احتجاج کا علاج

رات کا کھانا کھا کر ابھی لیٹنے ہی لگا تھا کہ فون بجنے لگا دیکھا تو ایک جاننے والے کا نمبر تھا سو اٹنڈ کرلیا خیریت دریافت کرنے کے بعد کہنے لگا کہ بھائی ایک چھوٹا سا کام ہے اگر کروا دیں تو عمر بھر دعائیں دوں گا یہ سُن کر جواباًکہا کہ حکم کریں ،جس پر اِس نے کہا کہ ایسے نہیں آپ سے مل کر بتاؤں گا اگر آپ گھر میں ہیں اور چند منٹ مجھے دے سکتے ہیں تو آجاتا ہوں،جواب میں کہا ٹھیک ہے آجاؤیہ سُن کر وہ بہت خوش ہوا اور آدھے گھنٹے کے وقفے سے گھر پہنچ گیا مِلا جُلا اور بیٹھ گیا چائے پینے کے بعد کام پوچھا تو کہتا کہ محکمہ صحت میں درجہ چہارم کی آسامیاں آئی ہوئی ہیں اگر آپ چاہیں تو مجھے کہیں نا کہیں ایڈجسٹ کروا سکتے ہیں یہ سُن کر جواب دیا کہ میرا محکمہ صحت میں تو اتنا تعلق نہیں ہے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں ہے وہاں کہیں کوشش کر لیتے ہیں جس پر اِس نوجوان نے کہا کہ نہیں اگرملازمت کی تومحکمہ صحت میں ہی کروں گا ورنہ نہیں اور میں جانتا ہوں کہ آپ محکمہ صحت میں بھی میرا کام کروا سکتے ہیں،یہ سُن کر راقم کو بڑی حیرانی ہوئی کہ محکمہ صحت میں ایسی کیا خاص بات ہے جو یہ ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھنے والاایک گریجوایٹ نوجوان محکمہ ایجو کیشن کے ایک بڑے سکیل کو ٹھکرا کر محکمہ صحت کے درجہ چہارم کو ترجیح دے رہا ہے،اِس لئے راقم نے اِس سے اِس محکمہ سے متعلق اہم معلوم کرنے کیلئے اِسے کہہ دیا کہ چھوڑو یار اِس محکمہ کے ملازمین کو تنخواہیں تو حکومت دیتی نہیں جس کے سبب یہ بیچارے آئے روز مطالبات لیئے سڑکوں پر ہوتے ہیں،

