پرائی شادی میں عبداﷲ دیوانہ

پرانے وقتوں میں بلکہ کہیں نہ کہیں اب بھی گاؤں دیہاتوں میں پورے گاؤں کا ایک مشترکہ کردار جسے کبھی کبھار بھولا،کبھی ملنگ،کبھی مستو،کبھی دیوانہ،کبھی مستانہ ،کبھی لالہ اور کبھی ماما کہا جاتا ہے ،یہ کردار سب کا سانجھا ہوتا ہے گاؤں میں کوئی بھی مسئلہ ہو کوئی تقریب ہو چاہے خوشی کی چاہے غمی کی یہ کردار بن بلائے خود بخود ہر جگہ اپنی حاضری کو یقینی بنا تا ہے ایسے ہی کسی کردار سے متائثر ہو کر کسی نے اس کا ذرا مہذب نام عبدﷲ رکھا ہو کہ محاورہ مشہور ہو گیا کہ پرائی شادی میں عبداﷲ دیوانہ،ہو سکتا ہے اس محاورے کی حقیقت کچھ او ر ہو مگر اس کے مشترکہ کردار سے ہر ایک واقف ہو گا،مجھے یہ محاورہ حالیہ یمن بحران اور اپنے حکمرانو ں کی اچھل کود سے یا د آیا ہے،یمن کا بحران ہے کیا اور اس کو کس پس منظر میں بیان کیا جا رہا ہے،کیا یہ شیعہ سنی لڑائی ہے،بالکل بھی نہیں،کیا یہ سعودی عرب پہ قبضے کا کوئی منصوبہ ہے بالکل بھی نہیں بلکہ یہ چند باغی گروہ ہیں جو اقتدار پہ قبضے کے خواہشمند ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ صوبوں پہ بھی ان کا کنٹرول ہو مرکز میں بھی انہیں کردار دیا جائے،اسی طرح جیسے اپنے ہاں طالبان اپنی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں یہ بھی موجودہ نظام کے باغٰی ہیں ،مگر ان طالبان میں اور ان حوثیوں میں بنیادی فرق الیکشن کا ہے وہ نئے الیکشن کا انعقاد چاہتے ہیں اور ان کا بڑا مطالبہ بھی یہی ہے اور یہ کوئی اتنا زیادہ ناجائز بھی نہیں ہاں طریقہ کار سے اختلاف ممکن ہے اور ہونا بھی چاہیے،اصل بیڑہ غرق بیرونی عناصر سعودی عرب اور ایران کر رہے ہیں جو اپنی من مرضی کے افراد اور گروہوں کو پیسوں سے لیکر کر بھرپور اسلحہ تک فراہم کر رہے ہیں،جو مسئلے کو حل کے نزدیک لے جانے کی بجائے اور ذیادہ الجھاؤ کی طرف لے جا رہا ہے اور اگر خدا لگتی بات کہی جائے تو امت مسلمہ کے انتشار میں پچاس پرسنٹ سے زیادہ انہیں دو ملکوں کا کنٹری بیوشن ہے،انہیں ہم سے نہ کسی اور سے قطعاً کوئی بھی غرض نہیں انہیں صرف اور صرف اپنے مفادات عزیز ہیں ،یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ دنیا کے کئی ملکوں جن میں پاکستان نمبر ون ہے میں پاکستان سے زیادہ ان کے وفادار موجود ہیں جنہیں یہ جیسے چاہیں جب چاہیں مرضی کی ڈوری ڈال کر جدھر چاہیں جیسے چاہیں استعمال کر سکتے ہیں،آپ پاکستان کی بدقسمتی دیکھیں کہ اس کی لگ بھگ آدھی آبادی ایسی ضرور ہے جو پیدا پاکستان میں ہوئی،شناخت پاکستان نے دی،کھاتی پاکستان کا ہے رہتی پاکستان میں ہے مگر سعودی عرب اور ایران کا نام آتے ہی مرنے مارنے پر تیا ر ہوجاتے ہیں،حالانکہ اگر اندر جا کر ان دونوں ملکوں کے لوگوں سے پاکستانیوں کے بارے میں رائے لی جائے تو جو الفاظ سننے کو ملتے ہیں وہ یہاں تحریر کرنے کے قابل نہیں،میرے ایک دوست جو لوگوں کو زیارات پر لے کر جاتے ہیں ایک دفعہ ان سے پوچھا آپ کو شام اور عراق میں تو مسائل آتے ہوں گے مگر ایران میں تو صورتحال بہتر ہو گی جو کچھ انہوں نے کہا وہ حیرتوں کے جہان لیے ہوئے تھا ،اسی طرح دوسری طرف سعودیہ کی بات کی جائے تو ان کے نزدیک نہ کوئی مسلمان ان سے بہتر پیدا ہو ا آج تک نہ کوئی انسان، پاکستانی کس کھیت کی مولی ہیں وہ جانتے ہی نہیں،وہ اپنی باتوں میں اکثر کہتے ہیں :کل و