آزادی یا منافقت، امریکی آمد سے قبل اور آج کا عراق

عراق علم اور تہذیب کی سرزمین، جس نے اپنے ماضی کے اندر صرف وہاں رہنے والوں کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو علم کی روشنی سے منور کیا۔ ایک وقت تھا جب بغدار اور ملحقہ علاقوں کی یونیورسٹیوں سے پھوٹنے والے علم کے سوتے چہار دانگ عالم میں پھیل کر جہالت کی تاریکیوں کو ختم کرنے میں مصروف تھے۔ جی ہاں یہ وہی وقت تھا جب آج کا یورپ اور مغرب تعلیم کی روشنی سے آشنا نہیں ہوئے تھے۔ اس وقت کسی بھی مغربی فرد کے لئے بالکل اسی طرح اپنے گھروں میں یا کاروبار کی جگہوں پر کتابیں رکھنا، جبہ و دستار پہننا،مسلمانوں کی سی طرز زندگی اختیار کرنا باعث فخر ہوا کرتا تھا جس طرح آج بہت سارے مسلمانوں کے لئے منہ ٹیڑھی کر کے انگریزی بولنا، چمچ، کانٹے سے کھانا کھانا اور مغربی انداز میں زندگی گزارنا قابل فخر ہے۔ بس فرق صرف یہ نظر آتا ہے کہ بغداد اور عراق کی علمی ترقی کے اس دور میں مسلم ریاست اپنے فرض کو سہی طرح سے ادا نہیں کر پائی لیکن آج مغرب معاشرے سے ذیادہ مغربی حکومتیں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔

دیگر تمام پہلوﺅں سے بحث یہاں مقصود نہیں صرف اس بات کو مدنظر رکھنے کی کوشش کریں گے کہ جب اس وقت کی برتر تہذیب نے دنیا کو خیر کی قوت اور علم کی روشنی سے نوازا تو اس کے ظاہر کی طرح اس کا باطن بھی اتنا ہی اجلا تھا کہ کسی کو یہ پریشانی نہیں ہوئی کہ مسلمان کہلانے والی یہ غالب قوم نام تو کچھ اور اصولوں کا لیتی ہے لیکن عملاً ان کارویہ اور کاموں سے پیدا ہونے والے نتائج یا باطن کچھ اور نظر آتا ہے۔ بغداد کی جن یونیورسٹیوں نے اس دور میں فروغ علم کے لئے اپنا کردار ادا کیا آج ہم ان سے اتنے ہی بے بہرہ ہوتے جا رہے ہیں جتنے اس وقت کا مغرب تہذیب و تمدن سے عاری تھا۔

اگرچہ کسی نہ کسی سطح پر دنیا بھر میں کھوئے ہوئے مقام کی بحالی کے لئے کوششیں جاری ہیں لیکن اس بار صفیں اتنی ہوشیاری سے ترتیب دی گئی ہیں اور سازشوں کی ایسی بھرمار ہے کہ آج کا سب سے بڑا مسئلہ ٹیکنالوجی سے محرومی یا معاشی کمزوری نہیں بلکہ علم نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والا ابہام بن چکا ہے۔ جس نے انڈے بچے دے کر ایک ایسی مخلوق تخلیق کر دی ہے کہ جو اس وقت قیادتوں کے منصب پر تو فائز ہے، رائے لینے کے لئے اس کی جانب رجوع بھی کیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے سوال پوچھنے والے کی طرح جواب دینے والے کو بھی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس سے کیا پوچھا جا رہا ہے؟یا اس کے منصب کے تقاضے کیا ہیں؟ ابہام اور صرف ابہام نے ہر طرف وہ افراتفری اور بے یقینی برپا کر رکھی ہے کہ جس کی وجہ سے بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں اس کا ممکنہ نتیجہ کیا نکلے گا بلکہ اکثریت کو یہی اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کوئی بھی کام کیوں کر رہے ہیں اور اس سے انہیں کیا نتائج حاصل کرنا مقصود ہیں۔

