ایک نئی جنگ ۔۔۔۔آخر کیا ہوگا؟
(Rizwan Peshawari, Peshawar)
یمن میں آگ کے گولے آسماں سے
گرائے جارہے ہیں اورایک نیا جنگی محاذ کھل چکا ہے ۔یمن کا داخلی انتشار اس
حد تک پہنچ گیا ہے جہاں سعودی عرب نے صدر عبدالربوہ منصور ہادی کی حکومت کے
تحفظ کے لئے یمن پر فضائی حملے شروع کر دیئے ہیں۔ خلیج کے ملکوں پر مشتمل
اتحادنے سعودی عرب کی طرف سے فضائی حملوں کی تائید کی ہے۔ یمن کے خلاف
آپریشن کا نامDECISIVE STORM فیصلہ کن طوفان رکھا گیا ہے جس کی نگرانی
سعودی عرب کے وزیر دفاع پرنس محمد بن سلمان اور نائب ولی عہدو نائب وزیر
اعظم محمد بن نائف کر رہے ہیں۔ مشرق وسطی میں اس وقت جو دھماکہ خیز صورت
حال ہے اس کے پس منظر میں یمن کا تنازعہ معاملات کو مزید الجھا دے گا۔ میں
جب ایرانی حمایت یافتہ حوثی قبائل نے یمن کے سابق صدر علی عبداﷲ صالح کے
خلاف بغاوت کر دی تھی اور ملک خانہ جنگی کا شکار ہو گیاتھا۔ حوثیوں نے علی
صالح عبداﷲ کو پرتشدد احتجاج سے بے بس کر دیا تھا اور ان کی حکومت مفلوج ہو
گئی تھی جس پر سعودی عرب اور خلیج کے ملکوں نے مداخلت کر کے علی عبداﷲ صالح
کی جان بچائی۔ سابق صدر پر براہ راست حملہ بھی ہوا تھا جس کے بعد ان کا
سعودی عرب میں علاج بھی ہوا۔ عجیب بات یہ ہے کہ عبداﷲ صالح کو سعودی عرب
اور ان کے اتحادیوں نے محفوظ راستہ دے کر بچایا تھا۔ بعد میں وہ بھی سعودی
عرب کے خلاف حوثی قبائل کے اتحادی بن گئے۔
گزشتہ برس ستمبر میں حوثیوں نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا۔ ریاست
کا اہم جنگی سازو سامان ان کے قبضے میں چلاگیا ہے جس کی وجہ سے اب تک تین
بڑے شہروں پر وہ حاوی ہو چکے ہیں ۔ عدن ان میں سب سے اہم ہے جہاں ایشیا او
رافریقہ کے درمیان بہنے والا بحیرہ احمر یہاں ایک تنگ گزرگاہ آبنائے باب
المندب میں بدل جا تاہے ۔ یہاں سالانہ بیس ہزار بحری جہاز گزرتے ہیں ۔یہ
خیال بیجا نہیں ہے کہ عدن پر حوثی اگر مضبوط اور دیرپا قبضہ کرنے میں
کامیاب ہوجاتے ہیں تو سعودی عرب سمیت خطے کے لیے یہ ایک تکلیف دہ صورت
ہوگی۔گزشتہ چند ماہ میں یمن کی صورت حال مزیدخراب ہو گئی جس پر یمن کے
موجودہ صدر عبدالربوہ منصور ہادی نے سعودی عرب خلیج کے ممالک اور عرب لیگ
سے امداد طلب کی جس پر سعودی عرب نے یمن کے صدر اور ان کی حکومت کو بچانے
کے لئے آپریشن شروع کیا اورشدیدفضائی حملہ شروع کر دیا۔جس کی شدت کا اندازہ
اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس فوجی کارروائی میں سعودی عرب کے سو جنگی
ہوائی جہاز اور ڈیڑھ لاکھ فوجی میں شریک ہیں ۔
امریکہ نے سعودی عرب کی طرف سے شروع کئے گئے اس آپریشن کی حمایت کی ہے۔لیکن
ایران نے سعودی عرب کے ذریعے کی جارہی فوجی کارروائی کو جارحیت اوریمن کی
ارضی سا لمیت کی خلاف ورزی قرار دیا ہے،ایران کے نائب وزیر خارجہ حسین امیر
عبداﷲ یان نے جمعرات کو ماسکو میں دئے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ بعض
ممالک جو خودسرانہ کارروائیوں سے اقوام متحدہ کے منشور کی خلاف ورزی کرتے
ہیں اس سے امن عالم کو کوئی تقویت نہیں ملتی ہے نیز فضائی حملے اور جنگ
شروع کرنا آسان ہے لیکن جنگ کا خاتمہ ایک مشکل کام ہے۔
مشرقِ وسطی اور اس سے ملحق خطے میں اثر و رسوخ اور اپنی حامی حکومتوں کے
قیام کی عرب ایران کشمکش کئی دہائیوں سے جاری ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب سے
افغانستان اور عراق میں طالبان اور صدام حسین کی صورت میں ایران مخالف
حکومتوں کا خاتمہ ہوا۔ اس خطے میں ایرانی مفادات تیزی سے آگے بڑھے ہیں ۔ جس
کو مزید تقویت اس وقت ملی جب میں ایرانی امداد یافتہ حزب اﷲ نے اسرائیل کے
خلاف سخت مزاحمتی قوت کا اظہار کیا۔ مصر کی فوجی حکومت سعودی عرب کی قریبی
حلیف سمجھی جاتی ہے جس کی وجہ سے اخوان کا تختہ الٹ کر دوبارہ جب فوج برسرِ
اقتدار آئی تو اسے ہر ممکن مدد فراہم کی گئی ۔عرب ایران تنازعے میں طرفین
نے ہمیشہ غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا۔مفادات کی جنگ کو مسلک کی بنیا دپر لڑا
