میں باغی ہوں
(wajid Nawaz dhol, Bhakkar)
ملک کے عوام ان دنوں دہشت گردی،
مہنگائی ، بے روزگاری، افراتفری سے شدید پریشان ہیں، ساتھ ہی بدعنوانی ،
کرپشن اور لوڈشیڈنگ نے بھرکس نکال دیا ہے۔ جب بدعنوانی ، کرپشن، لوڈشیڈنگ
اور دہشت گردی کے مظالم بڑھ جاتے ہیں تو انقلاب آہی جاتا ہے۔ آپ کو یاد
ہوگا کہ فرانس کی ملکہ نے بہت معصومیت میں جو جملہ کہہ دیا تھا وہ فرانس کے
انقلاب کی وجہ بن گیا تھا، جب ملک کے عوام احتجاج کررہے تھے، ملکہ کے
پوچھنے پر بتایا گیا کہ یہ لوگ روٹی کے لیے سڑکوں پر آئے ہیں ان کے پاس
کھانے کو کچھ نہیں ہے جس پر ملکہ نے کہا تھا کہ ’’ روٹی نہیں ہے تو عوام
ڈبل روٹی کیوں نہیں کھا لیتے ‘‘ ؟ بہرحال ان کا ملک تو ترقی کر گیا کر گیا
مگر ہمارے ہاں آج بھی ملک کا امیر طبقہ تو ترقی کررہا ہے مگر ملک کے غریب
عوام روٹی کو ترس رہے ہیں، اس کی بڑی مثال تو یہ ہے کہ ہے کہ جب نوجوانوں
میں لیپ ٹیپ تقسیم کیئے گئے تو ان میں سے کئی ایک تو اسے فروخت کرتے ہوئے
پکڑے گئے، (یہ خبر بھی میڈیا کے ذریعے ہی آشکار ہوئی تھی)اس کی بڑی وجہ بھی
یہ کم بخت’’ مہنگائی‘‘ ہی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ لیپ ٹاپ بیچنے کی وجہ بھی
اناج ہی ہو سکتا ہے ، کیونکہ پیٹ کے بھرنے کے لیئے بھی اناج کی ہی ضرورت
ہوتی ہے۔ جس ملک کے عوام صرف ’’ روٹی ‘‘ کے بارے میں سوچتے ہوں، وہ لیپ ٹاپ
سے کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ لیپ ٹاپ دینا یقیناًحکومت کا ایک بہت ہی
اچھا اقدام ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ غریبوں کے لیئے روٹی اور روزی کے لیئے
بھی سوچنا چاہیے، میرے سمیت کئی پوزیشن ہولڈرز طلباء بے روزگاری کے طمانچے
کھانے پر مجبور ہیں ، رشوت اور سفارش کا ایسا بھونچال چل نکلا ہے کہ جس کا
اندازاہ لگانا فی الوقت میرے بس کی بات نہیں ہے، سب کچھ ہو رہا ہے یہاں،
مگر نوکری دستیاب نہیں، روزگار کے لالے پڑے ہیں، لوڈ شیڈنگ بھی عروج پر ہے،
مہنگائی اپنے جوبن پر برا جمان ہے، امن و امان ناپید ہے، پھر بھی بے حسی کا
یہ عالم ہے کہ ہمارے یہاں انقلاب نہیں آتا۔ زلزلہ، سیلاب اور سوکھا تو
قدرتی آفتیں ہیں مگر ملک میں ہونے والے فسادات سے بھی عوام کچھ کم پریشان
نہیں ہیں۔ ویسے بھی کسی بھی وقت ایمرجنسی کی حالت سے نمٹنے کے لیئے کوئی
انتظام نہیں ۔ چند مہینوں پیچھے چلے جائیں تو آپ کو ایک واقعہ یاد ہوگا کہ
ایک نوجوان نوکری کے لیئے انٹرویو دینے گیا اور بلڈنگ میں آگ لگنے کی وجہ
سے وہ اپنے بچاؤ کے لیئے اوپری منزل پر چڑھ گیا ، چیخ چیخ کر اس نے مدد
مانگی مگر اسے بچانے کوئی نہیں آیا،اور آگ نے وہاں بھی اسے بچنے نہ دیا اور
بالآخر وہ بے چارہ بلڈنگ سے نیچے گر کر اپنی جان ، جانِ آفریں کے سپرد کر
گیا۔ یعنی اسے نوکری تو نہیں ملی مگر موت ضرور مل گئی۔ صرف یہی نہیں ایک
ایسے طالبعلم کی داستان بھی سامنے آئی جس نے اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر
ہزاروں طلباء میں سے پہلی پوزیشن حاصل کی، ایک جاب کے لیے انٹرویو دینے گیا،
سفارش اور رشوت کی چابی نہ ہونے کے باعث اُسے ڈراپ کردیا گیا، چند ماہ بعد
وہی طالبعلم ایک بینک ڈکیتی کے دوران پولیس مقابلہ کی نظر ہوگیا۔حکومت کے
پاس نوجوانوں کے لیے لیپ ٹاپ تو ہیں مگر روزگار نہیں، سولر پینل تو ہیں مگر
انصاف نہیں، اپر پنجاب کے طالبعلموں کو انعام و اکرام اور تمغوں سے نوازا
جاتا ہے، کیاجنوبی پنجاب کے طلباء کو یہ حق حاصل نہیں، ایک غیر ملکی ادارہ
کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پنجاب کی سرائیکی بیلٹ میں بے پناہ ٹیلنٹ موجود
ہے مگر اُسے پالش کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے کوئی سٹیٹجی نہیں ہے۔ جب ہم
اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں تو ہمیں ’’ سڑیل اور غدار ‘‘ کا لقب دے کر ’’
بیک ‘‘ کردیا جاتا ہے۔ دنیا ئے عالم میں سیاسی سسٹم روز بروز ترقی کر رہا
ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں پسند نا پسند کی روایت نے جہاں ہمارے اقدار کو
روند کر رکھ دیا ہے وہیں سیاسی سسٹم بھی ’’ کھٹارہ بس ‘‘ کی طرح دھواں
نکالتا کسی ٹوٹی پھوٹی انجام و ویران سڑک پر رواں دواں ہے۔ دولت اور شہر ت
کے بچاری ان سیاستدانوں نے سوائے اپنی ذات کی تسکین کے کچھ نہیں کیا، بے
گناہوں کا خون کیا جارہا ہے ، آخر ریاست ہے کہاں ؟؟ حالات کے ظلم و ستم اور
آمرانہ سوچ سے تنگ آج کا نوجوان مایوسی کا شکار ہے، اُسے ملک میں صرف
پاکستان آرمی ہی واحد اُمید نظر آرہی ہے ، سیاسی قوتوں پہ اعتبار اٹھتا
جارہا ہے ۔ معاشرہ کے ساتھ اگر ناانصافی ہوتی رہی تو پھر میرا قلم ’’ بغاوت
‘‘ کرتا رہے گا، اور اگر یہ جرم ہے تو ، جرم سہی ’’ میں باغی ہوں ‘‘ ۔
’’ ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا ، میں نہیں مانتا ‘‘
|
|