دیہی روڈز پروگرام! حد درجہ احتیاط لازم ہے

بڑا شور شرابہ تھا پھولوں کے ہار تالیاں گلدستے تھے فیتے کاٹے جارہے تھے۔ پورے پنجا ب میں منتخب عوامی نمائندے ایم این ایز اور ایم پی ایزلوگوں کو اکٹھا کرکے اس بات کی تصدیق کروارہے تھے کہ وہ بھی 150 ارب روپے میں حصہ دار ہیں اور اپنی دھواں دار تقاریر میں اس بات کا اعادہ کررہے تھے کہ یہ پاکستان کی تاریخ میں روڈز(سٹرکیں) بچھانے کا سب سے بڑا منصوبہ ہے جس میں آئندہ تین سالوں میں ڈیڑھ سو ارب روپے کی خطیر رقم سے پورے پنجاب میں سڑکوں کا جال بچھایا جائے گا۔ اور اس سال دوہزار کلومیٹر لمبی سڑکات15 ارب روپے سے تیار کی جائیں گیں اور دیہی علاقوں میں یہ کام خصوصی طور پر شروع کیاجارہا ہے جس میں ہر ضلع کے دیہات میں سڑکیں بنانے بلکہ بچھانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔فوائد اور مقاصد کے زمرے میں بتایا جارہا ہے کہ اس سے دیہی علاقوں کی معیشت مضبوط و مستحکم ہوگی ۔ان علاقوں میں روزگار کے بہتر مواقع میسر آسکیں گے دیہی انقلاب برپاہوگا ۔ زرعی ترقی میں اضافہ سے معاشی ترقی بھی آسمان سے جا لگے گی۔ کسانوں کیلئے ان کے دیہات پیرس بن جائیں گے سڑکیں بننے سے کسانوں کو اچھا معاوضہ ملے گا(کیونکہ زرعی اجناس جو کہ دھکے لگنے اور سفر کی صعوبتیں برداشت کرنے سے نڈھال ہوجاتی تھیں اب فریش رہیں گی اور اچھا معاوضہ ملے گا)اسی طرح دیہات میں بسنے والے طلبا و طالبات کو سکول و کالجز میں جانے کی آرام دہ سہولیات میسرآسکیں گی جبکہ تیز رفتاری کے باعث مریضوں کو ’’جلد ہسپتال پہنچانے میں آسانی‘‘ میسر ہوگی۔دیہی روڈز پروگرام ستر فیصد آبادی کیلئے ترقی و خوشحالی کا سنگ میل ثابت ہوگا۔

وزیر اعلی پنجاب شبہاز شریف صاحب! اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کا منصوبہ نہایت ہی شاندار اور جاندار ہے اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ دیہی علاقوں میں بسنے والی 70 فیصد ان تمام ثمرات سے یقینا مستفید بھی ہوگی۔آپ کی نیت پر بھی شک نہیں کیا جاسکتا کہ ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ عوام کو ریلیف مل سکے لیکن چونکہ آپ بھی گوشت وپوشت کے انسان ہیں اوربتقاضائے بشر کوئی بھی انسان تمام اعمال و افعال تن تنہا نہیں کرسکتا۔اس کیلئے اسے دوسروں پر تکیہ کرنا پڑتا ہے لیکن اکثر و بیشترایسا ہوتا ہے کہ جن پہ تکیہ ہوتا ہے وہ پتے ہوا دے(نکال) دیتے ہیں اور پھر یہ ہوا آندھی کی صورت اختیار کرلیتی ہے جس سے وزیر اعلی کے بہت سے منصوبے ان کے اپنے درہم برہم کردیتے ہیں اور سہنا جناب وزیر اعلی کو پڑتا ہے۔یہ اسی طرح ہے کہ جیسے لڑے فوج نام سرکار کا ہوتا ہے بالکل اسی طرح سارا ملبہ وزیر اعلی پر گرتا ہے۔اس پروگرام کے حوالے سے وزیر اعلی نے فرمایا کہ ایک پائی کی کرپشن برداشت نہیں کرونگا اسی لئے یار غار آپ کی ناراضگی سے بچنے کیلئے کروڑوں روپے کی کرپشن کرتے ہیں۔میٹریل اور کام کے معیارکو چیک کرنے کیلئے بھی کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں۔وہ بھی چونکہ روایتی سرکاری و سیاسی لوگ ہوئے ہیں اس لئے بھی معاملہ جوں کا توں رہنے کا امکان ہے