آج غالب تہذیب نے جسے دنیا مغرب کے نام سے جانتی ہے ہر طرف ایک ایسی آگ لگا رکھی ہے جس میں مادیت کی تپش اور مصنوعیت پر مبنی اخلاقیات کی حرارت نے ہر ایک کو مجروح کرنا شروع کر رکھا ہے۔ جو کام ماضی میں برے سمجھے جاتے تھے انہیں معاشرے میں رائج کرنے کے لئے بڑی خوبصورتی سے اصطلاحات کا جادو استعمال کرتے ہوئے نئے ناموں سے معنون کر دیاگیا ہے۔ کل کا میراثی آج موسیقار بن چکا ہے، بھانڈوں کو مزاحیہ اداکار کہنا شروع کر دیا گیا ہے، طوائفوں کا نام اداکارائیں رکھ دیا گیا ہے، دلالوں کو سیکرٹری کہا جاتا ہے اور ہر اس پیشے کو جسے شرفاء قابل نفرت گردانتے تھے فنون لطیفہ کے نام پر باعث فخر بنانے کی کوششیں پورے عروج پر نظر آتی ہیں۔ جس سے بعض اوقات وہ لوگ بھی متاثر ہوتے محسوس ہوتے ہیں جن کا کام ہی اس طوفان بدتمیزی کے آگے بند باندھنا ہے۔اور آخر کیوں نہ ہو جب اس طوفان بدتمیزی کے اصل سبب نے یہ دعوی جو کر رکھا ہے کہ ”میں ان کے آگے اور پیچھے سے، دائیں اور بائیں سے آکر انہیں بہکاﺅں گا“۔آج ہر بدتہذیبی تہذیب کے نام پر روا رکھی جاتی ہے۔انصاف کے نام پر بے انصافی کو فروغ دینے کی کوششیں ہوتی ہیں، عوامی فلاح کے نام پر انہیں ہی لوٹا کھسوٹا جاتا ہے، حقوق کے نام پر حق سے محرومی کا تحفہ دیا جاتا ہے،عورت کو برابری کی بنیاد پر مرتبہ ”عورت“سے محرم کرنے کی تیاریاں ہیں۔

ان حالات میں اگر کسی جانب سے کوئی سیدھا راستہ دکھانے کی کوشش کی جائے تو اسے فوری طور پر بنیاد پرست، مولوی یا اسی طرح کا کوئی نام دے کر نظر انداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن کبھی کبھار خود انہی صفوں میں سے کوئی ایسی آواز بلند ہو کر اندر کے تعفن اور غلاظت کی نشاندہی کر جاتی ہے جسے جھٹلانا اور جس کے بعد کوئی بہانا بنانا حقوق کی فراہمی کے ٹھیکیداروں کے لئے ممکن نہیں رہتا۔ ایسی ہی ایک آواز سرزمین عراق سے پھر بلند ہوئی جس نے وہاں برسرپیکار عالمی امن کے بزعم خود ٹھیکیدار کا اصل چہرہ دنیا کو مزید واضح کر کے دکھانے کی کوشش کی ہے۔

ڈاکٹر سعود العضاوی بغداد کی ایک یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور برسلز ٹربیونل ایڈوائزری کمیٹی کے رکن بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ” میرا آج کا موضوع میرے ملک عراق پر قبضہ ہے۔اس موضوع پر میں نے اپنے آپ کو کبھی بھی جذباتی نہیں پایا۔ میں نے کبھی بھی ان موضوعات کو سطحی طور پر سوچنے یا مشاہداتی طریقے سے دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ لیکن اچانک ہی میں نے اپنے آپ کو جنگ اور قبضے سے ہونے والی تباہی پر غوروفکر کرتا پایا۔ میرے ملک عراق میں برپا کی جانے والی تباہی کو دیکھ کر میرا سر غصے سے کپکپا رہا تھا اور میری آنکھیں آنسوﺅں سے جل رہی تھیں۔ آج قبضے کے 6سال پورے ہونے کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا کہ مجھے اس ساری صورتحال کو ایک سائنسدان کی مانند دیکھنا ہوگا۔

میں موضوع پر جذبات کے ساتھ حملہ آور ہونے کے بجائے ان اعدادوشمار کو استعمال کروں گا جو خود بولیں گے۔ یہی سوچ کر میں گزشتہ بر س ایک تجزیہ کار اور ایک تحقیق داں کا کردار ادا کرنے کے لئے کوشاں رہا ایک ایسے موضوع پر جو مجھے اپنے دل سے انتہائی قریب محسوس ہوتا ہے۔