گیا،ایک جانب جہاں انقلاب کے بعد ایران نے اپنے ان ہمسایہ عرب ممالک میں
جہاں شیعہ اقلیت میں تھے حکومتیں بدل دینے کا خواب دیکھا۔ وہیں دوسری طرف
تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ریاستیں دفاعی میدان میں لاچار تھیں ۔اپنی
دفاعی کمزوریوں کی وجہ سے خطے میں بڑھتے ہوئے ایرانی اثر و رسوخ نے انہیں
ضرورت سے زیادہ پریشان کر دیا۔ ادھر امریکی و مغربی ممالک کے لیے یہ ان
خطرات کو بڑھاچڑھا کر پیش کرنے اور کھربوں ڈالرکا دفاعی سازو سامان بیچنے
کا ایک عمدہ موقع تھا، جس سے انہوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ میں سعودی عرب
دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہتھیار درآمد کرنے والا ملک تھا۔
بہت زیادہ دن نہیں گزرے جب شام کی اکثریتی سنی آبادی نے حکومت کے مظالم کے
خلاف مظاہرے کئے تو خلیجی ممالک بہت جوش میں تھے ۔ وہ اسی اندازمیں شام کی
بشارالاسد حکومت گرائے جانے کے خواہشمند تھے، جس طرز پرلیبیامیں معمر قذافی
کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ عراق اور لیبیاوہ مثالیں ہیں ، جہاں وقتی مفاد کی
خاطر امریکی اتحاد نے مرکزی حکومت کا خاتمہ تو کردیا لیکن اس کے بعد انہیں
خانہ جنگی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ امریکہ اور مغرب عوامی سطح پر اور
ایوانوں میں سخت ترین ردعمل کے پیشِ نظر شام میں مداخلت سے باز رہے۔ سعودی
عرب نے اس پراپنے پرانے حلیف امریکہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ۔ ایرانی
حلیف بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ خلیجی ریاستوں کے لئے ایک حسین خوا ب ہے
جو ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ہے،نیز اس سال کے آغاز سے ہی ایران کے
لئے خوش کن تبدیلیاں آنے کا امکان پیدا ہوگیا جب کافی عرصہ سے ایران کے
جوہری پروگرام پر عائدامریکی و عالمی پابندیوں نے ایرانی معیشت کو سخت
بحران سے دوچار کر رکھا تھا۔ پہلی بار فریقین مارچ تک کسی قابلِ عمل معاہدے
تک پہنچنے کے لیے پر امید ہیں ۔جس کے نتیجے میں ایران کو محدود مقدار میں
یورینیم افزودگی کی اجازت مل جائے گی حالانکہ اس بات کے امکانات بہت کم ہیں
کہ سخت عالمی نگرانی میں وہ ایٹمی ہتھیار بنا پا ئے گا۔ لیکن یہ بات ظاہر
ہے کہ وہ ایک خطرناک ٹیکنالوجی سیکھتا چلا جا رہا ہے جو خطہ میں عدم
استحکام پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔اسی خدشہ کے پیش نظر دو ہفتے قبل ایک
سعودی شہزادے نے یہ بیان دیا تھا: ایٹمی معاملے پر عالمی برادری جو کچھ
ایران کو دے گی، سعودی عرب کو بھی وہی کچھ دینا ہوگا۔ عالمی پابندیوں کے
خاتمے سے تیل و گیس کے ذخائر سے مالا مال ایرانی معیشت دوبارہ ترقی کی راہ
پر گامزن ہو جائے گی ۔نیز دفاعی طور پرخطے میں وہ ایک مضبوط اور منفرد طاقت
بن کر ابھرے گا۔
یمن کے ساتھ سعودی عرب کلومیٹر طویل سرحد رکھتاہے ۔ یہاں حالات کی خرابی سے
براہِ راست اسے خطرہ درپیش ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یمنی سرحد پر وہ سینسر اور
کیمروں سمیت جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس دیو قامت باڑ لگا رہا ہے ۔یمن کی
صورتِ حال انتہائی پیچیدہ ہے موجودہ بحران کا ایک پہلو فرقہ وارانہ کشمکش
بھی ہے۔ یہاں ایرانی حمایت یافتہ حوثی شیعہ قبائل ہی نہیں ، سنی قبائل،
القاعدہ ، دولتِ اسلامیہ جس نے حال ہی میں حوثی قبائل پر خودکش حملے کئے
ہیں،جیسے بہت سے متحارب حریف بھی موجود ہیں ۔یمن میں فوجی مداخلت سعودی عرب
کی خارجہ پالیسی میں جوہر ی تبدیلی ہے ۔بعض مبصرین کے مطابق سعودی عرب کے
سابق حکمراں شاہ عبداﷲ مرحوم صلح پسند شخص تھے اور تصادم سے گریز کرتے تھے
لیکن ان کے برعکس موجودہ حکمراں سلمان بن عبدالعزیز جارحانہ انداز میں
سعودی عرب کے مفادات کا تحفظ کرنے کی پالیسی پر عمل کریں گے اورسعودی عرب
اپنی سرحدوں کے قریب ایران کی مدد سے کسی بھی قوت کو ابھرنے سے روکنے کی
حکمت عملی پر عمل پیرار ہے گاجس کے نتیجے میں ایران عرب کشیدگی اپنی انتہا
کو پہنچ جائے گی۔ |
|