حالیہ حکومتی فیصلے اور عدلیہ سے ممکنہ تصادم

صدر مملکت آصف علی زرداری نے جمعہ کو جسٹس(ر) خلیل الرحمن رمدے کی بطور ایڈہاک جج آف سپریم کورٹ تعیناتی کی تجویز کو باقاعدہ مسترد کردیا تھا۔ دوسری جانب صدر نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی رمدے کو دو سال کیلئے ایڈہاک جج بنانے کی تجویز سے اتفاق نہ کرتے ہوئے مستقل ججوں کی تعداد بڑھا کر سپریم کورٹ کو وسعت دینے کی جوابی پیشکش بھی کی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ صدر زرداری مستقبل قریب میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو جسٹس رمدے کے نام کے استرداد کے جواز کیلئے اپنے دلائل ارسال کریں گے۔ صدر زرداری چیف جسٹس کو سپریم کورٹ کے مستقل ججوں کی تعداد بڑھانے کی سفارش پر عمل درآمد کی یقین دہانی بھی کرائیں گے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے جسٹس رمدے کی تعیناتی نہ کرنے کی سفارش پر مبنی ایک سمری ارسال کی ہے اور اپنے نوٹ میں بعض وجوہ بھی پیش کی ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم گیلانی کی سفارش تسلیم کرنے کے بعد صدر مملکت نے چیف جسٹس کو جوابی پیش کش کی ہے کہ سپریم کورٹ میں ایڈہاک تعیناتیوں کے بجائے بہترین راستہ اور جج حضرات کی کمی کے خاتمہ کا مناسب حل مستقل ججوں کی تعداد میں اضافہ ہے تاکہ باقاعدہ ججز اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام دے سکیں۔ فی الوقت سپریم کورٹ میں مستقل سیٹیں 17 ہیں۔ جسٹس (ر) رمدے جن کی دو سال کیلئے دوبارہ تعیناتی کی سفارش کی گئی ہے۔ وہ نواز شریف حکومت کے اٹارنی جنرل چوہدری محمد فاروق کے چھوٹے بھائی ہیں جنہوں نے سوئس پولیس کو خط لکھ کر بینظیر بھٹو٬ آصف زرداری اور بیگم نصرت بھٹو کیخلاف بطور مدعی منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت کیسز رجسٹرڈ کرانے کا آغاز کیا تھا۔ یہاں یہ دلچسپ امر ہے کہ جسٹس (ر) رمدے سپریم کورٹ بنچ کے ان 17ارکان میں شامل تھے جنہوں نے این آر او کے خلاف فیصلہ دیا اور حکومت کو کہا کہ سوئس بینکوں میں منی لانڈرنگ میں ملوث ملزموں کے کیسز دوبارہ کھولے جائیں۔ صدر نے دراصل وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی اس سفارش کو قبول کیا ہے کہ جسٹس (ر) رمدے کو ججز کیس 1996ء کے مطابق دوبارہ تعینات نہیں کرنا چاہئے جبکہ چند ماہ قبل صدر زرداری نے جسٹس غلام ربانی کو ایڈہاک جج مقرر کیا تھا۔ اس واقعے کے اگلے روز ہی صدر آصف علی زرداری نے لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس ثاقب نثار کے سپریم کورٹ میں تقرر کی سفارش چیف جسٹس سپریم کورٹ کو اعتراض کے ساتھ واپس کردی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جانب سے 19 دسمبر 2009ء کو بھیجی گئی لاہور ہائیکورٹ کے سینئر جج جسٹس ثاقب نثار کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی سفارش کا جائزہ لیا٬ جائزے کے بعد وزیراعظم نے صدر مملکت کو مشورہ دیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو درخواست کی جائے کہ وہ اپنی سفارش پر نظرثانی کریں اور لاہور ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس خواجہ محمد شریف کو عدالتِ عظمیٰ کے جج کے طور پر تعینات کیا جائے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے عدالتِ عظمیٰ کی خالی ہونے والی نشست پر 19 دسمبر کو ہی لاہور ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس ثاقب نثار کے تقرر کی سفارش کردی تھی لیکن ابھی تک اس پر عمل نہیں ہوا تھا۔ ایک روز قبل وزیراعظم نے این آر او کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کا حکم جاری کیا تھا٬ لیکن ابھی تک اس حکم پر تو عمل نہیں ہوا ہے٬ حکومت نے عدالتِ عظمیٰ کے تقرر کے حوالے سے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سفارش کو واپس نظرثانی کے لیے بھیج دیا ہے۔ حکومت کے اس فیصلے نے عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کے خدشات کی تصدیق کردی ہے۔ اس مسئلے پر قانونی اور آئینی ماہرین مختلف رائے رکھتے ہیں کہ صدر چیف جسٹس کی سفارشات پر عمل کا پابند ہے یا اس کو مسترد کرنے کا اختیار رکھتا ہے٬ لیکن اس عمل نے یہ ظاہر کردیا ہے کہ موجودہ حکومت کو ابھی تک آزاد عدلیہ برداشت نہیں ہورہی ہے۔ اسی وجہ سے حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کرنے کے بجائے تکنیکی بنیاد پر عدلیہ سے تصادم کا آغاز کردیا ہے۔ وفاقی حکومت نے الجہاد ٹرسٹ کے فیصلے کا سہارا لیا ہے جس کے تحت اعلیٰ عدلیہ میں تقرر کے سینیارٹی کے اصول کو مدنظررکھا جائے گا۔ الجہاد ٹرسٹ کا مقدمہ بھی پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اہم اور فیصلہ کن موڑ ہے٬ جس نے عدلیہ کو طاقت اور توانائی عطا کی ہے۔ پاکستان کی سیاسی اور عدالتی تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے عدلیہ میں ججوں کے تقرر میں معیار کو نظرانداز کیا جس کے بعد حبیب وہاب الخیری نے مقدمہ درج کیا اور سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ سجاد علی شاہ کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ نے تاریخی فیصلہ کیا اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے تقرر کے لیے سینیارٹی کے اصول کو متعین کردیا گیا۔ اس فیصلے سے بھی عدلیہ حکومت کے غیر قانونی اقدامات کا احتساب کرنے کی پوزیشن میں آئی ہے٬ حکومت نے عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کے لیے بھی اسی فیصلے کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ حکومت نے یہ استدلال اختیار کیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف سینئر ترین جج ہیں٬ اس لیے ان کا تقرر کیا جانا چاہیے۔ حکومت نے بظاہر تکنیکی نکتہ اٹھایا ہے٬ جبکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب کو چھیڑنے اور اس کو خالی کرنے کے بجائے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے بعد سینئر ترین جج کی بطور عدالتِ عظمیٰ کے جج سفارش کی ہے اور حکومت کو فوری طورپر خالی نشست کو پر کردینا چاہیے۔ تاہم دوسری جانب صدر مملکت کی جانب سے کچھ عرصہ قبل اسی اصول سے انحراف کرتے ہوئے کی جانے والی تقرری پر کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم سمیت دیگر حکومتی شخصیات کی جانب سے عدلیہ کے احترام کے دعوے تو کئے جا رہے ہیں لیکن حکومت نے عدالتِ عظمیٰ کے ججوں کی خالی نشست کے تقرر کے بارے میں چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سفارش پر عمل کرنے کے بجائے تکنیکی نقطہ لگا کر سفارش واپس کردی ہے۔ یہ عمل سپریم کورٹ کے فیصلے کے تناظر میں عدلیہ سے محاذ آرائی کا آغاز ہے۔ اس فیصلے کا اس کے سوا کوئی مطلب نہیں ہے کہ موجودہ حکومت آزاد عدلیہ کے احتساب سے خوفزدہ ہے۔

