بجلی کے شارٹ فال میں اضافہ کے
باعث ملک میں بدترین لوڈشیڈنگ کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوچکا ہے ۔ شہروں
میں9 سے 16گھنٹے اور دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں میں 18 گھنٹے تک کی
لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے ، بار بار ٹرپنگ اس کے علاوہ ہے جس کے باعث شدید
نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ مرمت کے نام پربھی 6سے 8 گھٹنے تک بجلی کی بندش کا
سلسلہ پھر شروع کر دیا گیاہے۔غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ سے کاروباری اور گھریلو
سرگرمیاں شدید متاثر ہورہی ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق پی ایس او نے
حکومت کی جانب سے عدم ادائیگی کے باعث فرنس آئل کی سپلائی مزید کم کردی ہے۔
ان حالات میں جب پاکستانیوں پر بجلی کی بندش ستم ڈھا رہی ہے تو انکی تکلیف
اور مشکلات کا باآسانی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ گرمیوں کی ابھی ابتداء ہوئی
ہے تو حالات اس حد تک دگرگوں ہوگئے۔ مئی جون اور پھر جولائی کی گرمی میں
لوگوں کا جو حال ممکنہ طور پر ہو سکتا ہے‘ اس پر عوامی ردعمل کا حکومت کو
ابھی سے تدارک کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
مسلم لیگ (ن) نے انتخابی مہم میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کو اپنا مرکزی نکتہ
بنایا۔ وزیراعظم نوازشریف اپنے جلسوں میں عوام سے ہاتھ اٹھوا کر پوچھتے کہ
کتنے گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے‘ جواب میں لوگ 18, 18 گھنٹے پکارنے لگتے۔
آج بھی 18 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ میاں نوازشریف پھر پوچھتے کہ کیا
آپ لوگ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں‘ جواب میں لوگ ہاں ہاں کی گردان شروع
کردیتے اور میاں صاحب انہیں لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات کا یقین دلاتے جس پر
جلسے کے شرکاء کے چہرے خوشی سے تمتمانے لگتے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز
شریف چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کا جلسوں میں اعلان کرتے۔ باقی قائدین
بھی عوام کی دکھتی رگ ’’لوڈشیڈنگ‘‘ ہی کو چھیڑتے۔ میاں نوازشریف عوام کو یہ
بھی یقین دلاتے کہ انکے پاس اہل اور قابل لوگوں کی ٹیم موجود ہے‘ تمام
مسائل اقتدار میں آتے ہی حل کرنا شروع کر دینگے اور قوم جلد ترقی و خوشحالی
کی راہ پر گامزن ہو جائیگی۔ مصائب و مشکلات میں گھرے عوام نے مسلم لیگ (ن)
کے قائدین کے دعوؤں‘ وعدوں اور اعلانات پر اعتبار کیا۔ اس پارٹی سے اپنے
مسائل کے حل کی امیدیں وابستہ کیں اور مئی 2013ء کے انتخابات میں اس کا
دامن ووٹوں سے بھر دیا۔ مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آئی‘ یہ اپنے اقتدار کا
ایک تہائی سے زیادہ عرصہ گزار چکی ہے بجلی کی لوڈشیڈنگ اپنی جگہ موجود ہے‘
جس میں مزید اضافے کا خدشہ بھی منڈلا رہا ہے۔21 ماہ کے اقتدار میں بجلی کی
قلت پر قابو پانے کے کئی معاہدے قوم کو دکھائے گئے۔ کئی پراجیکٹس کا آغاز
ہوا‘ مگر اب تک کوئی ایک بھی سرے سے نہ چڑھ سکا۔ نندی پور پراجیکٹ آدھا ہی
مکمل ہوا تھا کہ اس کا زور و شور اور شان و شوکت سے افتتاح کردیا گیا۔ کہا
گیا کہ اس سے 95 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی‘ باقی 95 میگاواٹ 2014ء کے آخر میں
پیدا ہونی تھی۔ اس منصوبے کا نالائق انجینئرز نے بیڑا غرق کردیا۔ اب یہ بند
پڑا ہے اور حکومت نے ملائیشیاء کو ٹھیکے پر دے کر اس سے اپنی جان چھڑالی
جبکہ پاکستان کو اگلے دس سال تک ہر ماہ دس کروڑ روپے کی ادائیگی کرنا پڑیگی۔
اب وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کہتے ہیں تین سال میں لوڈشیڈنگ کا
