اگر کوئی کسی کی غیر موجودگی میں
بغیر تحقیق کے کوئی اعتراض کر دے جو اگلے کو برا لگے تو یہ انتہائی نامناسب
بات ھے۔ سمجھدار لوگوں کیلئے ایسی باتوں کا خیال رکھنا بہت ضروری ھے اور
ایک لکھنے والے کیلئے تو بہت ھی ضروری ھے۔ اخلاق دین سے نکلا ھے اور
اخلاقیات کا تقاضا یہی ھے کہ کسی کی بات اگر کسی وجہ سے کرنی ضروری ھو،مثلا
انسانیت کی فلاح کے حوالے سے تو پوری تحقیق کے بعد کی جائے،محض سنی سنائی
باتوں کی بنیاد پر فیصلہ نہ سنا دیا جائے۔ برائی کی نشاندھی کر کے دوسروں
کو اس سے بچانے کی کوشش صحافت کا تقاضا ھے لیکن ظاھر ھے اس میں سچی دلیل
بھی ھونی چاھئے۔ مغربی معاشروں میں کچھ اچھی باتیں بھی رائج ھیں اور کچھ
ھمیں نامناسب بھی لگتی ھیں لیکن ان کی اچھی یا بری باتوں کو بطور دلیل ھم
اپنے معاشرے میں نافذ نہیں کر سکتے۔ اگر کرنا چاھیں تو ھم اپنے نفع نقصان
دیکھ کر ھی کریں گے۔ ھومیو پیتھک ایک مسلمہ طریقہ علاج ھے،جس کی ایک پوری
تاریخ ھے اور ھومیو پیتھی دوسرے طریقہ علاج کے ساتھ مغربی معاشرے میں بھی
اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ھے۔ اس کی بہت تعریف بھی موجود ھے، لوگ اس
کو پڑھ کر ان معاشروں میں پریکٹس بھی کر رھے ھیں اور ان کی پریکٹس اسی
معاشرے کے مریضوں کے اعتماد کی مرھون منت ھے اور صرف ھومیو پیتھک پر نہیں
دوسرے طریقہ علاج پر بھی تنقید ھوتی رھتی ھے۔ مغربی معاشرے میں ایسے لوگ
بھی موجود ھیں جو ایلوپیتھک پر شدید تنقید کرتے ھیں لیکن اگر ان کی تنقید
کو لے کر ایلوپییتھک طریقہ علاج پر قلمی بوچھاڑ کر دی جائے تو کسی ذمہ دار
لکھاری کیلئے یہ ممکن نہِیں ھو گا کیونکہ وہ جب لکھے گا تو اسے ایلوپیتھک
کا ایمانداری سے مشاھدہ کرنا ھو گا،بنیادی معلومات حاصل کرنی ھوں گی اور
ایلوپیتھک سے وابستہ خرابیاں اپنی جگہ لیکن انسانیت کو پہنچنے والے فائدوں
کا تقاضا اسے ایلوپیتھک کی خوامخوہ مخالفت سے باز ھی رکھے گا۔ سمجھ نہیں
آتا کہ ایک اخبار کے کالم نگار کی ھومیو پیتھک پر انتہائی نامناسب قلمی مشق
کا کیا مقصد ھے۔ کالم پڑھ کر تو غیر ذمہ دارانہ رویے اور ایک تہمت کا گمان
گزرتا ھے، جس کی وجہ جلدی اورھومیوپیتھک سے ناواقفیت ھی ھو سکتی ھے۔ ھومیو
پیتھک پر اعتماد کرنے والے لوگوں،مریضوں کی تعداد قابل ذکر ھے اور حیران کن
بھی لیکن ایلوپیتھک کا ایک اپنا نمایاں اور غالب مقام ھے۔ اگر کالم نگار
مغرب کی ایک کمزور سی تنقید کو اپنا معیار بناتے ھیں تو ڈاکٹر جوزف
مرکولا،شکاگو،امریکہ کی سائٹ پر سب سے بڑے اور پوری دنیا میں رائج طریقہ
علاج کے بارے میں موجود اعتراضات کے بارے میں کیا خیال ھے۔ ڈاکٹر ہارڈن بن
جونز آف کیلیفورنیا کا کیموتھراپی پر اعتراض اس لنک میں دیکھیں ۔
https://www.naturalnews.com/048827_chemotherapy_cancer_treatment_patient_survival.html
وہ تو کیمو تھراپی کو کینسر کے مریضوں کی موت کی وجہ قرار دے رھے ھیں۔
لاھور میں کینسر کے مریضوں کا علاج کیمو تھراپی سے بھی کیا جاتا ھے،تو کیا
آپ کی تقلید میں کیمو تھراپی کو بند کرانے کا ایک غلط مطالبہ کر دیا جائے۔
کیا اس کو بنیاد بنا کر ایلوپیتھک کے بارے میں قلمی حملے شروع کر دئے جائیں۔