اگرچہ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ نادان لوگ سمجھتے ہیں کہ اداروں میں تصادم ہوگا اور فوج آئے گی تو وہ اپنی غلط فہمی دور کرلیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں جمہوریت بڑی قربانیوں کے بعد آئی ہے اس کا تحفظ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اداروں کے تصادم کی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گی، تمام اداروں کو آئین پاکستان کے مطابق چلایا جائے گا۔ جمہوریت اور آئین کو مضبوطی سے تھام کر رکھیں گے اور 1973ء کے آئین کا مکمل تحفظ کریں گے۔ یقیناً وزیر اعظم کی جانب سے کئے جانے والے یہ اعلانات ہر پاکستانی کی خواہش ہیں لیکن ان کا اصل فائدہ اس وقت ہوگا جب حکومت اپنے ہی کہے ہوئے پر عمل نہ کرنے کے تاثرات کو ختم کر پائے۔

اس تمام صورتحال میں جہاں حکومتی ساکھ مجروح ہوئی ہے وہیں یہ بات بھی ایک بار پھر سامنے آئی ہے کہ اداروں کے استحکام کا نعرہ لگانے والے خود ہی ان میں تصادم پیدا کرنا چاہ رہے ہیں۔ وکلاء ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس خلیل الرحمن رمدے کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی بطور ایڈہاک جج تقرر اور بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس ثاقب نثار کی تعیناتی کے متعلق چیف جسٹس کی تجاویز مسترد کر کے ایک تیر سے کئی شکار کھیلنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس کا صریح مقصد عدلیہ کے مابین اختلاف پیدا کرنا اور عام فرد کو انصاف ملنے کے متعلق پیدا ہونے والی امید کو مستحکم ہونے سے پہلے ہی ختم کر دینا ہے۔ ایوان اقتدار کی غلام گردشوں سے واقف ایک انتہائی اہم شخصیت نے محشر سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ چیف جسٹس کی سفارشات کو مسترد کرنے سے قبل وزارت قانون اور محکمہ اطلاعات کی خبروں نے یہ تاثر پیدا کیا کہ گویا کسی غلط چیز کی تجویز پیش کی گئی تھی جسے منع کیا گیا ہے تاہم حقیقت میں معاملہ اس سے قطعی مختلف ہے۔ اگر اصول کی پاسداری ہی مقصود تھی تو کچھ عرصہ قبل صدر کی جانب سے جسٹس غلام ربانی کوایڈہاک جج کیوں مقرر کیا گیا تھا؟ وزیر اعظم اپنے اعلانات کے باوجود عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کیوں نہیں کروا رہے؟اگر ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم میں اختلافات موجود نہیں ہیں تو پھر یوسف رضا گیلانی اپنے ہی اعلانات پر عملدرآمد کیوں نہیں کروا پا رہے ہیں؟

