عدلیہ سے کھلی جنگ میں حکومت کی شکست

عدلیہ سے کھل جنگ کا طبل بجاکر،سہمی سہمی میری سرکار نظر آتی تھی۔حکومت کے گرجانے کی بوچھاڑ نظر آتی تھی۔ ججوں سے پنگا لے کر حکومت نے کچھ اچھا نہیں کیا تھا۔پاکستان کے اکثر و بیشتر ججزو قانونی ماہرین،سیاسی لوگ، معاشرے کاہر ذی شعور فرداور عوام الناس ۔ غرض یہ کہ معاشرے کا ہر طبقہ حکومت کی بلا وجہ کی جارحانہ حکمت عملی سے بے حد پریشان دکھائی دیتا ہے۔ تمام کے تمام حکومتی کارندے، وزراء اور وزیر اعظم نے عدلیہ کو جس طریقے سے دھمکانے کی کوشش کی وہ کوئی قابلِ تعریف امر نہ تھا۔وہ کہہ رہے تھے کہ ’’جج انتظامی حکم کے ذریعے بحال ہوے تھے ابھی ان کی بحالی کی پارلیمنٹ سے توثیق ہونی باقی ہے‘‘․․․؟ قومی اسمبلی کے فلور پر دیئے گئے اس بیان میں وہ ججوں کو خوتین کی طرح طعنے دیتے ہوے محسوس ہوے۔اور کہہ رہے تھے کہ’’ ہم نے ججوں کو ناصرف بحال کرایا بلکہ ان کی تنخواہوں میں بھی اضافے کا حکم دیا‘‘ تو محترم نہ بڑھاتے ججوں کی تنخواہیں۔ قوم کے دیگر افراد کو جو آپنے مہنگائی کے عذاب میں تنخواہیں نہ بڑھا کرمبتلا کیا ہوا ہے۔ تو اس کا حساب کون دے گا؟ وزیر اعظم کا یہ بھی فرمانا ہے کہ ’’اسمبلی ججوں کے تقرر کا اختیار اگر ججوں کو دیدے تو اعتراض نہیں‘‘ ․․․؟تو کیا وزیر اعظم بتانا پسند کریں گے کہ جب آئین نے چیف جسٹس کو ججوں کے تقرر کا اختیار دیا ہوا ہے۔تو پھر آپ کیوں مسلسل اپنے بیانات کے ذریعے آئین کا مذاق اڑا تے رہے ہیں؟ آئین کو آپ نے اور آپ کے راہبر نے گھر کی لونڈی سمجھا ہوا ہے۔آپ وزیر اعظم ہیں آپ کو علم ہونا چاہئے کہ آئین شکن کی آئین کیا سزاہے تجویز کرتاہے؟ عدلیہ سے کھلی جنگ میں حکومت کی شکست تو نوشتہِ دیوار ہے۔

ہر طرف سے حکومتی بیانات کے جواب میں یہ ہی کہا جا رہا ہے آئین وقانون میں کہیں یہ درج نہیں ہے کہ ایگزیکٹیو آرڈر کی توسیق ضروری ہے۔ ایسا لگتاہے کہ وزیر اعظم اپنے آپ سے اور جیالوں سے اس بات پر شرمسار ہیں کہ انہوں نے ججز کو بحال کر کے سخت غلطی کی ہے۔ حکومت جان بوجھ کر عدلیہ سے تصادم کی طرف بڑھتی ہی چلی گئی ہے۔ایک غلطی کے بعد دوسری تیسری اور پھرچوتھی بھی، غرض یہ کہ حکومت کوعدلیہ کے حوالے سے غلطیاں کرنے کا جیسے چسکا سا پڑ گیا تھا۔ ان غلطیوں کے بعد وزیر اعظم بڑی معصومیت سے کہتے ہوے سنے گئے کہ ہم نے ایسی غلطی نہیں کی جس کا ازالہ نہ ہوسکے۔صدرِ مملکت آپ فرمائیں عدلیہ سے مڈ بھیڑ کر کے آپ کیسے اپنی غلطیوں کا ازالہ کر پائیں گے؟ محترم وزیر اعظم ․․․ دعویدار تو آپ جمہوریت کے ہیں مگر عدلیہ سے خائف ہیں جس کی وجہ سے آپ کا گروہ مسلسل غیر جمہوری اعمال میں مصروف ہے۔ وطن عزیز میں انار کی پیدا کرنے کی حکومتی کارندوں کی شدید کوششیں نظر آرہی ہیں۔ آپ خود ہی کسی بات کی تشریح کرتے ہیں اور پھر آپ ہی اس کے خلاف بیان بازی کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں۔جس سے محسوس ہوتا رہا ہے کہ آپکا ذہن عدلیہ کے معاملات میں آپ کا ساتھ نہیں دے پا رہا تھا۔جس کی وجہ سے پہلے آپ سے غلطی سرزد ہوجاتی ہے پھر اس کا ازالہ کی بات کر کے تشریح کی استدعا بھی کرتے ہیں اسکو آپکی سادگی، بھولا پن یا عیاری سمجھا جائے ․․․؟کہ ایک دن سخت الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں تو دوسرے دن آپ فرماتے ہیں کہ ہم عدلیہ کا احترام کرتے ہیں۔ آپ کے عمل سے لگتا نہیں ہے کہ آپ عدلیہ کا احترام کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں․․․! جب سول سو سائٹی کی جانب سے حکومتی عمل پر رد عمل آتا ہے تو تمام حکومتی ارکان کی طرف سے بیک زبان کہا جاتا ہے کہ لانگ مارچوں سے حکومت جانے والی نہیں۔تو جناب آپ کی حکومت کو گھر کون بھیج رہا ہے؟گھر جانے کے کام تو آپ لوگ خود ہی انجام دیتے رہے ہیں۔ تاہم حکومت کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ عوامی دباؤ سب سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ جوطاقتور ترین ڈکٹیٹروں کو بھی خس وخاشاک کی طرح اڑا کر رکھتے رہے ہیں۔
اگر موجودہ حکومت کے بس میں ہوتا تو ڈوگر کورٹ ہی حکومت کی لونڈی رہتی۔مگر یہ لانگ مارچ اور عوامی پریشر ہی تھا جس کے زیر اثر آپ لوگوں نے ججوں کو بحال کیااور ڈگر کو گھر بھیجا۔معاف فرمائے یہ عمل آپ کی حکومت نے کوئی خوشی کے ساتھ انجام نہ دیا تھا۔بلکہ جب سر پر پڑی تو اگزیکٹیو آرڈر بھی آگیا۔ ورنہ تو ایک مدت تک رائے عامہ یہ مطالبہ کرتی رہی مگر مجال ہے حکومت کے کان پر جوں بھی رینگی ہو․․․سوئس کے مقدمات والی سرکار نے تو با بانگِ دہل کہہ دیا تھاکہ چیف جسٹس تو میری لاش پر ہی بحال ہونگے۔مگر پھر بحا لتِ مجبوری انہیں بحال کرتے ہی بن پڑی۔