مملکت خداداد میں کوئی بھی ایسا کام نہیں جس میں کمیشن مافیا کرپشن مافیاکو کرپشن پرراغب نہ کرتا ہو جب آپ کمیشن دیں گے تو لامحالہ کریشن بھی کریں گے کیونکہ آفسزمیں 10 سے 15 فیصدکمیشن دینے سے مراد کام کی ابتدا ہے ورنہ تو کام شروع ہی نہ ہوسکے گا کہ اس میں بہت سے کیڑے نکل آئیں گے بہت سے امر مانع رہ جائیں گے۔چلیں یہ کڑوا گھونٹ بھی بھرا جاسکتا ہے ۔ لیکن اب ہوتا کیا ہے کہ سڑکیں صرف وہ بنیں گی جنہیں ایم این ایز ، ایم پی ایز یا ان کے خاص کارندے اور گرگےrecommened کریں گے۔ جو ان کے ڈیرے زمینوں رہائش گاہوں کو جاتی ہونگی یا پھر ان سڑکوں کو ٹینڈرز میں شامل کردیا جاتا ہے جو کہ پہلے سے بنی ہوتی ہیں مزیدظلم یہ ہوتا ہے کہ صرف چند مخصوص افراد کو نوازنے اور خوش کرنے کی خاطر بنوادی جاتی ہیں۔ جبکہ جہاں پر درحقیقت ضرورت ہوتی ہے اور اس کے بننے سے حقیقتا کسان اور دیہاتی لوگوں کو سہولیات مل سکتی ہیں ان عوامی نمائندوں کی ’’نظر کرم‘‘ہی نہیں پڑتی۔ستم در ستم یہ ہوتا رہا ہے کہ ایک ہی سڑک کو دو سے تین بار بھی بنادیا جاتا ہے۔ اس کی مثال ضیاء الحق مرحوم کے دور کی کوڈ کرونگاجس میں محمد خان جونیجو وزیراعظم پاکستان تھے ان کے دور میں غیرملکی امداد سے کاشتکاروں کی قسمت بدلنے کیلئے اورانہیں ٹرانسپورٹیشن کی سہولیات باہم پہنچانے کیلئے ’’گاؤں سے منڈی تک‘‘ کا پروگرام بھی انہی اللے تللوں کی نذر ہوگیا تھا۔عوام کی بدنصیبی اور خرابی قسمت کہ وہ منصوبہ بھی نااہل لوگوں کی نااہلی کی بھینٹ چڑھ گیااور آج تک اس کے aftereffects کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔کوئی شبہ نہیں کہ اس تیز رفتاری کے دور میں ٹوٹے پھوٹے ناہموار اور غیر پختہ راستے تیز رفتاری میں رکاوٹ بنتے ہیں۔وقت کاضیاع، وہیکل کا نقصان بھی عذاب دکھائی دیتا ہے۔وزیر اعلی پنجاب کا یہ احسن اقدام قابل ستائش ہے لیکن کمند پھروہیں پر آکر ٹوٹتی ہے کہ اگر یہ اتنا بڑا منصوبہ ہے تواس میں روایتی عناصر اور عوامل کو دور رکھتے ہوئے کام کیا جائے قوم کا پیسہ قوم پر ہی لگایاجائے ،اسے ضائع ہونے سے بچایا جائے اور خاندانی ٹھیکیداروں کے دسترس سے دور رکھا جائے تو اسکے ثمرات اچھے ہونگے اور وزیر اعلی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا
 
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211556 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More