اس تمام صورتحال پر محب وطن حلقوں سمیت وکلاء بھی خاصے برہم ہیں جس کا ثبوت وکلاء کی قومی رابطہ کونسل کی جانب سے 28جنوری کی ہڑتال کا اعلان ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر قاضی محمد انور نے کہا ہے کہ اس کے ذریعے وکیلوں کی صفوں کو درست کریں گے تاکہ جنگ کے لئے تیار رہیں۔ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کر رہی۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکومت کو کون سی ایسی مجبوری ہے جو فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرنے دے رہی، انہوں نے کہا کہ وکلاء فیصلوں پر عملدرآمد نہ کرنے پر حکومت کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ عدالتی فیصلوں پر عمل نہ ہونا بہت بڑا خطرہ ہے۔ وکلاء تصادم سے بچنے کے لئے جدوجہد کریں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت خود ہی اپنی ناؤ کو ڈبونا چاہتی ہے اس نازک موقع پر قانون کی حکمرانی کی اشد ضرورت ہے۔ اس ملک میں جنگل کا قانون نہیں چلنے دیں گے وکلاء قوم کو حکومت کی سازشوں کے بارے میں آگاہ کریں گے۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سفارشات پر عمل نہ کرنے پر وکلا رہنماؤں نے 28 جنوری کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کردیا ہے۔ وکلا کوآرڈینیشن کونسل کے اجلاس کے بعد سپریم کورٹ بار کے صدر قاضی انور نے چاروں ہائیکورٹ بارز، بار کونسلز، ایسوسی ایشنز کے صدور، وائس چیئرمین اور سینئر وکلاء کی موجودگی میں اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کی بحالی کے بعد پہلی بار باقاعدہ اجلاس میں حکومت اور عدلیہ کے درمیان محاذ آرائی کا جائزہ لیا گیا ہے۔ حکومت چیف جسٹس کے احکامات پر عمل نہیں کر رہی، این آر او پر سپریم کورٹ کے فیصلے میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں جسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔ وکلاء رہنماﺅں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کہ کرپشن کسی بھی شکل میںقبول نہیں کی جائے گی، احتساب ہوگا اور بلاامتیاز ہوگا، کوئی شخص خواہ صدر ہو، آئین سے بالاتر نہیں، لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے گی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ لاہور سمیت تمام ہائیکورٹس میں ججوں کی خالی اسامیوں کو فوری پر کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس ثاقب نثار کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی سفارشات پر عمل نہ کرنے پر حکومت نے آئین سے انحراف کیا۔ آئین کے تحت حکومت چیف جسٹس کی سفارشات پر عمل کی پابند ہے، اداروں میں ٹکراؤ نہیں چاہتے۔ قبل ازیں وکلاء کوآرڈینیشن کونسل نے اعلان کیا کہ وکلا قانون کی بالادستی کے لیے اپنا کردار ادا کریں،28جنوری کو ملک بھر میں وکلا عدالتی بائیکاٹ کریں گے اور حکومت کے خلاف قراردادیں اور مظاہرے کیے جائیں گے جبکہ 13 فروری کو پنڈی بار میں چیف جسٹس کی تقریب میں آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔

حالیہ فیصلوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر وکلاء اور ان کے رہنماﺅں سمیت سیاستدانوں سے گفتگو کی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حکومت تازہ کوششوں سے اپنے آپ کو ایک ایسی بند گلی میں دھکیل رہی ہے جہاں سے باہر نکلنے کیلئے اسے کوئی راستہ نہیں مل سکے گا۔ معروف قانون دان اور ہائی کورٹ کے سینئر وکیل محمد بلال لاکھا ایڈوکیٹ نے ٹیلیفونک گفتگو میں کہا کہ صدر کی جانب سے چیف جسٹس کی تجاویز کو مسترد کرنا اور وکلاء کی قومی رابطہ کونسل کی جانب سے ہڑتال کی کال جو منظر نامہ تشکیل دے رہی ہے وہ واضح طور پر اداروں میں تصادم کی صورت سامنے آئے گا۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ بے جا انا اور ہٹ دھرمی کے بجائے وسیع تر ملکی مفاد میں فیصلے کرے اور اپنے وزراء کو اس بات کا پابند کرے کہ وہ معاملات کو سلجھانے کے بجائے الجھانے سے گریز کریں۔
Shahid Abbasi
About the Author: Shahid Abbasi Read More Articles by Shahid Abbasi: 31 Articles with 30745 views I am a journalist , working in urdu news paper as a Health, cuurent affair, political and other related isssues' reporter. I have my own blog on wordp.. View More