راقم کی یہ بات ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ جواب مِلنا شروع ہو گیا کہ چھوڑوصاحب یہ محکمہ اِس وقت پنجاب کا سب سے مظبوط ترین اور منافہ بخش محکمہ بن چکا ہے ،سوال کیا وہ کیسے ؟جواب مِلا کہ دیکھو ایک ایسا وقت تھا جب جیسے ڈاکٹر کم اور حکیم زیادہ تھے ایسے ہی انگریزی ادویات بنانے والیاں کمپنیاں بھی بہت کم تھیں ،جیسے جیسے ڈاکٹر وں کی تعداد میں اضافہ اور حکیموں کی تعداد میں کمی ہوتی گئی ویسے ویسے ادویات بنانے والی کمپنیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا اور اب وہ وقت آگیا ہے کہ کمپنیاں اپنی اپنی تیار برآمدات زیادہ سے زیادہ سیل کرنے کیلئے برآمدات (یعنی کہ ادویات )کی قیمتوں میں ادویات تجویز کرنے والوں کا کمیشن بھی ایڈ کرنے لگی ہیں جس سے متعلق بریفنگ دینے اور ڈاکٹرز کو قائل کرنے کیلئے کمپنیوں نے نمائندے رکھے ہوئے ہیں جنہیں میڈیکل ریپ کہتے ہیں جو کہ میڈیکل سٹورز پر اپنی اپنی ادویات رکھوا نے کے بعد ہسپتالوں میں جاکر ڈاکٹر ز سے مِلتے ہیں اور اِنہیں بتاتے ہیں کہ دیکھوں ہم نے اپنی میڈیسن فلاں سٹور پہ رکھی ہے جس میں آپ کا اتنا کمیشن ہے اور اگرآپ ہماری فلاں میڈیسن اِس حد تک بکوا دیں گے تو ہم کمیشن کے علاوہ بھی اتنے لاکھ یا اتنی مہنگی گاڑی آپ کو بطور انعام بھی دیں گے جس پر یہ ڈاکٹر مسیحائی کے روپ میں قصاب بن کر آنکھیں بند کر لیتا ہے اور کِسی کو افاقہ ہو یا نہ ہو یہ دوائی لکھنا شروع کر دیتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک کچے مکان سے شاندار بنگلہ ،ٹوٹی پھوٹی موٹر سائیکل سے قیمتی گاڑی اور پرائیویٹ پریکٹس کرنے کرائے کی دکان سے ایک شاندار ہسپتال بھی بنا لیتا ہے جس کے بعد سرکاری ہسپتالوں میں آنے والے مریضو ں کو وہاں چیک کرنے کی بجائے (یہاں پر دوائی ناقص ہے ) کا کہتے ہوئے پرائیویٹ ذاتی کلینک پر آنے کے مشوروں سے نوازنے لگتا ہے اِس کے بعد سرکاری ہسپتال جب محض میڈیکل رزلٹ لینے دینے کیلئے رہ جاتے ہیں توتب یہ مسیحا اپنے ماتحت دجہ چہارم کے ملزامین کو اپنے اِرد گرد اپنے نمائندوں کے طور پر بٹھانا شروع کر دیتا ہے جو میڈیکل لینے دینے سے متعلق آنے والے ہر بندے پر کڑی نظر رکھتے ہیں اور ریٹ طے کرنے کے بعد میڈیکل لیگل سرٹیفکیٹ (جِسے ایم ایل سی بھی کہتے ہیں ) ناقص ، بہتر یا عین میرٹ کے مطابق بنانے کا سگنل دیتے ہین ،جس سے متاثرہ کی حالت کے مطابق میڈکل بننے کی بجائے قیمت کے مطابق میڈیل سرٹیفکیٹ تیار کرتے ہوئے ایک آر ایچ سی کا ایک ڈاکٹر (بڑے ہسپتالوں کا آپ خود اندازہ لگا لیں )ایک طرف تو حکومت سے ماہانہ 20سے 30ہزار کے لگ بھگ وصول کرتا ہے ، دوسری طرف بے بسوں پر چھری چلاکر ماہانہ لاکھوں بناتا ہے ،جبکہ تیسری طرف ہسپتالوں کی تعمیرو مرمت و ادویات اور ادویات کیلئے حکومت کی جانب سے ملنے والے فنڈز میں وسیع پیمانے پر گھپلے کرکے حکومت اور قوم کو لاکھوں کروڑوں کے ٹیکے لگاتا ہے مگر پیٹ پھِر بھی نہیں بھرتا اور سڑکوں پر نکل آتا ہے،اور حکومت یہ سمجھتے ہوئے اِن کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے کہ پاکستان میں بس یہی لوگ ڈاکٹر ہیں جو سڑکوں پر بیٹھے ہیں اِن کے علاوہ اورکوئی ڈاکٹر پیدا یابھرتی نہیں کیا جا سکتاجِسے اِنہیں ہٹا کر اِن میں سے کِسی ایک کی جگہ تعینات کیا جا سکے ،ہزاروں کی تعداد میں سال ہا سال جو ڈگریا ں جاری ہو رہی ہیں وہ سب کی سب چنے بیچنے کیلئے جاری کی جارہی ہیں،اگر حکومت ایسا نہ سمجھتی ہوتی تو تمام تر ڈاکٹرز کی بھرتی کنٹریکٹ بیس پہ کرتی اور کنٹریٹ کی مدت ختم ہوتے ہی اِنہیں فارغ کرکے اِس مقدس پیشہ سے نئی وابستگی رکھنے والے ایسے بے روزگار میڈیکل ڈگری ہولڈرز کو تعینات کر نے کی پالیسی اختیار کر لیتی جو انسانیت کیلئے خود کوبِلا معاوضہ بھی وقف کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں جن کی ملک میں نہ کمی ہے نہ ہی کوئی قدر وقیمت ہے ،پس اِس لئے آئے روز بے بس دُکھی انسانیت مسیحائی کی تلاش میں ہوتی ہے اور مسیحے مطالبات لئے سڑکوں کی تلاش میں ہوتے ہیں ،ورنہ احتجاج کا یہ علاج تو بڑا بہترین تھاجس سے ایک طرف تو بے روزگاری کے خاتمہ میں مدد مِلتی جبکہ دوسری طرف زمینی خداؤں کا خاتمہ ہو جاتا اور عوام کوعلاج معالجے کی ایک بہتر ین سروس دستیاب ہو جاتی ،

یہ سب سُنتے سُناتے جب ٹائم پر نظر پڑی تو رات کے 11 بج چکے تھے اور آنکھیں نیند سے جلنے لگیں تھیں اِس لئے وہ نوجوان جو محکمہ صحت میں درجہ چہارم کی سیٹ کا خواہش مندتھا چلاگیااور راقم اِسے رقم کرکے سو نے لگا، سو(فی امان اﷲ)۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Muhammad Amjad Khan
About the Author: Muhammad Amjad Khan Read More Articles by Muhammad Amjad Khan: 61 Articles with 41829 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.