کراچی آپریشن چوتھا مرحلہ

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کراچی آپریشن کو کامیاب بنانے کیلئے رینجرز وپولیس کی جانب سے اپنے اہلکاروں اور افسران کی بھی قربانی دی جا رہی ہے۔ پولیس ترجمان کے مطابق رواں برس پولیس کے 27 افسران و جوان دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔اسی طرح رینجرز بھی دہشت گردوں کے نشانے پر ہے اور متعدد واقعات میں خود کش اور دستی بموں حملوں میں رینجرز کئی افسران و اہلکار شہید ہوئے ہیں۔کراچی میں قیام امن ایک خواب بن گیا ہے اور اس کی خواب کی تعبیر کئی عشروں سے تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن اب پہلی بار ایسا لگ رہا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی سیاسی مفاہمتی عمل سے بیزار ہوچکے ہیں اور انھوں نے یہ طے کرلیا ہے کہ ہر صورت اس بار کراچی آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔عوامی نیشنل پارٹی کے سنیئر رہنما بشیر جان سے کراچی آپریشن کے حوالے سے دریافت کیا تو انھوں نے کہا کہ کراچی میں کئی عشروں سے پختون آبادیوں میں طالبان اور شدت پسندی کے نام پر آپریشن جاری ہے اور ہم نے تمام تر تحفظات کے باوجود آپریشن کی حمایت جاری رکھی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی) ولی گروپ( کے جنرل سیکرٹری قاسم جان نے تحفظات کاٍ اظہار کیا کہ، کیا آج تک کوئی آپریشن منطقی انجام تک پہنچا ہے ؟۔ متحدہ کاموقف ہے کہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ایم کیو ایم کا تعاون پہلے بھی تھا اور آئندہ بھی جاری رہے گا لیکن جرائم پیشہ عناصر کی آڑ میں ایم کیو ایم کو دیوار سے لگانا درست عمل نہیں ہوگا ۔ جماعت اسلامی کراچی آپریشن کو مزید سخت کرنے کی حامی ہے تو تحریک انصاف نے کراچی آپریشن کو صرف ایم کیو ایم تک محدود رکھتے ہوئے انتہائی سخت جملے استعمال کئے ہیں، سندھی قوم پرست جماعتیں کراچی آپریشن پر خوش دکھائی دیتی ہیں تو پیپلز پارٹی شہر کا امن تو واپس لانے کو تیار ہے لیکن لیاری گینگ وار کے مرکزی کردار عزیر جان بلوچ کو دوبئی سے کراچی لانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔کراچی کی مذہبی جماعتیں کراچی آپریشن میں اپنے کارکنان کی ہلاکتوں و گرفتاریوں پر بھی تحفظ کا اظہار کر رہی ہیں لیکن کراچی آپریشن کی مخالفت نہیں کر رہی۔ یہاں دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ ایک سزائے موت کے قیدی صولت مرزا کی جانب سے عین پھانسی کے وقت متنازعہ ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد کراچی کی سیاسی صورتحال میں بڑی تیزی سے تبدیلی ہوئی اور حکومت نے تین بار صولت مرزا کی پھانسی کو التوا میں ڈال دیا۔ یہاں ایک اور حیرت انگیز صورتحال الیکڑونک میڈیا کی جانب سے بھی آئی کہ کچھ نیوز چینلز نے خبر دینے کے بجائے خبر بننے کا فیصلہ کیاَدوسری جانب سندھ کے کچھ ایسے دانشوروں اور کالم نویسوں نے کہا کہ کالعدم مذہبی جماعتوں و شدت پسند دہشت گردں کے خلاف کیا جا رہا تھا لیکن بین الاقوامی خاص کر مشرق وسطی کی بدلتی صورتحال کے تناظر میں کراچی آپریشن کا رخ مخصوص سیاسی جماعت کی جانب موڑ دیا گیا ،جو کراچی پر قبضے کی کوشش ہے۔یہاں یہ بھی ایک اہم سوچ کا رفرما رہی کہ کراچی میں ایک سیاسی خلا پیدا کیا جارہا ہے اور اس سیاسی خلا کو پورا کرنے کیلئے تحریک انصاف کو لانچ کرنے کی تیاری کی جارہی ہے ،۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ کراچی آپریشن کے اس چوتھے مرحلے پر سخت تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے ۔یہ ضرور ہے کہ پاکستان کے سیاسی کلچر کے مطابق کسی سیاست دان یا ان کے دفاتر پر چھاپوں کا کوئی تصور نہیں ہے لیکن کراچی کی صورتحال انتہائی گھمبیر ہوچکی ہے۔ کسی سیاسی جماعت یا ان کے قائدین پر لگنے والے الزامات نئے نہیں ہیں ۔ الزامات لگتے رہے ہیں۔ اس سے قبل بھی مختلف سیاسی جماعتوں کے سربراہ پر بغاوت اور پاکستان سے غداری کے الزامات لگ چکے ہیں۔اسی طرح جہاں صولت مرزا نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں کا نام لیکر الزام تراشی کی ہے تو دوسری جانب گینگ وار کے اہم مہرے عزیر جان بلوچ کی جانب سے بھی پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں پر الزامات کی خبریں بھی زد عام ہیں۔

