موضوع پر دو روزہ ٹریننگ
کا اہتمام کیا۔ اس ٹریننگ میں کئی زرعی ماہرین ،نامور پروفیسرز، سائنسدانوں
اور محققین نے شرکاء کو لیکچرز دیئے جن میں جناب اللہ داد خان صاحب سابق
ڈائریکٹر جنرل ایگری کلچر ایکسٹینشن، میاں شفیق ڈپٹی کنزرویٹر وائلڈ لائف،
ڈاکٹر میمونہ پی ایف آئی، ڈاکٹر بشیر چیئرمین ڈپارٹمنٹ آف ایگرونومی
یونیورسٹی آف ایگریکلچر، ڈاکٹر عارف میڈیسنل فارمز مینجر یونیورسٹی آف
ایگریکلچر، جناب معین اسسٹنٹ ڈائریکٹر نان ٹمبر فارسٹ پراڈکٹ خیبر پختونخوا
اور پاکستان فارسٹ انسٹیٹیوٹ کے میڈیسنل پلانٹس باٹینیسٹ اینڈ میڈیسنل
ریسرچ و فارمز کے سربراہ چوہدری محمد مسلم صاحب شامل ہیں ۔ قدرتی جنگلات
میں پائے جانے والے قیمتی طبی نباتات کی اہمیت، تحفظ، بقاء ، تنوع، دوبارہ
کاشت، پیداوار، ان کی درجہ بندی، کوالٹی کنٹرول ، مارکیٹینگ کے اُصول، ملکی
و بین الاقوامی منڈیوں میں فراہمی، کچن گارڈننگ اور کچن میں استعمال ہونے
والی طبی خواص کی حامل پھل و سبزیوں، غیر قانونی طور پر فروخت ، مقامی
آبادیوں اور مال مویشیوں کی طرف سے لاحق خطرات ، غیر تربیت یافتہ طبیب
حضرات اور مقامی ڈیلروں کا ان قیمتی جڑی بوٹیوں اور نباتات کا حفظان صحت کے
اُصولوں سے ہٹ کر ذخیرہ کرنا اوران کے درست استعمال کے موضوعات پر لیکچرز
دیئے اور ان پر سیر حاصل گفتگو کے ساتھ ساتھ بحث و مباحثہ کیا۔ اس ٹریننگ
کا خاص پہلو پریزنٹیشن اور لیکچرز سمیت طبی باغات کا معائنہ اور پودوں کی
پہچان کیلئے فارسٹ کے ریزرو ایریاز (وہ جنگلات اور علاقے جہاں پر پاکستان
فارسٹ انسٹیٹیوٹ نے معدومیت کے شکار پودوں کی تحفظ کیلئے عام عوام اور
جانوروں سے تحفظ کیلئے ممنوعہ قرار دیئے ہیں) کے وزٹ بھی شامل ہیں۔ اس
ٹریننگ میں لیکچرز و پریزینٹیشنز کے ساتھ ساتھ عملی کام پر بھی توجہ دی
جاتی ہے جس کی وجہ سے اس میں شامل افراد زیادہ توجہ اور محبت سے سیکھتے
ہیں۔ چوہدری محمد مسلم اور اُن کی ٹیم کی انتھک کوششوں کی وجہ سے صوبہ خیبر
پختونخوا میں بہت سارے کاشتکار اب روائتی سبزیوں اور پھلوں کی کاشت کے ساتھ
ساتھ کئی کئی ایکڑ اراضی پر طبی پودے کاشت کررہے ہیں اور اچھی کوالٹی کی
طبی جڑی بوٹیاں پیدا کرکے مارکیٹ میں سپلائی کررہے ہیں۔ عام کاشتکار کوآسان
طریقے سے جدید اور منافع بخش طبی نباتات پودوں وفصلوں کی کاشتکاری کے بارے
میں رہنماکتابوں کی آسان اُردو زبان میں اشاعت بھی اُن کی محنت کا حصہ ہے۔
طبی نباتات کے ریسرچ فارم کے وزٹ کے دوران ریسرچ آفیسر سہیل سکندر اور
تنویر حسین صاحب نے کئی ایک نایاب پودوں کے بارے میں تفصیل بتائی اور
پاکستان فارسٹ انسٹیٹیوٹ کی کاوشوں پر روشنی ڈالی ۔ چوہدری محمد مسلم صاحب
نے فارم کے وزٹ کے موقع پر کئی ایسے پودے بھی دکھائے جن کو تجرباتی بنیادوں
پر یہاں اُگایا جاتا ہے اور پھر مناسب وقت کے بعد ان پودوں کو اُن کے مقامی
علاقوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔ چوہدری محمد مسلم صاحب نے اپنے ریسرچ فارم
پر ایک قرآن گارڈن بھی بنایا ہے جس میں وہ تمام پودے لگائے گئے ہیں جن کا