جناب تنقیدیں ھوتی ھیں اور غلط بھی ثابت ھوتی رھتی ھیں اور صحیح بھی ھوتی
ھوں گی،لیکن اصل بات افادیت کی ھے۔ اگر لوگوں کو فائدہ ھو رھا ھے تو یہ
طریقہ علاج کے جاری رھنے کا جواز ھے اور تنقید برائے اصلاح کی ضرورت ھر وقت
رھتی ھے اور ترقی اور بہتری میں مثبت تنقید کا بڑا کردار ھوتا ھے، لیکن
تنقید کا انداز ایسا نہیں ھونا چاھئے جس سے ناجائز مخالفت اور تعصب کا تاثر
پیدا ھو اور وہ قلمی فساد کا باعث بن جائے۔ بہت سارے اچھے ڈاکٹروں کے ساتھ
بہت سارے جعلی ڈاکٹر بھی کام کر رھے ھیں۔ مریض خوار ھو رھے ھیں۔ بڑی
بیماریوں کا ایلوپیتھک علاج مڈل کلاس کی پہنچ سے باھر ھے۔ مری اپنی والدہ
کی نوویڈیٹ گولیوں سے خون کی نالیاں پھٹ گئیں۔علاج کرنے والے پروفیسر ڈاکٹر
تھے۔ بے شمار مریضوں کو میڈیسن کے سائیڈ ایفیکٹس ھو جاتے ھیں۔ کیا اس پر
لکھا گیا۔ ھسپتالوں کے حالات مزید بہتر کرنے کی ضرورت ھے اور ھسپتالوں کی
ضروت ھے۔ لیکن ابھی کوئی صورت نظر نہیں آ رھی۔ کیا ان پر کوئی کالم لکھا
گیا۔ ۲۹ مارچ کو جنگ اخبار میں ڈاکٹر صفدر محمود نے ساہیوال کے ایک صاحب کا
ذکر کیا ھے، جنہوں نے اپنے کینسر کے مریض کا جرمنی میں ہومیو پیتھی کے
ذریعے کامیاب علاج کروانے کے بعد خود ہو میوپیتھی کے ذریعے مفت علاج کا
کلینک کھولا۔
۸ اپریل کو جنگ اخبار میں عظیم سرور صاحب کے کالم میں بتایا گیا ھے کہ
آسٹریلیا اور برطانیہ دونوں ملکوں کی آئینی سربراہ ملکہ الزبتھ اور ان کا
خاندان ہومیوپیتھک علاج کو ترجیح دیتا ہے۔ لندن میں قیام کے دوران عظیم
سرور صاحب نے اپنا چشم دید مشاھدہ لکھا ھے کہ بی بی سی کے اسٹوڈیوز میں
پروفیسر بلیکی کو دیکھا جو ایک تقریر کرنے آئی تھیں۔ بتایا گیا کہ وہ
ہومیوپیتھک ڈاکٹر ہیں اور ملکۂ برطانیہ کی خاص معالج ہیں۔ وہ لکھتے ھیں کہ
میں یہ بات جان کر حیرت زدہ سا ہوگیا اور ان کے دوست نے بتایا کہ انگلینڈ
میں ہومیو پیتھک ڈاکٹر اسپیشلسٹ کہلاتے ہیں اور ان کی فیس عام ڈاکٹروں سے
کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات میں ھومیوپیتھک کا بطور طریقہ
علاج کردار قابل ذکر ھے اور مریضوں کی شفایابی کا تناسب دیکھ کر تعریف کے
قابل بھی، لیکن بلاشبہ بہت ساری بہتری کی ضروت ھے اس کیلئے کوشش جاری ھے۔
مذکورہ کالم نگاراس بات کو محسوس ھی نہیں کر سکے کہ ھومیوپیتھک سے وابستہ
لوگ مختلف وجوہات کی بنیاد پرھومیوپیتھک سے شدید محبت رکھتے ھیں۔ ایک سینئر
جرنلسٹ کو آپ قلم کشائی سے پہلے کچھ تحقیق کر لینا چاھَئے،تعصب سے پرھیز
کرنا چاھئے اور اصلاحی تنقید کر کے ایک محتسب کا کردار ادا کرنا چاھئے ۔
انڈیا میں دوائیوں کی قیمتیں کم ھیں،پاکستان میں بہت مہنگی۔ پاکستان میں
اشیائے خوردونش کے حوالے سے میڈیا کے کچھ افراد نشاندھی کرتے رھتے ھیں۔
پنجاب میں پرائس کنٹرول کمیٹی کچھ عرصے سے متحرک نظر آ رھی ھے لیکن میڈیسن
کی کوالٹی ،معالجوں کی عوامی پہنچ سے باھر جاتی فیسیں، ھسپتالوں میں
لاپرواہی کے معاملات یہ سب وہ سلگتے مسائل ھیں جن کے بارَے میں سنجیدگی سے
آواز اٹھانے کی ضرورت ھے اور کسی بھی طریقہ علاج پر اصلاحی تنقید ھونی
چاھَئے لیکن غیر ضروری تنقید کی تو ھرگز کوئی گنجائش نہیں۔ |