ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے ۔اقبال نے پتہ نہیں کس موقع پریہ شعرکہا تھا اور پتہ نہیں ان کے ذہن میں اس وقت پاکستان کا کیا اور کیسا تصور تھا۔ہم نے یہ شعر زمانہ طالب علمی سے لے کر اب تک کئی بار سنا اور پڑھا بھی ،کئی بار اس کی تشریح بھی کی ۔لیکن وہ تشریح اکثر وبیشتر گائیڈ بک سے لی گئی ہوتی تھی یوں کہہ لیں کہ کسی کے الفاظ کو ہم امتحان میں لکھ کر پاس ہوجایا کرتے تھے لیکن اک بات تھی کہ یہ شعر اور اس جیسے کئی دوسرے اشعار اور دیگر باتیں جو کہ ہم بچپن سے ہی مکہ ومدینہ اورحجاز مقدس کے متعلق سنتے آئے ہیں ان سے یہ بات دل ودماغ میں بیٹھی ہوئی ہے کہ دنیا میں اگر کوئی چیز دیکھنے کے قابل ہے تو وہ موجودہ سعودی عرب کی زمین ہے میری مراد حجازمقدس ہے اور ویسے بھی اکثر الفاظ سنا کرتے تھے کہ سعودی عرب ہمارادوسرا گھر ہے اور سعودی عرب نے ہماری ہرمشکل وقت میں مدد کی ہے اگر کبھی سعودی عرب پر کوئی ایسا وقت آیا تو ہم اپنا سب کچھ حرمین شریفین پر قربان کرنے کو تیار ہوں گے۔ یہ تو تھی وہ باتیں جو ہم اکثر وبیشتر سنا اور سوچا بھی کرتے تھے اور اس کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے تھے کہ حرمین شریفین کی حفاظت کرنا ہمارا نصب العین ہے ۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

حالیہ یمن کے معاملے میں جب حوثی قبائل جن میں اکثریت زیدی شیعہ کی تھی نے جب یمن میں قتل وغارت گری کا بازار شروع کیا اور اس کو باہر سے بھی مدد ملی اورانہوں نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ ہم حرمین شریفین پر قبضہ کریں گے تو سعودی عرب نے ان کے خلاف اس وقت کے منتخب یمنی صدر کی درخواست پر کاروائی کا آغاز کیا اور بعد میں اس کاروائی میں دیگر اسلامی ریاستیں بھی شامل ہوگئی اور سعودی عرب نے پاکستان کو بھی دعوت دی کے آؤ ہمارا ساتھ دو۔ بے شک پاکستانی افواج اس وقت دنیا کی بہترین افواج میں شامل ہوتی ہیں اور ان کی یمن کے معاملے میں شمولیت امن کے دشمنوں کے خلاف اسلامی ملکوں کی تقویت کا باعث بن سکتی ہے ۔ کوئی اس یمن کے معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ ،کوئی اسے یمن کا اندرونی معاملہ اور کوئی نام نہاد دانشور اسے مشرق وسطیٰ کا مسئلہ قرار دے کر اس سے جان چھڑوا رہا ہے ۔ سچی بات تو یہ ہے جب سعودی عرب نے پاکستان کو مدد کے لئے پکارا تو میرے سمیت کئی پاکستانی مسلمانوں کا سر فخر سے بلند ہوگیا تھا کہ اس وقت ہم حرمین شریفین کی حفاظت کرنے والے ملکوں میں سب سے آگے کھڑے ہوں گے ۔ لیکن دل کے ارمان اس وقت دل میں ہی رہ گئے جب بعض میڈیا کے نام نہاد محب وطن نمائندوں اور سیکولر ذہنیت کے لوگوں نے طرح طرح کی باتیں شروع کردیں مجھے یاد ہے جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو یہی طبقہ فکر امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے کو بیتاب تھا اورامریکہ سے پاکستانی عوام کو ڈرا رہا تھا اور ان لوگوں نے پاکستان کو امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بنا کر چھوڑا ۔ آج جب بات آئی ہے اسلامی ملک کے حوالے سے تو ان کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں اور لایعنی باتوں میں پاکستانی مسلمانوں کو الجھا دیا ہے۔