ذکر قرآن شریف میں آیا ہے۔ ٹریننگ کے شرکاء کو ان پودوں کے بارے میں تفصیل
سے بریفنگ دی گئی ، ان خواص، فوائد اور طبی استعمال کے بارے میں تفصیلاً
معلومات فراہم کی گئی۔ ریسرچ فارم میں موجود ورٹیکل گارڈننگ یعنی عمودی
باغبانی کے بارے میں بھی بتایا گیا ۔ اس ٹیکنالوجی کو طارق تنویر ، قادربخش
فارمز فیصل آباد نے متعارف کروایا اور جس کوبہت کامیابی سے باغبانی اور خاص
کر طبی نباتات کی بہترین کاشت کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ اُنہوں نے ریسرچ
فارم پر پلانٹس میوزیم کا دورہ بھی کروایا جس میں کئی نایاب اور قیمتی
پودوں کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیاگیا۔ پریزینٹیشن کے دوران نیم حکیم اور
فٹ پاتھ پر بیٹھے برائے نام حکماء جو پنساریوں سے جڑی بوٹیاں خرید کر عوام
کی صحت سے کھیلتے ہیں کے کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی ۔
ٹریننگ کے شرکاء میں سے بونیر سے تعلق رکھنے والے سجادعلی نے اس ٹریننگ کو
ایک بہت اچھا اقدام قرار دیا اور اُنہو ں نے کہا کہ اُن کو بہت کچھ سیکھنے
کو بھی ملا۔ اُن کا کہنا ہے کہ اُن کو بہت سارے ایسے پودوں کے بارے میں
معلومات ملی ہیں جو اُن کے آس پاس اُگتے ہیں لیکن اُن کی خاصیتوں اُن کو
علم نہیں تھا۔ اُنہوں نے ایسی ٹریننگ کے انعقاد کو سراہا ۔اُن کے مطابق ان
پودوں کی طبی خواص کی وجہ سے اُن کو بہت کم خرچ میں اچھی ادویات مل سکتی
ہیں جو کہ کسی مضر صحت اثرات سے پاک بھی ہوتے ہیں۔
شکیل احمد (صوابی) نے کچھ یوں اپنے خیالات کا اظہار کی کہ پاکستان فارسٹ
انسٹیٹیوٹ میں ہمیں ادویاتی نباتاتی پودوں پرٹریننگ کا اہتمام کیا گیا وہ
نہایت شاندار اور مفید تھا۔ جس میں ہمیں قدرت کی جانب سے دیئے گئے کچھ
انمول تحفوں کا پتہ چلا لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پیغام کو پہنچایا
جائے اور خاص طور پر زمینداروں وکاشتکاروں کی معاشی وسماجی مدد کی جائے اور
اُن کو قائل کیا جائے اور حکومت اُن کو درپیش مسائل حل کرے تب ہی اصل فائدہ
ہوگا۔
سوات سے تعلق رکھنے والے شریف اللہ صاحب نے بتایا کہ ہمارے ملک میں طبی
نباتات کی کمی نہیں ہے او ر خاص کر سوات، ہزارہ اور دیگر شمالی علاقہ جات
جہاں ان قیمتی طبی پودوں کی بہتات ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری
عوام اس سے لاعلم ہے اور وہ اس سے بھرپور فائدہ نہیں اُٹھا سکتے بلکہ وہ تو
یہ بھی نہیں جانتے کی کیسے ان کو کاشت کیا جائے اور کیسے محفوظ کیا جائے ،
اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہ قیمتی پودے معدومیت کا شکار ہورہے ہیں۔ اگر
مجھے موقع دیا گیا تو میں مستقبل میں بھی ایسی ٹریننگز سے فائدہ اُٹھانے کی
کوشش کرونگا اور مستقبل میں ان پودوں کی کاشت و حفاظت میری زندگی کا حصہ
ہوگی۔۔
پاکستان فارسٹ انسٹیٹیوٹ کے شعبہ میڈیسنل پلانٹس کے سربراہ اور اُن کی پوری
ٹیم کی کوشش ہے کہ عام عوام کو اُن کے ریسرچ اورٹریننگز کے ثمرات پہنچے اور
نچلی سطح پر کاشتکار، کسان، کاروباری افراد ان کی تحریر و تحقیق سے فائدہ