بڑی عجیب بات ہے کہ صدر نے چیف جسٹس کی جانب سے ججوں کی تقرری کے لئے بھیجے گئے ناموں کو مستردکر کے حالات کو بگا ڑ نے میں اہم کردار ادا کیا۔جو اداروں کے تصادم کا سبب بنا۔اسطرح صدر اور وزیر اعظم نے عدلیہ سے برائے راست ٹکرانے کافیصلہ حالات کے بگاڑ کا خودہی آغاز کردیا تھا۔متاثرہ ججوں نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ صدر کا حکم غیر آئینی ہے ہم اس کو ماننے کے پابند نہیں ہیں۔جو فیصلہ ہمارے چیف جسٹس کریں گے وہ ہی ہمیں منظور ہوگااورجب عدالت نے بھی اس معا ملے پر ایکشن لیا تو اس پر وزیر اعظم کا رویہ انتہائی نا مناسب سامنے آیا سول سوسائٹی نے جب اس پرمعاملے میں پریشر بڑھا یاتو حکمرانوں کے ہوش ٹھکا نے آگئے۔ اور حکومت نے محسوس کرلیا کہ ججوں کی تعیناتی پر حکومت نے خوامخواہ پڑی لکڑی اٹھالی ہے۔ اس ضمن میں چیف جسٹس کہہ چکے تھے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں سے متعلق سفارشات پر کوئی بات نہیں کیجا سکتی ہے۔ ان پر عمل کرنا چیف ایگزیکٹیو پر لازم ہے۔ چیف جسٹس کے مشورے کے باوجود صدر نے ان کے تجویز کردہ ججوں کے بجائے جیالے ججوں کو لگانے کی کوشش تو بہت کی جس میں وزیر اعظم نے بھی صدر کا خوب خوب ساتھ دیا مگر عوامی دباؤ نے تکبر کے غبارے سے ہوا نکال کر ہی دم لیا۔ اطلاعات کے مطابق بابر اعوان اور لطیف کھوسہ کے مشورے پر عمل کرتے ہوے صدرِ مملکت نے چیف جسٹس کی سفارشات کے بر عکس تقرری سے اپنے اور اپنی حکومت کے لئے مشکلات کا پہاڑ کھڑا کر لیا۔اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم کے پے درپے بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ جس سے ملک میں انتشار کی فضاء پیدا ہوئی۔ ایک جانب پیپلز پارٹی کے جیالے چیف جسٹس اور قائد حزبِ اختلاف نواز شریف کیخلاف سخت قسم کے نعرے لگا رہے تھے تو دوسری جانب ان کے پتلے ملک کے اکثر حصوں میں جلائے جا رہے تھے۔ حکومتی اتحادیوں کے علاوہ ملک کی تمام سیاسی قوتیں عدلیہ کے حق میں اور حکمرانوں کے خلاف صف آرا ہونا شروع ہوگئیں تو ایک طرف حکومت سبکی محسوس کررہی تھی تو دوسری جانب حکومتی ایوانوں میں گویا تہلکہ مچ گیا۔وزیر اعظم اور جیالوں نے اپنی اپنی بھڑاس تو نکال لی مگر اب حالات قابو سے باہر ہوتے نظر آرہے تھے۔حکومت نے ادراک کر لیا کہ عوام، وکلاء سول سوسائٹی کا اور سیاست دانوں کا دباؤحکومت سے روکا نہ جا سکے گا۔جو اس کے لئے ناقابل برداشت ہوگا۔جس سے وزیر اعظم کو خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ ان کی نااہلی کی درخواست کوئی اسمبلی کے فلور پرآکر پیش نہ کر دے۔ قانونی اور سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ وزیر اعظم قصرِ صدارت کی ایسی سازش کا حصہ ہیں۔جس کے تحت جمہوریت کی بساظ لپیٹے جانے کا شدید خطرہ جنم لے سکتا ہے۔