پاکستانی مسلمان دن رات اس جگہ جانے کی دعائیں کرتے ،روتے اور منتیں مانتے ہے کہ ’’یا اللہ صرف زندگی میں ایک بار مکہ ومدینہ دکھا دے‘‘اور بعض لوگوں کو دیکھا ہے کہ ان کے سامنے حجاز مقدس کا نام آنے کی دیر ہے ان کی آنکھیں چھلکنا شروع کردیتی ہیں تو کیا ایسے لوگوں کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ حجاز مقدس کی حفاظت بھی کریں ؟لیکن صد افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہاہے کہ ان میں سے بعض لوگوں نے زبان کی حد تک بھی سعودی عرب کی حمایت کا اعلان نہیں کیا ۔بات اس وقت اگر یمن کی حد تک رہتی تو ہم سکون سے بیٹھ کر اسلامی ملکوں میں ہونے والی دہشت گردانہ کاروائیوں کودورسے دیکھ سکتے تھے لیکن اس وقت عالم کفر کی ہٹ لسٹ پر سعودی عرب اور پاکستان خصوصاََاور دیگر اسلامی ممالک عموماََ ہیں وہ ان میں بدامنی ونفاق پھیلا کر ان پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ۔ سعودی عرب کے گرد ممالک کے حالات بھی اسی کی ایک کڑی ہے وہ حرمین شریفین پر قبضہ کرنے کے لئے سعودی عرب کے ہمسایہ ممالک میں انتشار وانارکی پھیلا کر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور کچھ ناہنجار قسم کے اپنے ہی لوگ، افسوس ! ان کے ہاتھ اس معاملے میں مضبوط کررہے ہیں ۔ اس وقت پاکستان کا کردار ان سب معاملات میں بہت ہی اہم ہے عرب ممالک اس وقت ایک اتحاد کی سی کیفیت میں ہیں پاکستان کو آگے بڑھ کر اس اتحاد کی نمائندگی کرنی چاہیے ناکہ غیر جانبدار رہ کر عالم اسلام سے ہٹ کر اپنی پالیسی سازی کرے۔پاکستان اسلام کے نام پر بنا یا گیا ملک ہے اور اسلام سرزمین حجاز سے اللہ کے آخری نبی محمدکریم ﷺ لے کر اٹھے تھے تو اس طرح پاکستان اور سرزمین حجاز کا باہمی نامٹنے والا تعلق ہے ۔