کراچی آپریشن کا پہلا مرحلہ ٹارگٹ آپریشن کے طور پر شروع کیا گیا ، پوری آبادیوں کا محاصرہ کرکے تلاشی اور مشکوک افراد سے پوچھ گچھ کی جاتی تھی ، ہیلی کاپٹر سے فضائی نگرانی اس کے علاوہ ہوتی تھی ، پہلے مرحلے میں شدت پسندوں کو کراچی کے نواحی یا سرحدی علاقوں میں تلاش کیا گیا اور اس سلسلے میں رینجرز کو کافی کامیابیاں بھی ملیں ۔اے این پی کے مرکزی دفتر اور ان کے علاقائی دفاتر میں بھی آپریشن کیا گیا اور اے این پی کے ذرائع کے مطابق سینکڑوں کارکنان کو گرفتار کیا گیا اسی طرح لیاری میں متعدد بار آپریشن کیا گیا ، اسی طرح آپریشن کے دوسرے مرحلے میں آپریشن کی اسٹریجی تبدیل کردی گئی اور ٹارگٹڈ آپریشن کا سلسلہ شروع کیا گیا ، وثوق اطلاعات کے بعد چھاپے مارے گئے جن کی تعداد ہزاروں میں رہی اور اسی طرح گرفتاری کی تعداد بھی20ہزار سے زائد رہی۔ آپریشن کے تیسرے مرحلے میں کالعدم مذہبی جماعتوں اور شدت پسندوں کے خلاف کاروائیاں کیں گئیں اور ایک بڑی تعداد میں گرفتاریاں عمل میں آئیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اس عمل کو کالعدم تحریک طالبان نے سنجیدگی سے لیا اور اپنے کارکنان کی گرفتاریوں اور تشدد پر سخت ردعمل کا اظہار کیا۔آپریشن کے چوتھے مرحلے کو سخت قرار دیا گیا اور مطلوب افراد کی گرفتاری کیلئے ہر سطح پر کاروائی کا عندیہ دیتے ہوئے اعلی سطح کے ایک اجلاس میں پیپلز پارٹی حکومت کی سخت سرزنش بھی کی گئی۔۔لیاری گینگ وار کے اہم مہرے عزیر بلوچ اور صولت مرزا کے بیانات نے کراچی کی سیاست میں کسی بڑی تبدیلی کا اشارہ دے دیا ہے۔کراچی کی بڑی سیاسی جماعتوں پر کریک ڈاؤن کے بعد رینجرز اب کراچی سے پانی فراہمی کی بعد بیرئیر ہٹانے کی مہم پر لگی ہوئی ہے جس سے عوام میں عدم تحفظ کی لہر بھی دوڑ گئی ہے کیونکہ حکومت اسٹریٹ کرائم روکنے میں ناکام رہی ہے اس صورتحال میں جبکہ کراچی میں دہشت گردی کے واقعات بھی زور پکڑ رہے ہیں ، اہم جگہوں ، مساجد یا عمارتوں سے سیکورٹی کے نام پر لگائے جانے والے بیرئیر ہٹانا اور اس کا متبادل فراہم کرنا رینجرز کیلئے ایک چیلنج ثابت ہوگا۔رینجرز کو کراچی میں اعتماد بحالی کیلئے موثر کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہرینجرز کے نام پر مختلف علاقوں میں پولیس اور سی آئی ڈی کے کچھ اہلکاروں نے سیزن بنا رکھا ہے اور بے گناہ افراد کو اغوا کرکے لے جاتے ہیں پھر ان ہی کے فون سے اہل خانہ کو فون کرواکر بھاری رقوم وصول کرتے ہیں۔ایسے متعدد واقعات سامنے آچکے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے کوئی موثر کاروائی نہیں کی جاتی جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی محنت کو رائیگاں کرنے کی ایک مذموم کوشش بھی قرار دی جا سکتی ہے۔کراچی کا امن صرف عوام کے تعاون سے ہی ممکن ہے اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اور پولیس اپنا رویہ درست رکھیں اور آپریشن کی آڑ میں بے گناہ افراد سے لوٹ مار یا جعلی مقابلوں میں ملزمان کو ہلاک نہ کریں تو عوام یقینی طور پر ان کا بھرپور ساتھ دے سکتی ہے اگر آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 746403 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.