پاکستانی،،،،،،،،،،،،،،:فقرہ ان پاکستانیوں سے مکمل کر وا لیجیے گا جو سعودیہ میں روزی روٹی کے چکر میں خوار ہو رہے ہیں،ہمارے لوگ وہاں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں غلامی کی زندگی بسر کرتے ہیں،پچاس سال وہاں رہیں تب بھی وہاں نہ شادی کر سکتے ہیں نہ اپنا کاروبار کر سکتے ہیں نہ گھر ہی بنا یا خرید سکتے ہیں،ماں یا باپ پاکستان میں فوت ہو جائے تب بھی کفیل کے ہی پاؤں پکڑنے پڑتے ہیں کہ جناب پاکستان جانے کا اذن جاری فرما دیں،ان سے تو یورپ والے بدرجہا بہتر ہیں کہ وہاں پہنچتے ہی آپ ان کی ذمہ داری،شہریت بھی ملتی ہے اور شادی بھی،گھر بنائیں یا کاروبار کوئی روک ٹوک نہیں،نہ کوئی پریشانی نہ کوئی ٹینشن اور ادھر بس رہنے ہی دیں،اوراب ہمیں کہا جا رہاہے کہ خدانخواستہ مکہ مدینہ پر حملہ ہونے جا رہا ہے ایسا اول تو ہو گا نہیں کہ مکہ مدینہ یمن والوں کے لیے بھی اتنا ہی معتبر ہے جتنا ہمارے لیے کیوں کہ وہ بھی اتنے ہی مسلمان ہیں جتنے ہم،اور یہ مقدس مقامات ان کے لیے بھی اتنے ہی باعث تکریم ہیں جتنے ہمارے لیے ،اور دوسری بات یہ کہ جو بھی شخص یا گروہ تاریخ سے تھوڑی بہت سدھ بدھ رکھتا ہے اسے ابرہہ کا لشکراور اس کا انجام ضرور یاد ہو گا کیوں کہ ان مقامات کا محافظ وہ ہے جسے کسی کی بھی مدد یا کمک کی ضرورت نہیں ،تاہم اس کے باوجود بھی اگر کوئی ایسا ناپاک ارادہ ظاہر کرے یا کوشش کرے تو اس کے لیے تن من دھن لگا دینے میں کوئی حرج نہیں اور ہر مسلمان اس کے لیے تیار ہے کوئی بدبخت ہی ہو گا جو پیچھے ہٹے گا یا انکار کرے گا مگر ان مقامات کے نام پر کم از کم بلیک میلنگ تو نہ ہو ،اور ہمیں اپنے مسائل کا ادراک کرنا چاہیے نہ کہ دنیا بھر کا درد اپنے جگر میں سمونا چاہیے،ہمارے حالات کیا ہیں سردیوں میں بھی ایک گھنٹہ لائٹ آئی ایک گھنٹہ رہی ابھی گرمی شروع نہیں ہوئی کہ بجلی خواب وخیال ہونا شروع ہو گئی،سی این جی پچھلے ایک سال سے بندہے پٹرولیم مصنوعات کو پھر پر لگنے والے ہیں ،آدھی سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گذار رہی ہے،ان کے مسائل کے حل کا کچھ سوچئے غریب آدمی کے پاس نہ علاج معالجے کے لیے کچھ ہے نہ بچوں کی تعلیم ہی اس کی استطاعت میں ہے،کہیں نہ اپنے دوست عرب حکمرانوں سے کہ ہمارے لوگوں کو شہریت دیں انہیں اپنی فوج میں باقاعدہ حلف لے کر بھرتی کریں پھر آپ کو درخواستیں کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی ،ہمارے عوام کے مسائل کے حل کے لیے کوئی پیکج دیں نہ کہ رائے ونڈ اور اسلام آباد والوں کے لیے، ہر سال لاکھوں پاکستانی آپ کے مہمان بنتے ہیں حج اور عمرے کے لیے کیا رعایتیں فراہم کرتے ہیں آپ پاکستانیوں کو،بھلے آپ ہمارے اچھے دوست ہیں مگر ہمیں بھی آپ کی طرح سب سے پہلے اپنا ملک اپنا مفاد اور اپنے لوگ عزیز ہونے ہیں۔آپ جانیں ،یمن جانے اور ایران جانے ہمیں اور بڑے مسائل کا سامنا ہے،پاکستان کو صرف اور صرف ثالثی کے کردار تک محدود رہنا چاہیے ،ایران ہو یا سعودیہ یا کوئی اور ملک ہمیں پرائی آگ میں کودنے سے ہر ممکن گریز کرنا چاہیے پہلے افغانستان کا گند ہی ہمارے لیے کافی ہے،امید ہے کہ اب کی بار افغانستان جنگ کی بجائے فیصلہ عوامی امنگوں کے مطابق ہے کیوں کہ بظاہر ہی سہی مگر عوامی حکومت ہے جو امید ہے کہ پرائی شادی میں عبداﷲ دیوانہ کا کردار ادا نہیں کرے گی،،،،،اﷲ ہم سب پہ رحم کرے