خطرات کے پیش نظر وزیر اعظم بھاگم بھاگ سپریم کورٹ کے ججوں کے عشایئے میں بن بلائے مہمان کی حیثیت سے پہنچ گئے۔لگتا یوں ہے کہ اعتزاز احسن کی پلاننگ کے تحت وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اپنے کئے کی پشیمانی کے اظہار کے لئے گئے تھے۔ جب لوگوں نے ان سے ججوں کی تعیناتی کے نوٹیفکیشن کا سوال کیا تو انہوں نے جواباََ کہاکہ کل قوم خوشخبری سنے گی۔لوگ خوش خبری سے سمجھے کہ شائد 17 ویں ترمیم کا خاتمہ،میثاقِ جمہوریت پر عمل ،سوئس کیسز کی ری اوپننگ اورججوں کی بحالی کا عندیہ وزیر اعظم ایک ساتھ خوشخبری کی شکل میں قوم کو دیں گے جو وہ نہ دے سکے۔دوسری جانب ان کے ماضی کو دیکھتے ہوے سیاسی ،سماجی وقانونی دانشوروں نے سمجھ لیا تھا کہ ان تلوں میں تیل نہیں ہے۔لہٰذا آزمائے ہووں کو آزمانا حماقت کے سوائے کچھ نہیں ہے۔

مگر اگلے د ن کے اعلان نے قوم کو واقعی مایوس کیا۔تین کے بجائے نو بجے کے قریب جو اعلان چیف جسٹس کی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد یوسف رضاگیلانی اور حکمت کی طرف سے کیا گیاوہ صرف ججوں کی بحالی کا تھا جو حکومت کو بہر طور کرنا ہی تھا۔ اس میں قوم کو خوشخبری کی تو کوئی شکل نظر نہ آئی ۔ جس سے حکومتی رویوں کا قوم نے بخوبی اندازہ لگا لیا۔ یہ بات ضرورہوئی کہ عدلیہ کے خلاف صدر اور وزیر اعظم کے تکبر کو چیف جسٹس نے توڑ کے رکھ دیا۔مگر اس کے باوجود حکومتی وطیرے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔اس ضمن کئی لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اپنے منصفِ اعلیٰ کے عہدے کی حیثیت کی بنا پر چیف جسٹس کو وزیر اعظم کے پاس نہ جانا چاہئے تھا۔ جس پر بعض لوگ سوالات اٹھائیں گے۔جو دبے لفظوں اٹھائے بھی جا رہے ہیں۔

گو کہ چیف جسٹس نے اُس تاثر کو ذائل کر دیا جو وزیر اعظم سے ان کی ملاقات کے بعدعمومی طور پر بعض لوگوں نے قائم کر لیا تھا۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کی سربراہی میں 19 فروری 2010 کو سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے16 دسمبر کے این آر او کے فیصلے پرعمل درآمد کی وضاحت کیلئے چیرمین نیب کو فوری طور پر عدالت میں طلب کیااور استفسار کیا کہ سوئس مقدمات کھولنے کے لئے جنوا کی حکومت کو خط کیوں نہیں لکھا گیا؟چیف جسٹس نے یہ سوال بھی کیا کہ جب مقدمات کھولے گئے تو کچھ لوگوں کو کیو ں چھوڑا گیا؟ پراسیکیوٹر اب تک کیوں فارغ نہ کئے گئے؟چیف جسٹس نے چیر مین نیب نوید احسن کوحکم دیا کہ سوئس مقد مات میں لیت ولال نہ کیا جائے۔

حکومت اب مکمل شکست خوردگی کی کیفیت سے دو چارہے۔حکومتی تکبر خاک کی زینت تو بن چکا مگر اب بھی کہیں نہ کہیں چنگاری تو دھیکا چاہتی ہے۔ کیونکہ خبریں آرہی ہیں وزارت قانون سوئس مقدمات کے کھولے جانے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ فاروق ایچ نائیک نے پیپلز فورم کے وکلاء کی فوج کوسر کاری وکلاء کے طور پر بھرتی کر کے حکومت کے خلاف مقدمات پر بند باندھنے کا عمل خوبی سے انجام دیا ۔جو عدالتی امور میں انصاف کے تقاضوں کے بر عکس تھا ۔اب بھی حکومت نے سبق نہ سیکھا تو بڑا نقصان ہونے کا خطرہ ہر وقت موجود ہے۔
Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 213149 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.