(ڈاکٹرسعودالعضاوی کی جانب سے جمع کئے جانے والے ا عدادوشمار قارئین کے لئے پیش ہیں)
قبضے کے دوران 6سال
تباہی کے72مہینے
جنگ پر607ارب ڈالر خرچ کئے گئے
یومیہ بنیادوں پر 20لاکھ بیرل خام تیل امریکا نے فروخت کیا
20لاکھ عراقیوں کو ملک کے اندر ہی گھروں سے بے گھر کر دیا گیا
30لاکھ عراقیوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا
2615سائنسدان، ڈاکٹرز اور پروفیسروں کو قتل کیا گیا
338صحافیوں کو زندگیوں سے محروم کیا گیا
13ارب ڈالرموجودہ عراقی حکومت نے غبن کر لئے
قبل از جنگ کے عراق کے انفراسٹرکچر کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے 400ارب ڈالر درکار ہیں
دن میں اوسطاً 3گھنٹے بجلی دستیاب ہوتی ہے
مہینے میں اوسطا24کار بم حملے ہوتے ہیں
ملک بھر میں 7 بڑی مافیائیں کام کر رہی ہیں
4260امریکی فوجی اب تک جنگ کا لقمہ بن چکے ہیں
179برطانوی فوجی قبضہ برقرار رکھنے کے لئے کام آئے
جنگ کے باعث سالانہ قے اور دست کے 10ہزار مریض بڑھ رہے ہیں
میرے 50دوستوں کوشہید کیا جا چکا ہے
میرے22رشتہ داروں کو شہید کیا گیا
میرے انتہائی قریبی رشتہ داروں میں سے15افراد کو اغواء کیا گیا

2003ءکے بعد سے اب تک 6برسوں میں کم از کم 13لاکھ عراقیوں کو شہید کیا گیا(برطانوی اخبار گارڈین کی جانب سے جنوری2008ءمیں شائع کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت تک 1لاکھ51ہزار عراقی عوام کو قتل کیا گیا،اس رپورٹ سے مغربی پریس کا وہ چہرہ نظر آتا ہے جو تعصب اور بدنیتی پر مبنی ہے، جب کہ امریکہ میں کئے جانے والے ایک حالیہ سروے کے مطابق وہاں بیویاں بیمار شوہروں کے علاج سے قبل بیمار کتے کا علاج کروانے کو ترجیح دیتی ہیں، واہ رے زندگی اور واہ رے تہذیب مغرب تو جانوروں کو تو برتر جانے لیکن قتل ہوتے مسلمان بچے ،بوڑھے اور عورتیں تیرے مہذب پن کو نہ جگا سکے،بلاشبہ اقبال نے سچ کہا تھا
”ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات“

امریکی قبضے کے دوران سامنے آنے والے ان اعدادوشمار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔جوں جوں ہم اپنی سرزمین پر قابض امریکیوں کو اعزازات سے نوا زرہے ہیں ہلاکتوں اور اغواء کی وارداتوں میں بھی اسی طرح اضافہ ہو رہا ہے یہ اعدادوشمار خود بولتے ہیں۔ گزشتہ6ماہ میں عراقیوں کی اکثریت یہ جان چکی ہے کہ اس جنگ سے کوئی بہتری نہیں آئی۔ واضح رہے کہ عراق پر حملے کی ابتداء میں صدام کے مظالم اور عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کو امریکا کی جانب سے جنگ کے جواز کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ اس جنگ نے6 لاکھ عراقیوں کو ملک کے اندر یا باہر ٹھکانوں سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر ہی 10لاکھ سے زائد کو زندگیوں سے محروم کر دیا۔

گزشتہ 6سالوں میں بیتنے والے ان لمحات کی جانب سے عطا کردہ ان تحفوں نے ایک عراقی ہونے کے ناطے اپنی بے بسی اور لاچاری پر مبنی اعدادوشمار نے مجھے شرم اور افسوس کا شکار کر دیا ہے جس کی وجہ سے میرا خون کھول اٹھا ہے اور میرے دل میں جذبات کی لہر مؤجذن ہے جس پر قابو پانا ہر گزرتے دن کے ساتھ میرے لئے دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ یقیناً یہ ان سب کو حرکت میں لانے کے لئے کافی ہوں گے جو اب تک خاموش اور بے فکری سے رہ رہے تھے۔ یقیناً ہماری یہ کار گزاری ہم سب کے لئے قابل شرم ہے۔“
Shahid Abbasi
About the Author: Shahid Abbasi Read More Articles by Shahid Abbasi: 31 Articles with 30749 views I am a journalist , working in urdu news paper as a Health, cuurent affair, political and other related isssues' reporter. I have my own blog on wordp.. View More