خاتمہ ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کہتے ہیں کہ 2018ء الیکشن کا سال ہے‘
اس سے قبل لوڈشیڈنگ ختم ہو جائیگی۔ چھ ماہ اب انہوں نے پانچ سال پر محیط کر
دیئے۔ وزیراعظم محمد نوازشریف کے پولیٹیکل سیکرٹری ڈاکٹر آصف کرمانی نے
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 2018ء سے پہلے بجلی کا بحران بھی ختم ہو
جائیگا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کیلئے پہلے ہی سیاست کوئی کم نہیں ہو
رہی تھی کہ وزیراعظم کے مشیر کرمانی بھی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے
نکل کھڑے ہوئے۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف کی زیرصدارت گزشتہ دنوں
اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس کے دوران پنجاب میں توانائی کے مختلف
منصوبوں خصوصاً ساہیوال میں کول پاور پلانٹس کے پراجیکٹس پر پیش رفت کا
جائزہ لیاگیا۔ شہبازشریف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ساہیوال میں
چین کے تعاون سے کول پاور پلانٹس کے منصوبے پر تیزرفتاری سے کام جاری ہے
اور تیز رفتاری سے اس منصوبے پر کام کرتے ہوئے 2017ء میں مکمل کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے اپنے وسائل سے پاکستان کا پہلا اور سب سے
بڑا 100 میگاواٹ کا سولر منصوبہ مکمل کر لیا ہے اور اس منصوبے کا جلد
افتتاح ہوگا۔
منصوبوں کے افتتاح کی خبر قوم کیلئے کبھی بڑی خوش کن ہوا کرتی تھی۔ اب اس
میں عوام کی دلچسپی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ اب منصوبوں کے
افتتاح سے اگلی بات کی جائے۔ ان کو اپنے کاروبار اور گھروں کیلئے بجلی
ضرورت کے مطابق کب دستیاب ہو گی۔ جہاں بجلی کا شارٹ فال چھ ہزار میگاواٹ ہو‘
وہاں ایک سو میگاواٹ سے کتنے کارخانے‘ ٹیوب ویل اور دیگر کاروبار چلنے میں
مدد ملے گی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے یہ خوشخبری بھی سنائی کہ وفاقی اور پنجاب
حکومت نے مل کر صوبے میں گیس سے 3600میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبے
لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کا ہر قدم توانائی بحران کے خاتمے کیلئے اٹھ
رہا ہے اور2017ء کے اختتام تک توانائی کے متعدد منصوبے بجلی پیدا کر رہے
ہونگے۔ گیس کی شدید قلت اپنی جگہ ہے‘ پنجاب اور مرکزی حکومت اس سے 3600
میگاواٹ بجلی پیدا کرنے حسین سپنے دکھا کر عوام کو خوش کررہے ہیں۔ سرکاری
اداروں کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی
صلاحیت 19855 میگاواٹ ہے۔ اس سے ہمیں آج کی ضرورت کے مطابق ساڑھے 13 ہزار
میگاواٹ بجلی بھی میسر نہیں۔ گزشتہ دنوں ہی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ایس
او نے عدم ادائیگی کے باعث فرنس آئل کی سپلائی مزید کم کر دی ہے۔ اس سے
موجودہ شارٹ فال میں اضافے کی سمجھ آجاتی ہے کہ عوام چیخیں گے‘ چلائیں گے‘
جلاؤ گھیراؤ کرینگے تو مجبوراً حکومت ادائیگیاں کر دیگی۔ آئی پی پیز بھی
عدم ادائیگیوں کے باعث اپنی پیداوار کم کر دیتی ہیں۔
بلاشبہ، انرجی سیکٹر کو جن مسائل کا سامنا ہے وہ وسیع اور گہرے ہیں، اس کے
باوجود حکومت نے نئی نسل کے لیے اس شعبے میں سرمایہ کاری کی کوششیں کی ہیں،
جس کا اسے کریڈٹ بالکل نہ دینا غیر منصفانہ ہوگا۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے
کہ انتخابات جیتنے اورحکومت بنانے کے فوری بعد جو دعوے کیے گئے اور ان سے
جتنی توقع تھی، حکومت نے اس سے کہیں کم اقدامات اٹھائے ہیں۔ حکومت کو چاہیے
کہ وہ گرمی کی شدت میں اضافے سے پہلے بجلی کی کمی کو پوراکرنے کی طرف توجہ
دے تا کہ عوام سکھ کا سانس لے سکیں جبکہ بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لئے
مذید نئے ڈیمز کی تعمیر کی اشد ضرورت ہے ۔ |