اُٹھائیں۔ کوئی شک نہیں کہ ان کی کاوشیں اور محنت ضرور پھل لائیں گی اور
پاکستان میں پیدا ہونے والی قیمتی جڑی بوٹیاں صحیح طریقے سے جدید خطوط پر
کاشت کرکے ان سے اچھی پروڈکشن لے کر نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی منڈیوں
میں فروخت کیا جائے گا اور ایک اچھا خاصہ زرمبادلہ کمیا جاسکے گا اور ان
اقدامات سے معدوم ہوتی ہوئی یہ قیمتی طبی نباتات محفوظ بھی ہونگی ۔
جڑی بوٹیوں سے علاج ہمارے ہاں یونانی طریقہ طب سے مشہور ہے جو کہ ایک مستند
طریقہ علاج ہے۔ پاکستان میں قرشی لیبارٹریز، ہمدرد (وقف ) پاکستان لمٹیڈ ،
اشرف دواخانہ، حکیم اجمل اور بھی بہت سارے قابل اعتماد نام موجود ہیں جو
یونانی طب میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں نباتاتی طب کو وہ
اہمیت حاصل نہیں جس کی ضرورت ہے اور اس کی خاص وجہ ان حکماء اور طبیب حضرات
کی مناسب تربیت کا نہ ہونا ہے کیونکہ زیادہ تر حکیم صاحبان یا تو اپنے
والدین میں سے کسی سے سینہ بہ سینہ علم سیکھتے آرہے ہوتے ہیں اور ان کو
جدید خطوط پر ٹریننگ کے مواقعے میسر نہیں ہوتے جس کی وجہ سے یہ وہی پرانے
طریقے اپناتے ہیں جن میں سے زیادہ تر اب متروک ہوچکے ہیں اور جدید تحقیق کے
مطابق اب اُن میں زیادہ تر طریقوں سے پودوں سے ادویات کی کشید ممنوع قرار
دیئے جاچکے ہیں ۔ انہی افراد میں سے ایک حکیم امیر زرین بھی ہیں جو کہ
مینگورہ کی ایک نسبتاً تاریک گلی میں بیٹھ کر ایک چھوٹی سی دکان میں اپنی
جڑی بوٹیوں کے ساتھ بیٹھ کر اپنی محدود علم نباتات سے لوگوں کی خدمت کررہے
ہیں۔ اُن کو طب کا علم اپنے والد حکیم شیر افضل سے ورثے میں ملا جو ریاست
سوات کے وقت سیدو شریف (سوات) میں ایک طبیب تھے جوحکیم طوطا سنگھ کے
شاگردوں میں سے ہیں۔حکیم امیر زرین اور ان جیسے بہت سارے طب کے پیشے سے
وابستہ افراد کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کو بھی جدید خطوط پر تربیت دی جائے
کیونکہ ان کا روزگار اسی پیشے سے وابستہ ہے مگر تعلیم و تربیت کی کمی کی
وجہ سے ان کو وہ اہمیت نہیں ملتی جو ان کا حق بنتا ہے۔ یہ طبیب اور حکماء
ہمارے معاشرے کے اہم افراد ہیں ۔پاکستان فارسٹ انسٹیٹیوٹ کی ان ورکشاپس اور
ٹریننگز اور اس طرح کی دوسری تربیتی پروگرامز نہ صرف ان حکماء کی
کاراستعداد کو بڑھاسکتے ہیں بلکہ جدید خطوط پر ان کو تربیت دے کر ایک قابل
قبول اور محفوظ طریقہ علاج سے یہ حضرات عوام کی خدمت کرکے حلال روزی کما
سکتے ہیں۔پاکستان فارسٹ انسٹیٹیوٹ اپنی سطح پر بہت سارے حکماء کی تربیت
کرچکا ہے اور مستقبل میں بھی اُن کی تربیت کے پروگرامز موجود ہیں۔ نباتاتی
طب کی اہمیت اور فوائد کو اُجاگر کرنے اور جدید و مستند طریقہ علاج اپنانے
کیلئے عوامی سطح پر ایسے پروگرامز کا انعقاد بہت خوش آئند ہے۔ ضرورت اس
اَمر کی ہے حکماء و طبیب حضرات کی جدید خطوط پر تربیت سمیت حکومت اور محکمہ
زراعت طبی فوائد کی حامل ان قیمتی جڑی بوٹیوں کی کاشت کو بھی فروغ دے اور
کسانوں کو اس طرف مائل کرکے اُن کے لئے مناسب منڈیاں بھی فراہم کریں جہاں
آسانی سے کاشتکار اپنی فصلوں کو مناسب قیمت پر بیچ سکیں۔ |