یمن والے معاملے میں ایک بے پر کی بات اڑائی جاتی ہے کہ ہماراہمسایہ ملک ایران ناراض ہوگا ۔جب افغانستان میں ایران نے ہمارے دشمن ملک بھارت کا ساتھ دیا تھا تب کیاپاکستان ناراض ہوا تھا؟ اور ایران ویسے بھی حوثی قبائل کی مدد سے انکاری ہے کہ وہ یمن میں حوثیوں کی مدد کررہا ہے یوں یہ معاملہ داعش کی طرح کا ہے جیسے وہ دہشتگرد ہیں ویسے ہی یہ یمن میں اٹھنے والے بھی دہشت گرد ہیں اور اگر ان سے حرمین شریفین کو خطرہ ہے اور یقیناًہے بھی تو آگے بڑھ کر ان کا سرکچلنے کی ضرورت ہے جو کہ سعودی حکومت اور دیگر اسلامی ریاستوں نے شروع کیا ہوا ہے نا کہ انتظار کیا جائے کہ کب وہ مکہ ومدینہ کی حدود میں داخل ہوں اور ہم اپنی افواج بھیجیں کہ ہم حرمین کے محافظ آرہے ہیں ۔اس وقت محافظ بننے سے بہتر ہے کہ ابھی سعودی عرب کا ساتھ دے کر مسلمانوں کو اکٹھا کرکے کفار کی سازشوں کا منہ توڑ جواب دیا جائے ۔ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے ہرپاکستانی کی اس قت دل کی آواز ہے کہ سعودی عرب کی حفاظت کی جائے کیوں کہ اس میں ہمارا قبلہ اور ہمارے نبی محمد عربی ﷺ کا حرم ہے ۔ پاکستانی حکمرانوں کو بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ کیا کررہے ہیں اس وقت جب پوری دنیا کی نظریں یمن والے معاملہ کی طرف لگی ہوئی ہیں ہم چاہ کر بھی (گو کہ ہماری منتخب پارلیمنٹ غیرجانبدار رہنے کا فیصلہ کرچکی ہے )اس معاملے سے غیر جانبدار نہیں رہ سکتے مجھے سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان اس معاملے سے غیر جانبدار رہ کر کیا حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ اگر خدا نخواستہ ہمارے کسی دشمن ملک نے آگے بڑھ کر اس معاملے میں سعودی عرب ودیگر ممالک کی حمایت کا اعلان کردیا تو ہمارے لئے بہت سارے مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں ۔اس وقت ہمیں جرات مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے گو ہم اس وقت داخلی حالت جنگ میں ہیں لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ ہے اور پاکستانی افواج اسلام کی افواج ہیں ۔ پاکستان کو اس معاملے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے عالم اسلام کا نمائندہ بن کر ابھرنا چاہیے کہ جس کی مشاورت سے عالم اسلام اپنے فیصلے کریں اور اس وقت عالم اسلام ایک اتحاد کی صورت میں اکٹھے ہورہے ہیں پاکستان کو اپنی پالیسی اس معاملے میں واضح اور جرات مندانہ بنانی ہوگی تاکہ پاکستانی عوام کی عالم اسلام میں بھرپور ترجمانی کی جاسکے ۔اگر کفا ر نیٹو نام کا اتحاد بنا کر اسلامی ملکوں کوخون میں نہلا سکتے ہیں تو عالم اسلام ایک فوج بنا کر اپنا دفاع کیوں نہیں کرسکتا ؟ پاکستان کو آگے بڑھ کر عالم اسلام کی نمائندگی کرتے ہوئے عالم کفر کے منصوبوں کو خاک میں ملانا ہوگا ۔

میں یہاں پر اسلام آباد میں ہونے والے جماعۃ الدعوہ کے پاسبان حرمین شریفین کے مارچ کا ذکر کروں گا کہ جس میں تمام مذہبی جماعتوں کے علاوہ سیاسی رہنما بھی شریک ہوئے تھے اور ایک بڑی تعداد میں عوام بھی شریک تھی کہ جنہوں نے حرمین شریفین کے تحفظ کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کا وعدہ کیا تھا اور اس کے بعد جماعۃ الدعوۃ کے امیر جناب حافظ محمد سعید صاحب نے ایک ملک گیر تحریک چلانے کا اعلا ن کیا تھا ۔میں یہ سب کچھ دیکھ کر بہت خوشی محسوس کررہا تھا کہ پاکستان کی عوام صحیح معنوں میں امت مسلمہ کی نمائندگی کررہی ہے لیکن بعد کے ہونے والے واقعات کہ جن میں پارلیمنٹ میں قرارداد قابل ذکر ہے نے میرا سر شرم سے جھکا دیا کہ میں صرف پاکستانی ہوں باقی سب بعد میں ۔میں حرمین شریفین کے اندر لگی آگ توبجھا سکتا ہوں مگر اس کی طرف بڑھنے والے ہاتھ کو نہیں روک سکتا کیوں کہ وہ ابھی حرمین شریفین سے دور ہے۔

یاد رکھیں اگر آپ ظلم کو روکنے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی نہیں روکتے تو آپ اس ظلم میں برابر کے شریک ہیں ۔
منفعت ایک ہے اسی قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی ،دین بھی،ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی،اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جومسلمان بھی ایک
Muhammad Atiq Ur Rhman
About the Author: Muhammad Atiq Ur Rhman Read More Articles by Muhammad Atiq Ur Rhman: 72 Articles with 61853 views Master in Islamic Studies... View More